آخر ہمارا مسئلہ کیاہے؟ بظاہر یوں ہی لگتاہے کہ ہر لحاظ سے ہم کسی ناکسی مسئلے کا شکار رہتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتاہے ہم سے کیا مراد ہے؟ ہم سے مراد پاکستان کے لوگ ہیں، اِن میں مرد عورت، جوان بوڑھے، نوجوان اور بچے، امیر، غریب، عالم وجاہل، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ، اُستاد اور طلبا، مزدور کارخانہ دار کسان اور جاگیردار، وعظ، مفتی اور پرہیزگار سبھی شامل ہیں۔ ہر ایک کاکوئی نا کوئی مسئلہ ہر وقت رہتاہے۔ کوئی خاندانی، کوئی علاقائی اورکوئی مسئلہ معاشرتی، قومی، ملکی اور بین الاقوامی ہوتاہے۔ کون ہے جو مسائل کا شکار نہیں ہوتا؟ اِسلئے کہ مسائل زندگی کا حصہ ہیں۔ دراصل زندگی کا دوسرا نام ہی مسائل ہے۔ چوتھے خلیفہ ایک ایسے شخص کے قریب سے گذرے جو اپنے کسی دوست کے لئے دعا مانگتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اللہ اس کے سارے غم دُور کردے، اُسے سارے مسائل سے نجات عطا کردے۔
حضرت نے جب یہ دعاسنی تو اُس شخص سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ اے بندہ خدا تو اپنے دوست کو کیوں بدعائیں دے رہا ہے؟ کیوں تو اُس کے لئے موت مانگ رہاہے؟ وہ شخص حیران ہوکے بولا مولا میں تو اپنے دوست کیلئے دعا مانگ رہاہوں آپ نے فرمایا جو تو کہہ رہاہے کہ تمہارا دوست ہر مسئلے اور ہر غم سے نجات پا جائے اور ہر مصیبت سے آزاد ہوجائے تو حقیقت میں یہ بدعاہے اسلئے کہ صرف موت ہی سے آدمی مسائل، غم واندو اور مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرسکتا ہے۔ پھر آج کے موضوع کا مطلب کیا ہے؟ جب موت سے پہلے مسائل سے نجات ممکن ہی نہیں تو روناکس بات کا ہے؟ پھر اپنے مسئلے کو جاننے کی ضرورت ہی کیاہے؟ کیا ہم کوئی"وکھری " قسم کے لوگ ہیں جن کا مسئلہ اوروں کی نسبت بالکل ہی اور مکمل طور پر مختلف مسئلہ ہے؟ یعنی جب مسائل تمام لوگوں کے ہوتے ہیں۔ زندگی بھر مسائل ساتھ ساتھ رہتے ہیں، حل بھی ہوتے ہیں اورنئے نئے مسائل کو مسلسل جنم بھی دیتے رہتے ہیں تو پھر "ہمارے مسئلے " کی تخصیص کیا ہے؟ کیا ہم کوئی دنیا سے مختلف لو گ ہیں یا ہمارا مسئلہ دنیا کے مسائل سے یکسر کوئی مختلف مسئلہ ہے؟ مثلاً ظلم امریکہ میں بھی ہوتا ہے، تشدد بھارت اسرائیل اور دیگر بہت سے ملکوں میں بھی روارکھا جاتا ہے۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوری دنیا میں جھوٹ بولاجاتا ہے۔ کساد بازاری، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری ساری مخلوق خدا کے لئے ایک عام سی بات ہے۔ انسان کے بنیادی حقوق کی سرعام پامالی ہرجگہ اور ہر خطے میں نظر آتی ہے۔ دھونس، دھاندلی، ناانصافی، ظلم وزیادتی اور بدمعاشی دنیابھر میں منہ چڑاتی نظرآتی ہے معصوم اور کمسن بچوں اور بچیوں ناقابل بیان درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دس بیس سال پہلے پاکستان کے غریب معصوم اورکم سن بچوں پروہ اُفتاد بھی پڑی تھی جس کے تحت انھیں دوڑتے اونٹوں کی پشت پر باندھنے کے لئے سمگل کیا جاتاتھا تاکہ شہزادے اور شہزادیا ں اُنکی کربناک چیخوں سے اونٹوں کی دوڑ میں تیزی سے لطف اندوز ہوسکیں۔
