انسان کو اللہ نے بعض ایسی خصو صیات سے نوازاہے جو اُس نے اپنی کسی دوسری مخلوق کو نہیں دیں۔ مثلاً عقل، حسد، غصہ، ، محبت، نفرت وغیرہ۔ تمام چرند وپرند اِن خصوصیات سے محروم ہیں۔ جِن اور فرشتے بھی ان خصوصیات کے حامل نہیں۔ ایک شیطان ہی ہے جسے اللہ نے انسانوں کو ان خصوصیات کا دلدادہ بنانے کے لئے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ قیامت جب برپا ہوگی توپہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر اُڑنے لگیں گے اورہر چیز فنا ہوجائے گی۔ اللہ کی ہر مخلوق انسان کے تصرف کے لئے پیداکی گئی ہے جن میں نباتات، جمادات اور حیوانات شامل ہیں۔ خود انسان بھی ایک حیوان ناطق ہے جس کی زندگی نفس یعنی سانس سے عبار ت ہے اور ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
بعض جانوروں کا انسانوں کے ساتھ بڑا گہرااور تاریخی رشتہ رہاہے جو پتھر کے زمانے سے لے کر آج تک قائم ہے ان چیدہ چیدہ جانوروں میں بھیڑبکریاں، گھوڑے، گدھے، خچر، اونٹ، ہاتھی، کتے، خنزیر، بلیاں، طوطے، کبو تر، مچھلیاں اور کیڑے مکوڑے سبھی شامل ہیں۔ بہت سارے جانوروں کے اندر بعض انسانی خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں اور اس طرح انسانوں کے اندر بعض جانوروں کی خصوصیات بھی بدرجہ اتم نظرآتی ہیں۔ میں میں بکری سے، غصہ اور کینہ اونٹ سے، ناچنا مور سے۔ گانا کوئل سے۔ حملہ شیر سے، بیوقوفی الّو سے، مکاری لومڑی سے، بھاگنا ہرن سے، محنت مشقت اور کمال درجے کی ڈھیٹ اور ذرا ذرا سی بات پر اڑجانا گدھے سے سیکھا ہے۔
چرندپرند کا ذکر تو قران پاک میں بھی نہایت سبق آموز طریقے سے کھل کر آیا ہے ان میں گھوڑا، اونٹ، ہاتھی، بچھڑا، مکڑی، چیونٹی اور ابابیل کے علاوہ اصحاب کہف کے کتے کے ساتھ ساتھ آوازوں میں گدھے کی بُری آواز اوربیوقوفی کاذکر بھی شامل ہے۔ سورہ جمعہ میں ارشادرب العزت ہے " جو لوگ تورات کے مکلف قرار دئیے گئے پھر انہوں نے اسکا حق ادانہ کیا، وہ اس گدھے کی مانند ہیں جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ جس قوم نے آیات الہٰی کو جھٹلایا وہ بری مثال رکھتے ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدائت نہیں کرتا" اہل پاکستان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں اور شہرہ آفاق مدرسوں سے فارغ التحصیل اور اسناد یافتہ لوگ اس سلسلے میں گدھوں سے کس قدر متاثر نظر آتے ہیں۔ مغربی دنیا گدھے کو مثبت خوبیوں کامالک سمجھتی ہے اس سلسلے میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ اس سوپر پاور نے قوم کو دوحصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ ہاتھی اور گدھے کے مابین اس قومی تقسیم کے تحت کئی مرتبہ گدھے کے نشان کواکثریتی ووٹ دیکر اس کی برتری تسلیم کرلیتی ہے۔ اللہ معاف کرے جنکے ایک معمولی سے اشارے سے ہمارے کیسے کیسے، ایسے ویسے اور ایسے ویسے، کیسے کیسے ہوجاتے ہیں، ان کے نزدیک گدھے کے نشان کو حکمرانی کاپورا پورا حق حاصل ہے۔ ہمارا الیکشن کمیشن ہر قسم کا نشان جاری کرتاہے جن میں جانور اور اشیاء دونوں شامل ہیں مثلاً شیر، تلوار، بلا، لالٹین وغیرہ وغیرہ لیکن اس نے گدھے کوکبھی اتنی اہمیت نہیں دی کہ اُسکا نشان بھی الاٹ کرے۔ را شاعر نے درست کہا تھا۔
ہوں میں خادم تیرے ڈیڈی کا چچازاد بہن
ہوجو مطلب تو گدھے کو بھی چچا کہتے ہیں
اس کے برعکس مرزا اسد اللہ غالب ایک مرتبہ آموں سے بھر ی بالٹی سامنے رکھ کر آم نوش جان کررہے تھے، کھا کھا کر چھلکے اور گٹھلیاں پھنکتے جارہے تھے۔ سامنے سے ایک گدھا آیا، چھلکے سونگھے اورچلتا بنا۔ اس پر ساتھ بیٹھے غالب کے ایک دوست نے جو آموں کا شوقین نہیں تھا طنزاً کہا کہ دیکھو گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔ غالب نے برجستہ جواب دیا "ہاں گدھے آم نہیں کھاتے"
