ایک ہوتاہے دوغلاپن، جس کا مظاہر ہ مختلف لوگوں سے ہوتا رہتا ہے یعنی آدمی کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔ دوغلے پن کو کسی بھی قوم یا ملک میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ کیوں؟ اسلئے کہ دوچہروں والی کوئی بھی شخصیت قابل اعتبار نہیں ہوتی نا گھر کے اندر نا گھر کے باہر نامحلے میں نا محلے سے باہر اور ناہی کسی معاشرے اور قوم میں دوچہروں والا ایک ہی شخص قابل اعتماد گرداناجاتاہے۔ اس کے باوجود ہر خاندان میں، گلی، محلے میں اور قوم وملک میں دوغلے لوگ کثرت پائے جاتے ہیں۔ کیا دوغلے لوگ منافق ہوتے ہیں؟ نہیں منافق اور دوغلے میں بہت فرق ہے منافق جس کا اندر سے ہوتاہے اس کی وابستگی کو ظاہر نہیں کرتا اور اپنی اصلی وابستگی کا تحفظ کرتا رہتا ہے جب ایسا کرنے میں کہیں ناکام ہوتاہے تو اسکی منافقت پکڑی جاتی ہے۔ وہ بے نقاب ہوجاتاہے۔ جبکہ دوغلاشخص کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنی شخصیت کے دونوں پہلوئو ں کو ساتھ لیکر نہیں چلتا وہ عادتاً ایسا کرتاہے جس طرح بعض لوگ عادتاً جھوٹ بولتے ہیں اور بعض لوگ ضرورتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہوتاہے کہ دونوں میں سے بڑا جھوٹا کون ہے۔
جس طرح منافقت کسی مقصد کے تحت روارکھی جاتی ہے بالکل اسی طرح جھوٹ بھی کسی ناکسی چھوٹے بڑے مقصد کے لئے بولا جاتاہے۔ جیسا کہ قارئین جانتے ہیں میرا کالم کوئی تحقیقی مقالہ نہیں ہوتا بلکہ خیالات کے مدجزر کا ایک دھارا ہوتا ہے جسے میں ترتیب دینے کی کوشش کر تاہوں تاکہ موضوع کے بارے میں گفتگو واضح ہوسکے اور کوئی ناکوئی نیتجہ بھی برآمد ہوجائے۔ دوغلاپن آدمی کی کسی شعوری کوشش کانیتجہ نہیں ہو تابلکہ لاشعوری نفسیاتی کیفیتوں کا نیتجہ ہوتا ہے۔ دوغلا شخص کسی کو باقاعدہ نقصان پہنچانے کی غر ض سے کبھی کچھ اور کبھی کچھ بولتا اور کرتاہی نہیں بلکہ اسکے لئے فکر کی یکسوئی شخصی طور پر ناممکن ہو تی ہے۔ پس ثابت ہوگیا کہ منافق اور جھوٹا ایک دوغلے آدمی سے بالکل مختلف ہو تا ہے۔ جھوٹے اور منافق دونوں قسم کے لوگ لعنت کے مستحق قرار دئیے گئے ہیں جبکہ دوغلے لوگ اس شعوری معذوری کے باعث قابل معافی سمجھے جاتے ہیں۔ دوغلے شخص کی مثال اُن معصوم بچوں کی سی ہوتی ہے جو ایک ہی وقت کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ انھیں اس سلسلے میں میں کوئی موردالزام نہیں ٹھہراتا۔
ہمارا آج کا موضوع "دوہرے معیار کا راج ہے" سب سے پہلے تو یہ جاننا ضرور ہے کہ دوہرا معیار ہوتا کیا ہے؟ دوہرے معیار کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی کلام یا عمل کی توجیح، تشریح یا تاویل اپنی مرضی اور چاہت کے مطابق کسی ایک کے حق میں او ر کسی دوسرے کی مخالفت میں کی جائے۔ کسی کو اسکے تحت موردالزام اور کسی کو قابل ستائش سمجھا جائے۔ کسی کو بدخو، بدگمان اورجنگجو سمجھا جائے او رکسی کو اسی بنا پر خوش اخلاق، خوش سیرت اور امن وآشتی کا علمبردار جانا جائے۔ دُوہرے معیار کا اظہار کسی فر د تک ہی محدود نہیں ہو تا بلکہ خاندان، قبیلے، قومیں اور ملک وقوم تک اس کیفیت کا شکار ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دوہرے معیار کو بھی منافت اور جھو ٹ کی طرح کسی بھی معاشرے میں سراہا نہیں جاتا بلکہ بہت ساری علتوں کی وجہ سمجھا جاتاہے۔ اسکے باوجود حیرت کی بات یہ ہے کہ دوہرے معیار کے حامل لوگ ہر معاشرے اور قوم و ملک میں کامیاب وکامران ہی نظر آتے ہیں۔ آج کل تو پوری دنیا میں دوہرے معیار کا راج ہے۔ کامیاب وکامران سے میری مراد مال ودولت، عہدہ اور منصب، آرام دہ آمدورفت اور پرتعیش زندگی سے ہے۔ میری اپنی نظر میں یہ باتیں ہر گز کامیابی اور کامرانیوں کا معیار نہیں ہیں لیکن مادی دنیا کی مروجہ فکر اور سوچ کے عین مطابق ہیں۔ قرآن کے احکامات کی روشنی میں فلاح پانے والے اور ہدایت یافتہ لوگ ہی کامیاب لوگ ہوتے ہیں جنکی فکر اور سوچ بالکل مختلف ہوتی ہے۔ یہ وہ سوچ ہوتی ہے جسے عام طور پر دقیانوسی اورپسماندہ سوچ کہا اور سمجھا جاتاہے۔ یعنی مادی سوچ کے تحت کامیاب وکامران لوگ روحانی سوچ کے تحت ناکام اور نامراد لوگ ہوتے ہیں۔