کونسا ظلم ہے جو دنیا کے کسی ملک یا خطے میں نہیں ہورہا؟ وہ ممالک جنہیں دنیا مہذب اور ترقی یافتہ سمجھتی ہے اُس ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہیں جس نے ہندوستان کا سب کچھ تباہ وبرباد کرکے نہروں، سڑکوں اور ریل کی پٹریوں کے جال بچھائے، کلرک پیدا کرنے کے لئے اسکول وکالج بنائے اور اپنے پنجے زیادہ مضبوطی سے ہندوستان پر گاڑنے کے لئے نوکر شاہی نظام متعارف کرایا۔ اسسامراجیت کو اور زیادہ گاڑھا کرنے کے لئے اپنا ساتھ دینے والے وفادارںکو جاگیروں اور بڑے بڑے رقبے عطا کرکے معاشرتی طور پر کچھ اِس طرح ہم پر مسلط کیا کہ ہندوستان کے حقیقی وارثوں کے ساتھ غداری کرنے والوں کی اولاد یں آج معززین اور خاندانی کہلاتے ہیں۔
تفوبر تو اے چرخِ گرداں تفو
دنیا کی تاریخ گواہ ہے لوگوں نے سروں کے مینار لگانے والوں کی بھی تعریفوں کے پُل باندھے ہیں۔ جنہوں نے نے عالمی جنگیں چھڑیں اُن کے حق میں بھی بولنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ گذشتہ صدی میں اور موجودہ صدی کے اندر بھی قتل عام کرنے والوں کے مداحوں کی کمی نہیں ہے۔ بھارت اور اسر ائیل جن کے ہاتھ لاکھوں لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مہذب دنیا کا ایک صدربڑی ڈھٹائی سے ساتھ سمجھتاہے کہ اُس کی منحوس ذات، اُس ذا ت ا قدسﷺ سے زیادہ اہم ہے جس ہستی کو اربوں مسلمان اپنا دین ایمان اور سب کچھ سمجھتے ہیں۔ عالمی سیاست ذاتی اور قوم مفادات کے گرد ہی گھومتی نظرآتی ہے۔ نامی گرامی اسلامی ممالک اپنے سیاسی اورمالی مفادات کے پیش نظر ہی اسرائیل اور ہندوستان جیسے مسلم دشمن مسلم کش ملکوں کو مسلمانوں کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان اور مسلم نشاۃ ثانیہ کے دلدادہ ترکی کے خلاف یک جان نظر آتے ہیں۔ مسائل طرح طرح کے ہیں انگنت ہیں۔ ان سارے خون خرابوں کے کرتادھرتا بعض اوقات اسقدر نشاط انگیز اور عاجز انہ گفتگو اور اعلانات کرتے نظر آتے ہیں کہ حیرت سے کہنا پڑتاہے۔
وہ جو سرکو جھکائے بیٹھے ہیں
جان کتنوں کی لئے بیٹھے ہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطوں پر لوگوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہر وقت رہتاہے۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں لوگوں کے سارے مسائل حل نہیں ہوجاتے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں لوگ مسائل کا شکار ضرور ہوتے ہیں بعض اوقات اپنی دانست میں صحیح لیکن حقیقت میں غلط فیصلوں کے باعث مسائل کا شکار ہوتے ہیں بعض اوقات کسی حادثے، واقعے، جنگ وجدل، قحط یا بیماری اور وباء کی صورت میں مسائل شکار ہوتے ہیں۔ جان بوجھ کر کوئی بھی شخص خود کو مسائل میں مبتلا نہیں کرتا۔ یہ اعزاز صرف ہمیں ہی حاصل ہے کہ ہم اپنے لئے مسئلے خود پیدا کرتے ہیں۔