دین کی بنیاد ہی غیب پر ایمان ہے۔ ہر ظاہر چیز پر شک کیا جاسکتاہے لیکن جو ظاہر کتاب مسلمان کو دی گئی ہے اُس کا نازل کرنے والا اللہ اعلان کرتاہے کہ "یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں " جبکہ شک بھی بے شمار چیزوں کی طرح غائب ہی ہوتاہے۔ اس لئے کہ غائب ہوتاہی وہ ہے جو نظر نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ نظر آنے والی اشیاء کی طبعیاتی اور نظر نا آنے والی اشیاء کو مابعدالطبعیاتی کہاجا تاہے سائنس اور دین میں یہ بنیادی فرق ہے سائنس طبعیاتی اشیاء کے مابین اصولوں اور قواعد کو بھی طبعیاتی سمجھتے ہوئے انھیں حقیقی تسلیم کرکے اپنی تحقیقات اور توجہات کو آگے بڑھاتی ہے جس کے نتیجے میں آج کا عام اور پسماندہ اور بیچارہ انسان بھی زندگی کی جن سہولیات سے محظوظ ہورہاہے پچھلے زمانوں کے بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک شہنشاہان وقت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انھیں گھوڑے، تلوار، ڈھال اور ہیرے جواہرات کے آگے کسی چیز کا علم ہی نہ تھا۔ دین کے مقابلے میں سائنس اسلئے اندھی رہ جاتی ہے کہ وہ نظر نہ آنے والے کائناتی اصولوں کو تو بغیر کسی شک وشبے کے بلاچوں وچرا تسلیم کرتی ہے لیکن ان نظر نہ آنے والے اٹل اور ناقابل تبدیل اصولوں والی کائنا ت کو، خلق کرنے والے کو تسلیم نہیں کرتی۔ چیزوں کا غائب ہونا ایک بات ہے اور چیزوں کا آنکھوں سے اوجھل ہونا ایک بالکل دوسری بات ہے اس لئے کہ جو چیزیں آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہیں وہ ضروری نہیں کی غائب بھی ہوں۔ مثلاً پاکستان میں بیٹھے بیٹھے امریکہ نظر نہیں آتالیکن امریکہ غائب بالکل بھی نہیں ہے جبکہ ریاضی منطق اور سائنس کے سارے اصول وضوابط نا صرف آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں بلکہ حقیقت میں غائب بھی ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں زمانہ جاہلیت میں سوائے قبیلہ بنو ہاشم کے ہر قبیلے کا اپناایک بت کعبے کے اندر نصب تھا۔ سرکار دوعالمؐ کے قبیلے کا کوئی بت نہ تھا۔ مسلمان نماز کے اندر درودِابراہیمی ؑ اسلئے پڑھتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف آل نبی ؐ ہی پاک وپاکیزہ نہیں ہے بلکہ نبی ؐ کے آبائو اجداد بھی پاک وپاکیزہ تھے اس غائب اللہ کا تعارف ا س طر ح کرایا گیا "کہہ دو کہ وہ اللہ ایک ہے، وہ بے نیاز ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا (نہ وہ کسی کا باپ ہے) اور ناہی کسی نے اس کو جنا (اور نہ ہی وہ کسی کا بیٹا ہے) اس جیسا کوئی نہیں " یہ بات ریاضی، منطق اور سائنس کے کسی اصول پر بھی منطبق کی جاسکتی ہے اس لئے کہ ہر دائرے کا قانون ایک ہی ہو تاہے قانون نہ کوئی باپ ہوتاہے اور ناہی کوئی بیٹا۔ اسلئے قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں قانون بھی چونکہ ہر لحاظ سے برتر واعلیٰ ہوتاہے اسلئے کہا جاسکتاہے کہ اُس جیسا کوئی نہیں ہوتا یہ پہلے ہی عرض کیا گیا کہ قانون بھی کسی کو نظر نہیں آتا اس سے ایک با ت تو سمجھ میں آگئی کہ قانون نظر نہ آنے کے باوجود ہو تا ضرورہے۔ دوسری بات سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ قانون طبعیاتی اور مادی دنیا کے ان انگنت عوامل کے درمیان باہمی کارکردگی کا نام ہے جس کے تحت کائنات کے بے شمار عوامل ایک دوسرے سے ٹکرانے کی بجائے، اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے ایک باقاعدہ حساب کے تحت روان دواں ہیں۔ اس حساب کی دریافت سائنسی اصول کہلاتی ہے جس کی بنیاد پر ہزاروں سال پرانی دنیا اب نئی اور جدید ہوچکی ہے آدمی ہزاروں میل کے فاصلے سے ایک دوسرے کے ساتھ دھیمے لہجے میں بات کررہاہے مہینوں کا سفر منٹو ں میں طے کررہاہے راتوں کو بھی روز روشن کی طر ح منو ر کر رہاہے زمین کی گہرائیوں سے لے کر فضائوں کی بلندیوں تک تو مسخر کررہاہے۔
آدمی غائب سے آ تاہے اور غائب میں ہی چلا جا تاہے یعنی ماں کے پیٹ کی اندھیری قبر سے نکلتا ہے اور مٹی کی اندھیری قبر میں گاڑ دیا جاتاہے۔ آدمی کی زندگی انگنت لمحات پر محیط ہو تی ہے ہر گزرنے والا لمحہ غائب ہوجاتاہے اور آنے والا غائب رہتاہے آدمی کی ساری جدوجہد اور تگ ودو غائب میں ہی ہوتی ہے غائب سے کسی کو بھی چھٹکارا حاصل نہیں ہے زندگی کا دارومدار سچ اور جھوٹ محبت اور نفرت، خلوص اور منافقت، حسد اور بغض، نیک اور بد خواہشات، اچھے اور برے جذبا ت اور احساسات، خوشی اور غم اور ہر طرح کے درد اور تکلیف اپنی کیفیت اور نوعیت میں بالکل ذاتی ہوتے ہیں جو ماں سمیت کسی کو بھی دکھائی نہیں دیتے کیونکہ غائب ہوتے ہیں۔ جب آدمی قدم قدم پر غائب ہی کا محتاج ہے تو پھر ایک غا ئب کو خالق ماننے میں اچھنبے کی کیا بات ہے؟ جب آدمی اتنی ساری غائب چیزوں اور باتوں کا انکار کرنے سے قاصر ہے تو ان ساری غائب چیزوں او ر باتوں کے خالق کو غائب ماننے سے کیوں کتراتاہے؟ سارے انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے والی ہر طاقت اور قوت وجود رکھنے کے باوجود غائب رہتی ہے جس سے اکیسیویں صدی کا کوئی سائنسدان، دانشوار اور مفکر انکار نہیں کرتا۔ کیوں؟ َ اس لئے کہ جان چکا ہے کہ ایک اٹیم جسے ننگی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا دوپنہاں منفی اور مثبت حرکتوں کا حامل ہوتاہے۔ آدمی جان چکا ہے کہ وقت اور فاصلے کی قید سے نکل کر بھی آدمی اس کی سلطنت سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا جس نے اور بے شمار چیزوں کے ساتھ ساتھ وقت اور فاصلے کو بھی خلق کیا۔ جس نے زندگی اور موت دونوں کو خلق کیا۔ جو ہر زندگی سے پہلے بھی تھا اور جو ہر موت کے بعد بھی رہیگا۔ کیا ایسا غائب پیدا ہونے اور مرنے والوں کی سمجھ میں آسکتاہے؟
انسان کائنات کے بنے ہوئے سانچے کا حصہ ہے ا س کا جز ہے جز کل کا احاطہ کرنے سے قاصر ہو تاہے کل کا احاطہ صرف وہی کرسکتاہے جسے کل کے خالق نے اپنے فضل وکرم سے اس کی توفیق عطا کی ہو۔ غائب رب العالمین نے ساری دنیا کو دکھا ئی دینے والا اپنا محبوب رحمت للعالمین بناکے اس لئے بھیجاتاکہ انسان پر واضح ہو کہ آپﷺکی ا طاعت کے ذریعے انسان کائنا ت کو سمجھ بھی سکتا ہے اور احاطہ بھی کرسکتاہے اور فتح بھی کرسکتاہے کیونکہکی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لو ح و قلم تیرے ہیں لہذانسان کی د نیاور آخرت کی کامیابی کے لئے غیب پر ایمان بنیادی شرط ہے۔