آدمی دوہرے معیار کیوں اپناتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں دوہرے معیار کا منبع یا ماخذ کیا ہوتاہے؟ اسے سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اسے سمجھنے کے بعد ہی ساری کشمکش کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ دوہرے معیار کا کوئی ایک ماخذ نہیں ہوتا۔ دوہرے معیار کا حامل کئی طرح کی بنیادی وجوہات کی گرفت میں ہوتا ہے۔ محبت اور نفرت کی گرفت، عقیدے کی گرفت، خاندان، برادری، رشتہ داری اور قوم و ملک کی گرفت، رنگ ونسل کی گرفت، زبان طور اطوار اور رسم ورواج کی گرفت۔ تاریخ اور جغرافیے کی گرفت، امارت اور غربت کی گرفت کے ساتھ ساتھ وقتی ضروریات اور لمحاتی تقاضوں کی گرفتاریوں کا شکار رہتاہے۔ ان سب حصاروں کے اندر سے نکلنا اتنا آساں نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اسلئے کہ آدمی سارے کام سوچ سمجھ کر نہیں کرتا ہرکام کرنے سے پہلے اُس کا تجزیہ نہیں کرتااور ناہی اسکے نتائج پر غور کرتا ہے۔ آدمی کا زیادہ ترعمل ایک ردعمل ہوتا ہے جس کے پیچھے کسی بھی قسم کی سوچ بچار نہیں ہوتی محض وہ طرح طرح کے ماخذ ہوتے ہیں جن کے حصاروں میں اس کی شخصیت پروان چڑھتی ہے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ کوئی تعلیمی قابلیت، سند یا علمی تجربہ آدمی کو ان حصاروں کی قید سے رہائی نہیں دلاسکتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ کسی بھی آدمی کے ہمہ وقت احاطے میں نہیں آسکتے ان کا مسخر کرنا جدید یا قدیم کسی بھی علمی شاخ کے ماہر کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہوتا ہے۔ کوئی عالم فاضل ان حصاروں پر قابو نہیں پاسکتا کیونکہ یہ آدمی کی شخصیت کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں۔ کوئی شخص اپنے اندر سے باہر نہیں نکل سکتا اور جب تک کوئی اپنے اندر سے باہرنکلتا وہ ان اندرونی حصاروں پر قابو نہیں پا سکتا۔
سوال کرنا آدمی کی سرشت میں شامل ہے۔ آدمی سوال دوسروں سے کرتاہے۔ چونکہ وہ اپنے سوال کرنے کے بنیادی ماخذو ں کے ادراک کے بغیر سوال کرتا ہے اس لئے تسلی بخش جواب نہیں پاتا۔ جب سوال ہی غلط ہوں تو جواب کیسے صحیح ہو سکتے ہیں۔ ہم اُس کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے؟ سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے؟
پھر دوہرے معیار وں کے حصار سے آدمی کیسے نکل سکتا ہے؟ یعنی آدمی اپنی ذات کی قید سے کیسے آزاد ہوسکتاہے؟ ذات کی قید سے آزادی کا ایک ہی راستہ ہے۔ صراط مستقیم والا راستہ۔ یعنی اللہ کی اطاعت اور رسولﷺ کی اطاعت کا راستہ اس راستے پر چلنے سے ساری پگڈنڈیاں ایک سیدھے راستے سے مل جاتی ہیں۔ ساری وابستگیاں ایک بڑی وابستگی کے تحت ہو جاتی ہیں۔ تذبذب کے راستے سکو ن اور اطمینان کے ایک سیدھے راستے پر آن کے مل جاتے ہیں۔ ہر قسم کا ٹیڑھا پن دُور ہوجاتاہے۔ وہ ٹیڑھا پن جو طرح طرح کے دوہرے معیاروں کو جنم دیتا ہے۔ جب آدمی سیدھے راستے پر آجائے تو سارے معیار بھی سکٹر کر ایک کسوٹی میں بدل جاتے ہیں۔ ایک اللہ، ایک رسول، ایک قرآن اور ایک کعبہ کے بعد مسلمان کے لئے بھی سوائے ایک رہنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا۔ جب آدمی ہر قسم کی دوئی سے نکل کر وحدت کے سائے تلے آجائے تو دوہرے معیاروں کا راج بھی ختم ہوسکتا ہے۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