"بولو کہ پہچانے جائو" حضرت علیؓ کا قول ہے۔ دو جمع دوچار کی طرح محکم اور اٹل۔ خالص سچائی کی طرح واضح اور روز روشن کی طرح عیاں قول ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آدمی کسی اور طرح سے نہیں پہچانا جا تا۔ آدمی اپنے رنگ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ زبان اور نسل سے بھی پہچانا جاتاہے لباس اور شکل وصورت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ عمر اور صحت وتندرستی سے بھی پہچانا جاتا ہے طو رطریقو ں اور دوست احباب سے بھی پہچانا جا تاہے مسئلہ یہ ہے کہ اِن سب باتوں سے آدمی کے کسی ایک پہلو شناخت ہوتی ہے ساری شخصیت کی نہیں۔ مثلاً آدمی کی کالی رنگت سے یہ تو معلوم ہوجاتاہے کہ وہ کسی گورے کے مقابلے میں ایک سیاہ فام شخص ہے لیکن رنگت سے کسی کی اچھائی یا برائی ظاہرنہیں ہوتی۔ بولنے سے آدمی سر سے لے کر پائوں تک اپنا تعارف خود ہی کرادیتا ہے۔ بولنے کا انداز، لہجہ، الفاظ کا چنائواور بولنے کے ساتھ جاری حرکات وسکنات آدمی کو کھول کر سامنے رکھدیتی ہیں۔
اللہ نے شروع دن سے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے اپنے پیغمبر وں اور رسولوں کی پہچان اُن کے بولنے کے ذریعے کرائی۔ اللہ اپنی مخلوق سے خود کبھی براہ راست کلام نہیں کرتا۔ اللہ کا کلام فرشتہ لے کر نازل ہوتاہے فرشتہ اللہ کے رسول پر اللہ کا کلام نازل کرتاہے۔ وہ کلام جو و حی کے ذریعے رسول پر نازل ہوتاہے وہ کلام لوگوں کی فہم وفراست اور رہنمائی کے لئے زبان رسول سے ادا ہوتاہے۔ رسول کا بولنا رسول کی پہچان کراتا ہے۔ اس کلام الہٰی کی روشنی میں ہی رسولؐ کے عمل کو ہدایت پانے والے جا نچتے اور پرکھتے ہیں اس کے کلام پر یا لبیک کہتے ہیں یا اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔ انسان کی ساری تاریخ گواہ ہے کہ کسی پیغمبر نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کبھی خیانت نہیں کی، کبھی ظلم نہیں کیا کبھی منافقت نہیں کی جوکہاوہی کیا اور جو کیا وہی کہا بھی۔ لکھ کر بھی بولا جاتاہے سارے شاعر ادیب، صحافی اور کالم نویس، فلسفی سائینسدان اور دانشور اپنی تحریروں کے ذریعے بولتے ہیں۔ عظیم دانشور مرحوم اور آنجہانی ہونے کے باوجود آج تک بو ل رہے ہیں کیونکہ ان کی موت کے سینکڑ وں سالوں کے بعد بھی انھیں پڑھا جارہاہے۔ حضرت علیؓ یہ بھی فرماتے ہیں کہ" جب میں چاہتا ہوں کہ اللہ سے بولوں تو نماز پڑھتاہوں اور جب چاہتاہوں کہ اللہ مجھ سے بولے تو قرآن پڑھتاہوں " بولنے کے اور بھی ذرائع ہیں۔ مصوری کے ذریعے بھی بولا جاتاہے۔ سنگتراش بھی بولتاہے، مجسمہ ساز بھی بولتاہے۔ باغبان، سُنار، لوہار، کمہار سبھی بولتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک بے کار بھی بولتاہے اور دھڑلے سے بولتا ہے۔ سائینسدان اپنی ایجاد کے ذریعے بولتاہے۔ خاموشی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ جولوگ موقع محل کے مطابق خاموش رہ کر بولتے ہیں وہ اچھے اچھوں کی بولتی بند کردیتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بولنے سے پہچان کیسے ہوتی ہے؟ بولنے والے کا مخاطب اس کے بار ے میں ایک رائے قائم کرلیتا ہے۔ رائے اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی، اچھی رائے اُسی صورت میں قائم کی جاتی ہے جب مخاطب سے خوش اخلاقی کے ساتھ، دوستانہ انداز میں، دھمیے اور برادارنہ لیجے میں با ت کی جائے۔ یہی مخاطب جب جوابا ً بولتا ہے تو پہلے بولنے والا مخاطب بن جاتاہے۔ دونوں کی ایک دوسرے سے گفتگو یا تو انھیں ایک دوسرے کے لئے قابل قبول بنادیتی ہے یا پھر ناقابابل برداشت اس گفتگو کے نیتجے میں دونو ں ایک دوسروں کو جان جاتے ہیں ایک دوسرے کو جاننے کے بعدہی وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ اکھٹے مل جل کررہ سکتے ہیں یا نہیں۔ یہی حال کسی ایک مقررکا مجمعے سے خطاب کی صورت میں بھی نکلتا ہے مجمع بھی مقرر کو پہچان جاتاہے اور مقرر بھی مجمع کے تیوروں سے اپنی شناخت کا اندازہ لگا لیتاہے۔ پہچان کا یہ عمل اور ردعمل آدمی کی ساری زندگی میں جاری وساری رہتاہے اس پہچان کے باعث خاندان، قبیلے معاشرے اور قومیں بنتی ہیں۔
تقویٰ کیاہے؟ کیاتقویٰ بولنا نہیں ہے؟ یہ بات تو بتا دی گئی کہ کس کس طرح اور کیسے کیسے طریقوں سے بولا جاتاہے بولنا صرف زبان سے ادا کئے گئے الفاظ تک محدود نہیں ہوتا، جسم کا ہر ہر عضو بولتاہے، آنکھوں کی پتلیاں، آوازوں کا اتار چڑھائو، سوچوں کے مددجزر کے نیتجے میں ساری حرکات وسکنات بولتی ہیں۔ اسی طرح سارا معاشرہ بولتاہے اور پوری قوم بولتی ہے ملک بولتے ہیں اور دنیا بولتی ہے صر ف فرد ہی اپنی پہچان نہیں کراتا۔ اس حساب سے ساری مخلوق خدا اپنی پہچان کراتی ہے۔ شروع دن سے کرارہی ہے اور قیامت تک کراتی رہے گی۔ اسی پہچان کا حساب لیا جائے گا۔ اچھائی اور برائی کو کیوں سامنے لایا جائے گا؟ اس لئے کہ اچھائی بھی بولتی ہے اور برائی بھی بولتی ہے جب کوئی چیز سامنے آجاتی ہے تو اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ دنیا کی عدالت میں دن دیہاڑے لوگوں کے جم غفیر کے سامنے کئے گئے بدترین جرم کو بھی جھٹلایا جاسکتاہے لیکن آخرت کے دن کا مالک منصف ہونے کے علاوہ گواہ بھی ہے اُس کے انصاف سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس سے معافی مانگ لی جائے۔ معافی بھی زبان سے نہیں کیونکہ زبان کا استعمال تو اپنے جیسوں کی تسلی وتشفی کے لئے ہوتاہے ان کے لئے ہوتا ہے جو زبان سے آگے کے لئے مکمل اندھے ہوتے ہیں۔
دل کی آواز کو صرف آخرت کے دن کا مالک سن سکتاہے وہی سن سکتاہے جس سے کوئی چیز اور کوئی بات مخفی نہیں رہ سکتی۔ ہم گلے لگ کر اور کندھے سے کندھا ملا کر ایک دوسرے سے شدید نفرت کرنے کے عادی ہیں اور اللہ سے محبت کا دن رات دم بھر بھر کر شیطان کے صدقے واری جانے سے باز نہیں آتے۔ علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں "اگر لوگوں کو ایکدوسرے کے بارے میں ایک دوسرے کے خیالات کا پتہ جل جائے تو لوگ ایک دوسرے کود فنانا بھی پسند نہ کریں "۔ اس لئے آدمی کو کھل کر اپنی پہچان کرانی چاہئے۔ کیوں؟ اسلئے کہ صرف منافق ہی اپنی پہچان کرانے سے ڈرتاہے۔