کوئی دین دھرم قوم قبیلہ ملک اور معاشرہ ایسا نہیں جہاں لوگ بغیر دوست یا بھائی کے رہ رہے ہوں، یہ ایک ایسا انسانی تعلق ہے جو دیگر تمام تعلقات کو بنیاد فراہم کرتاہے ایک ماں باپ کی اولاد ہی بھائی بہن بنتے ہیں بھائی بھائی کا رشتہ اٹل اور اٹوٹ ہوتا ہے بھائی اپنے بھائی کو اپنے ہا تھوں سے قتل کردینے کے باوجود بھی بھائی ہی رہتاہے۔ آدمی کچھ بھی کرلے خون کے اِس رشتے کو ختم نہیں کرسکتا۔ قرآن کے مطابق پہلا انسانی قتل قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا کیا تھا۔ یہ پہلا انسانی قتل اُس وقت ہوا تھا جب آدمی کو لاش ٹھکانے لگانے کا کوئی طریقہ بھی معلوم نہ تھا۔ یہ طریقہ بھی آدمی نے کوے سے سیکھا تھا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ آدمی نے آدمیوں والی بات ایک کوے سے سیکھی جبکہ اس کے برعکس عقل اور علم والی ساری باتیں آدمی نے پیغمبر وں سے سیکھیں۔
بھائی کون ہوتا ہے؟ جس گھر میں جو بچہ پیدا ہو تاہے اُس گھر میں پیدا ہونے والا دوسرا بچہ اُس کا بھائی اور کوئی بچی اُس کی بہن بن جاتی ہے یہ رشتہ زندگی بھر قائم رہتاہے۔ بھائی اور بہن چنے نہیں جاتے، بس بن جاتے ہیں۔ اپنی مرضی سے نہ بھائی بن سکتے ہیں اور نہ ہی بہنیں۔ کوئی اس رشتے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔ ایک دوسرے سے شدید نفرت، بغض، حسد اور عداوت کے باوجود اس رشتے سے انکار ناممکن ہو تاہے۔ بھائی بھائی کے لئے جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتاہے یہ زندگی کا ایک عام مشاہدہ ہے۔
آرہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں او ر بھائی بہت
اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں مشہور ہے کہ نہ اس نے کوئی نماز چھوڑی اور ناہی کسی بھائی کو زندہ چھوڑا۔ دوست کو ن ہوتاہے؟ بھائی کے برعکس دوست خود بنایا جاتاہے پہلے سے بنا بنایا دوست مل نہیں جاتا۔ حالات وواقعات بندوں کو پرکھ پرکھ کر ایک دوسرے کا دوست بنا نے میں مددگار ثابت ہوتے۔ ہیں کہتے ہیں لفظ دوست میں د، سے دیانتدار و، سے وفادار س، سے سچا اور ت، سے تابعدار ہو تاہے یعنی ان چار خو بیوں کا حامل شخص ہی ایک دوست کہلانے کا حقدار ہوسکتاہے۔ غالباً اس وجہ سے فارسی کی ایک مشہور کہاوت ہے "دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست۔ درپریشاں حالی ودرماندگی"یعنی دوست وہ ہوتاہے جو حالت پریشانی اور درماندگی میں دوست کا ہاتھ تھامے رکھے دوستی اُسی لمحے ختم ہوجاتی ہے جب کسی بھی سطح اورمقام پر اس تعلق کے نفی ہوجائے۔
اس طرح یہ بات تو طے ہوگئی کہ انسان کے باہمی تعلقات میں دوست اور بھائی کا تعلق بنیادی تعلق ہوتاہے یا آدمی کسی دوسرے آدمی کا دوست ہوتاہے یا بھائی اسلئے کہ باقی تمام تعلق ناطے انہی دوناطوں اور تعلقات سے جڑے ہوتے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ اٹوٹ اور قابل تقسیم رشتے پل بھر میں ٹوٹ جانے والے رشتوں کے باعث وجود میں آتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کا رشتہ خود ساختہ رشتہ ہوتا ہے جو مختلف قسم کی ناچاقیوں، گھریلو جھگڑوں یا شک وشبہوں کی وجہ سے طلاق کے ذریعے ٹوٹ جاتا ہے لیکن اِس ناپائیدار اور عارضی رشتے کے باعث جنم لینے والے رشتے اٹل اور پائیدار ہو تے ہیں۔ بھائی بہن کا رشتہ نا ٹوٹنے والارشتہ ہوتاہے اسکے بعد آدمی کاجودوسرا اہم ترین تعلق ہے وہ دوستی کا تعلق ہوتا ہے جو آدمی خود قائم کرتاہے ہے دوستی کا یہ تعلق بنتا بگڑتا رہتاہے کیونکہ یہ اوپر سے نازل نہیں ہو تاہے بلکہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق خود بنایا جاتاہے چاہے بھائی بدترین دشمن بھی بن جائے بھائی ہی رہتاہے لیکن دوستی اسی وقت ختم ہوجاتی ہے جب اس میں دڑاڑ پڑ جائے یہی وجہ ہے کہ بھائی دوست ہوسکتاہے لیکن دوست بھائی نہیں ہوسکتا کوئی بھی خونی رشتہ منہ بولا رشتہ نہیں بن سکتا اگر اس طر ح ممکن ہوتا تو زیدبن حارثہ ؓ کی مثال پیش نہ کی جاتی۔ جورشتے اللہ نے قائم کئے ہیں انھیں توڑا نہیں جاسکتا اور تو کیا خود آدمی اللہ کا بنایا ہوا اپنا رشتہ نہیں توڑ سکتا۔