ہم چونکہ ہر لحاظ سے ایک منفرد قوم واقع ہوئے ہیں اِسلئے گدھے کو وہ کچھ نہیں سمجھتے جو اُسے مغربی دنیا کے متمدن لوگ سمجھتے ہیں۔ ہم لوگ گدھے کو بیوقوفی کی علامت سمجھتے ہیں۔ سیاسی اور معاشرتی معاملات میں ان کی مداخلت تسلیم نہیں کرتے جبکہ ان کی روز مرہ کی ناقابل انکار افادیت سے دن رات بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں۔ گدھے میں پائی جانے والی دل اور دماغ دونوں سے عاری جسمانی توانائی اور ناتھکنے کی مشقت والی خصوصیات کسی بھی شخص کو ایک بہترین، کامیاب اور قابل رشک شوہر بناسکتی ہیں۔ گدھاکسی بھی لحاظ سے عالم فاضل نہیں سمجھا جاتا۔ اس پر کتابوں کا انبار لادا تو جاسکتاہے لیکن ان میں موجود د علم اُس کے اندر کبھی بھی نہیں آتار ا جاسکتا۔ یعنی گدھا سوال کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ جس طرح ایک شوہر بیوی کے آگے اس صلاحیت سے قطعاً محروم ہوتا ہے، جس کی دفتروں میں بڑی عزت ہوتی ہے۔ جس کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں جس کی رائے صاحب اور دانش مسلم مانی جاتی ہے اس لئے کہ لوگ اسے اس طرح سے بالکل بھی نہیں جانتے جس طرح اسکی بیوی اُسے جانتی ہے۔ یہ گدھے اور شوہر میں حیران کن مماثلت ہی کا نیتجہ ہے کہ جن بیویوں نے شوہر وں کو نکیل ڈال کر رکھا ہوتاہے وہ بھی سہلیوں کے جھرمٹ میں کہتی نظر آتی ہیں "غصے کے بہت سخت ہیں " ایک شوہر کو بھی گدھے کی طرح زندگی بھر پتہ نہیں چلتاکہ وہ در حقیقت وہ ایک گدھا ہے۔
فارسی زبان کی ایک حکایت کے مطابق ایک گدھا ایک درخت کے ساتھ بندھا ہواتھا۔ شیطان نے گدھے کو رہا کردیا۔ گدھے نے رہا ہوتے ہی پڑوس کے کھیت کو تاخت وتاراج کردیا۔ کھیت کی مالکن نے کھیت کی یہ حالت دیکھی تو بندوق اٹھائی اور گدھے کو ماردیا۔ گدھے کے مالک نے گدھے کو مردہ پاکراس عورت کو قتل کردیا۔ عورت کے خاوند نے طیش میں آکر گدھے کے مالک کو مارڈالا۔ شیطان سے جب پوچھا گیا کہ یہ تونے کیا کیا تو اُس نے جواب دیا کہ میں نے تو صرف گدھے کو رہاکیا تھا۔ اس کہاوت سے سبق یہ نکالا گیا کہ جب کسی مملکت کی تباہی اور بربادی مطلوب ہوتو گدھے کو رہاکردینا چاہئے۔ جہاں شیطان کا رہا کردہ ایک گدھا اتنی تباہی وبربادی پھیلاسکتاہے۔ اندازہ لگائیں وہاں کس پیمانے کی تباہی او ر بربادی مچی ہوگی جہاں بیک وقت شیطان نے کئی کئی گدھوں کو رہا کردیا ہو؟ پتہ نہیں ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی دنیا میں انسان قید اور گدھے آزاد نظر آتے ہیں۔ اسی طرح حکایات سعدی کی ایک مشہور حکایت کے مطابق ایک گھوڑا سوار شریف عقلمند تاجر کے ساتھ کسی نوجوان منچلے نے ایک غیر شائستہ حرکت کرڈالی جس کے بدلے میں تاجر نے سرزنش کی بجائے اُسے ایک اشرفی نکال کر دیدی۔ نوجوان نے شہہ پاکر وہی حرکت ایک شہزادے کے ساتھ بھی کرڈالی جس کی پاداش میں شہزادے نے اپنی تلوار سے اُس کا سرقلم کردیا۔ یہ کام وہ شریف تاجر خودبھی کرسکتاتھا مگر خود قتل کا مرتکب ہونے کی بجائے وہی سزااُس نے شہزادے سے دلوادی۔
اللہ نے گدھے کی آواز کو سب آوازوں میں بُرا کہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اللہ کو نرم اور دل نشیں لہجہ پسند ہے اونچی آواز اور شور مچانا اُسے پسند نہیں۔ چونکہ اللہ سب سے بڑا ہے اِس لئے اُسے بندے کی عاجزی اور انکساری پسندہے گدھے والی ہٹ دھرمی نہیں۔ اسلئے گدھے اور معاشرت ایک نہیں ہوسکتے۔