ایک آدمی زندگی میں کئی بار فیصلے کرتاہے۔ بعض فیصلے وہ سوچ سمجھ کر کرتاہے اور بعض اس سے انجانے میں ہوجاتے ہیں بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتاہے کہ اسے بنے بنائے فیصلے ماننا پڑجاتے ہیں۔ ایسے فیصلے اُس کے اُوپر مسلط کردئیے جاتے ہیں جن کے مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
بعض بنیادی فیصلے آدمی کے لئے قدرت کرتی ہے کہ کس گھر میں کن ماں با پ کے ہاں کس جگہ اور کس وقت پیدا ہونا ہے یہ فیصلہ آدمی خود نہیں کرسکتا ہے۔ ایک اور صورت حال جو آدمی کو فیصلہ سازی میں مزید لاچار بناتی ہے وہ اچانک پیدا ہونے والے واقعات یا حادثات ہوتے ہیں۔ جو فیصلے آدمی اپنی زندگی میں بظاہر اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہے وہ بھی کسی نہ کسی قدرتی یا ماحولیاتی حصار میں جکڑے ہوتے ہیں۔
آدمی کے ماں باپ اس کی مرضی سے نہیں بنے ہوتے آدمی اپنے بہن بھائیوں کاانتخاب نہیں کرسکتا اسی طرح آدمی کو رشتے دار بنے بنائے مل جاتے ہیں۔ آدمی کی زندگی کے زیادہ تر فیصلے کم وبیش انہی خونی رشتوں کے حق یا مخالفت میں ہوتے ہیں جن کا ہونا نہ ہونا آدمی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔
مہذب ترین دنیا کے اندر بھی اکثر اوقات جن باتوں پر لوگ ایک دوسرے کو بُرا یا کم تر سمجھتے ہیں ان باتوں کے لئے خود ہر گز ذمہ دار نہیں ہوتے مثلاً جب کسی کالے کو گورے سے کم تر سمجھا جاتاہے ہے تو اس میں کسی بھی کالے کا کوئی قصور ہر گز نہیں ہوتا کیونکہ جلد کی رنگت اُسنے خود نہیں بنائی جب ایک شخص کسی کمی یا خامی کا ذمہ دار ہی نہیں تو اس بنا پر اسکے لئے اچھائی یا برائی کافیصلہ کیا معنی رکھتا ہے؟ تبھی توخالق کائنات نے جو گورے اور کالے دونوں کا پیدا کرنے والا ہے اعلان کردیا ہے کہ کسی کو کسی پر کوئی فضلیت نہیں سوائے تقویٰ کے کیوں؟
اس لئے کہ متقی آدمی اپنی مرضی سے بنتا ہے بنے تب بھی اور نابنے تب بھی جو کام آدمی اپنی مرضی سے انجام دے اس کے لئے اسے ذمہ دار ٹھہرانا اور سزا یاجزا کا حقدار سمجھنا ہی ٹھیک اورجائز ہوسکتا ہے۔
رشتوں میں صرف ایک رشتہ ایسا ہے جو آدمی خود بناتاہے وہ بیوی کا رشتہ ہوتاہے اس رشتے کے قائم ہوجانے کے بعد بیوی یا شوہر کے وہ سارے رشتے جو اسکی مرضی سے نہیں بنے وہ سسرالی رشتے بن جاتے ہیں یہ سارے رشتے آدمی کی مرضی پربنتے بگڑتے اور ٹوٹجاتے ہیں یہ سارے رشتے ایک طلاق سے سابقہ ہوجاتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹوٹ جانے والا یہی نازک رشتہ نہ ٹوٹ سکنے والے رشتوں کوجنم دیتاہے ایسے اٹوٹ رشتوں کو جنم دیتا ہے جن کے اوپر دین اور دنیا دونوں کی تعلیمات کھڑی کی جاتی ہیں۔ یعنی زندگی کے زیادہ تراچھے یا برے فیصلے آدمی انہی رشتوں ناطوں کے پس منظر میں کرتاہے، اپنی دین اور دنیا انہی رشتوں ناطوں کے طفیل بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ آدمی کے تعلقات کی تیسری بڑی قسم غیر خونی تعلقات کی قسم ہوتی ہے جسے آدمی خود اپنی مرضی اور ماحول کی ضروریا ت کے تحت زندگی بھر بناتا اور بگاڑتارہتا ہے۔