ان انسانی رشتوں کی پاسداری اللہ بھی فرماتاہے بندہ قران کے مطابق ید اللہ، عین اللہ، لسان اللہ اور سیف اللہ یعنی اللہ کا ہاتھ، اللہ کی آنکھ، اللہ کی زبان اور اللہ کی تلوار سے مشابہ گردانا جاسکتاہے اور کلیم اللہ، روح اللہ، خلیل اللہ اور رسول اللہ کے عظیم ترین درجات کا اہل تو ہوسکتا ہے لیکن عیسیٰ ؑ کو بن باپ کے پیدا کرنے کے باوجود اُسے ابن اللہ نہیں کہا جاسکتاکیونکہ وہ ذات واحد ہ لاشریک نا کسی سے پیدا ہوئی ہے اور ناہی اُس سے کوئی پیدا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم ہی پکار جائے گا کیونکہ اللہ نے سمجھانے بجھانے کے لئے انسانی تعلقات کی مثالیں تو ضروردی ہیں لیکن انسانی رشتوں کو ذات خداندی نے ہمیشہ خود سے علیحدہ اور جدا رکھا ہے اب جب پتہ چل گیا کہ سارے انسانی تعلقات اور رشتے انہی دو بنیاوی تعلقات اور رشتوں کے گرد گھومتے ہیں جن میں ایک کا اختیاری اور دوسرا غیراختیاری ہے توپھر ضروری ہوجاتاہے کہ آدمی ان دوروشتوں کی اہمیت کو سمجھ بوجھ کر زندگی گذارے اسلئے کہ آدمی انہی دو رشتوں اور تعلقات کے باعث نا صرف دوسروں کو پہچانتا ہے بلکہ اپنی پہچان بھی کراتا ہے انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شروع دن سے آدمیت کے یہ رشتے خالص نہیں رہے یہ رشتے پتھر کے زمانے سے لے کرآ ج اکیسویں صدی کی چکا چوند تک ہمیشہ آلودہ ہی رہے ہیں جوش ملیح آبادی کے اشعار بڑی حد تک اس صورت حال کا نشاندھی کر تاہے۔
وہی سلسلہء جام وسبو جاری ہے
وہی مشغلہ آہ وہُوجاری ہے
ایسی ٹکر کھا ئی ہے حضرت انسان سے
ادیا ن کے ماتھے سے لہوجاری ہے
انسان اپنے ہائو و ہو کے مشاغل میں اس قدر منہمک رہاہے کہ دوست اور بھائی کے رشتوں کو مسلسل پامال کرتارہاہے قرآن کے مطابق اس کیفیت سے پیغمبر و ں کی اولاد اور رشتے بھی محفوط نہیں رہے ان دوبنیادی رشتوں کی پامالی شیطان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ شیطان سب سے پہلے بھائی کو بھائی سے جدا کرتاہے اور پھر دوست کو دوست سے بدگمان کرتاہے۔ ہمیں شیطان سے بچ کر رہناچاہے۔
قرآن کے مطابق قیامت کے دن لوگ گروہ در گروہ پیش کئے جائیں گے۔ پیشوایان دین نے باربار کہا ہے کہ لوگوں کا صرف ایک گروہ انسانوں کی شکل میں محشور ہوگا اور دوسرے گروہ جانوروں کی شکل میں محشور ہوں گے۔ مسند احمد بن حنبل کے مطابق کچھ گروہ چیونٹیوں کی شکل میں، کچھ گروہ بچھوئوں کی شکل میں، کچھ گروہ بندروں کی شکل میں اور کچھ گروہ چیتوں کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔ کیوں کیا یہ ممکن ہے کہ خدا بلاوجہ ایک انسان کو جانور کی شکل میں تبدیل کردے؟ نہیں! بلکہ جو شخص دنیا میں بچھو بن کے رہا اور سوائے ڈنک مارنے کے اور کوئی کام نہ کیا اور دوستوں اور بھائیوں کو اذیت پہنچانے میں خوشی محسوس کرتا رہا وہ اپنی حقیقی شکل یعنی بچھو کی شکل میں ہی محشور ہوگا جو اپنی خصلت میں بندر ہو بندر کی شکل میں اٹھایا جائے گا۔ اسی طرح جو اپنی خوبو اور طور طریقوں میں کتا ہو وہ یقینا کتا بنا کر ہی اٹھایا جائے گا۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوستوں اور بھائیوں والے رشتے، انسانوں کی خصلت کے مطابق ہی نبھانے چاہئیں، جانوروں کی خصلت کے مطابق نہیں۔