رشتوں کی اس غیر خونی درجہ بندی میں دوستانہ، کاروباری، دفتری، مذہبی، سیاسی، قانونی، علاقائی، لسانی اور برادری اور تعلیمی ہر طرح کے معاشرتی تعلقات آجاتے ہیں۔ آدمی زندگی کے سارے فیصلے کم وبیش انہی رشتوں اور تعلقات میں اتار چڑھائو کے تحت کرتارہتاہے۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والا محاورہ اسی حقیقت کا عکاس ہے اس لئے آدمی کو ایک معاشرتی حیوان سے تشبہیہ دی جاتی ہے کیونکہ اکیلا آدمی کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اکیلا آدمی تو دوسرا آدمی بھی پید ا نہیں کرسکتا کیونکہ تخلیق کے عمل کے لئے جوڑے کی ضر ورت ہوتی ہے۔
آدمی جو بھی فیصلہ کرتاہے اس کے اس کی زند گی پرفوری یا دیر سے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آدمی اپنی زندگی میں چھوٹے بڑے فیصلے دن رات کر تا رہتاہے اسکے باوجود کہ اسکے فیصلے کرنے کی بساط بہت محدود رکھی گئی ہے کیونکہ اسے بہت ساری باتوں میں ایک مجبور محض کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ان ساری قدرتی مجبوریوں اور پابندیوں کے باوجود آدمی کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے جتنا میدان کھلا چھوڑا گیا ہے اس کے تحت بھی وہ فاتح عالم بن سکتا ہے۔ عقل اور محدود ارادے کی دی گئی قوت بھی اُسے ہرچیز پر دسترس پانے کی صلاحیت سے نواز دیتی ہے انسانی تاریخ اس بات کا ثبوت ہے آج انسان اسی طا قت اور قوت کے تحت عظیم ترین بلندیوں کو چھورہا ہے زمین پر ہر طرف پھیل گیا ہے سمندروں کی تہوں تک پہنچ گیا ہے زمین کا سینہ چاک کررہاہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اپنے اندر کی دنیا کو بڑی حد تک جان گیا ہے۔ اپنی اسی آگاہی کے تحت باہر کی دنیا کو اس طرح سے مسخر کرچکاہے کہ جس کا کچھ عرصہ پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ ان سارے چھوٹے بڑے وقتاً فوقتاً کئے گئے فیصلوں کے اثرات ہیں جو آدمی نے اپنی پیدائش کے دن سے لئے کر آج تک کئے۔
چند فیصلوں کے علاوہ جو بڑے بڑے اور عظیم سائنسدانواں، دانشوورں اور رہنمائوں نے کئے، ایسے لاتعداد فیصلے ہیں جو ایجادوترقی کے ہر میدان میں انگنت گمنام لوگوں نے کئے اور ان فیصلوں کے طفیل انسان نے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ بہر حال ا س بات کو بھولنا نہیں چاہئے کہ انسان کو اولین اور مسلسل دانش، دانشوروں سے پہلے اور ان سے زیادہ پیغمبروں نے حکم الٰہی کے تحت عطا کی کیونکہ کوئی دانشوار اور حکیم ودانا شخص اپنے وقت کے کسی بھی پیغمبر سے زیادہ باعلم اور باخبر نہیں رہا۔
یہ حقیقت ہے جسے تاریخ انسانی جھٹلانے سے قاصر ہیاسلئے کہ بیک وقت علم اور کردار میں کوئی بھی دانشور کسی بھی پیغمبر پر اپنے زمانے میں فوقیت حاصل نہیں کرسکا۔ جو بات اب تک بحث میں ثابت کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کے سارے فیصلے اپنے آخری تجزیے میں کسی ناکسی جبر کے تحت ہی ہوتے ہیں، جبر کے تحت کوئی بھی شخص خود مختار نہیں ہوسکتا۔
خودمختار وہ ہوتاہے جو محتاج نہ ہو۔ محتاج کو دوسروں کے لئے گئے فیصلوں کا پابند ہونا ہوتاہے صرف ایک اور لاشریک ذات برحق ہے جو کسی کی محتاج نہیں ہے صرف وہی اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے۔ صر ف اسی کے فیصلے اٹل، ناقابل تغیر اور عدل پر مبنی ہیں۔ محتاج اور خود مختار کے فیصلوں کے اثرات میں جو فرق ہے وہ ہر کائنات کے ہر ذرے سے واضح ہے۔ بلاچون چراں اللہ کے فیصلوں پرعمل ہی ہر طرح کی کامیابیوں کی ضمانت ہے۔