انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے well began is half done یعنی اچھی ابتدا کا مطلب آدھے کام کی تکمیل ہوتاہے۔ ہزار میل لمبے سفر کی ابتدا بھی پہلے قدم سے ہوتی ہے کسی بھی کام کا آغاز آدمی کسی بھی طرح سے کرسکتا ہے۔ مثلاً دن کا آغاز لوگ مختلف طرح سے کرتے ہیں۔ کوئی بگل بجا کر کرتاہے، کوئی بھجن گاکر، کوئی مورتی کے آگے جھک کر اور کوئی رب لاشریک کو سجدہ کرکے صبح کا آغاز کرتاہے۔
کوئی سروں کے ریاض سے کوئی یوگا کی ورزش سے کوئی طبلے کی تھاپ سے کوئی جگر اتے کے باعث صبح کا آغاز سونے سے کرتاہے، کوئی پریڈ سے کوئی صبح کی سیر سے کوئی اکھاڑے میں ڈنڈ بیٹھکوں سے اور کوئی تلاوت کلام پاک سے دن کا آغاز کرتاہے، آدمی دن کے آغاز کے انداز سے ہی اپنی پہچان کرادیتاہے۔
اس کے کام کی ابتدا کا طریقہ کار اسکے کام کی نوعیت، کیفیت اور اہمیت کا تعین کرتی ہے یہ تینوں باتیں ملکر آدمی کی حیثیت بڑھانے یا گھٹانے میں اپنا کردار اداکرتی ہیں مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ ہر اچھے کام، بات یا چیز کاآغاز اللہ کے نام سے کرتاہے اسکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ اللہ کے نام سے شروع کیاجانے والا ہرکام، ہربات اور ہرچیز اپنی تکمیل تک عبادت بن جاتی ہے۔
میرے دوست اور ساتھی میجر (ر) عبدلحمید جو ایک جانے پہچانے کالم نویس ہیں انھوں نے سال 2021کا اپنا پہلا کالم سیرت النبیؐ کے موضوع پر لکھ کر نئے سال میں اپنی کالم نویسی کی ابتدا کی ہے تاکہ سال پھر رحمتوں کا نزول شامل حال رہے۔ اُن کے اِس جذبے سے شہ پاکر میں نے سوچا کہ میں بھی نئے سال کا پہلا کالم اللہ رسول کی خوشنودی کے لئے لکھوں۔
یک سردار صاحب کو بھرے چوک میں کچھ لوگ ملکر مارہے تھے۔ مار مار کر اُسے لہولہان کردیا تھا۔ سراد صاحب مسلسل مار کھانے کے باوجود ہنس رہے تھے۔
مارنے والے جب اپنی طرف سے تھک ہار کر اس اعتماد کے ساتھ چلے گئے کہ اب سردار صاحب نہیں بچیں گے تو ایک ہمدرد تماش بین سردار صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ" میں آپ کی زخمی حالت کے پیش نظر آپ کو ہسپتال لے جانا چاہتاہوں لیکن صرف یہ بتا دیں کہ اتنی مار کھانے کے باوجود آپ مسلسل ہنس کیوں رہے ہیں؟ "
نکاہت اور کمزوری کے باوجود سردار صاحب نے ہنستے ہوئے کہا "مجھے مارنے والے پاگل تھے اِس لئے کہ جو بندہ سمجھ کر مجھے وہ مار رہے تھے میں تو وہ ہوں ہی نہیں ـ" ہم بھی زندگی بھر ماریں کھاتے رہتے ہیں اور نہیں جان پاتے کہ کیوں پٹ رہے ہیں اور اپنی تسلی کے لئے اوروں کو پاگل سمجھتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہرکام کے آغاز کیلئے کسی قائدے قانون شرائط اور ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگریزی میں کہتے ہیں First deserve than desireپہلے قابل بنو پھر خواہش کرو شادی کے لئے نکاح بنیادی شرط ہو تاہے، پروفیسر، انجینئر اور ڈاکٹر وغیرہ بننے کے لئے ایک خاص تعلیمی قابلیت درکار ہوتی ہے آدمی جس میدن میں اترنا چاہے اُس میں اترنے سے پہلے اپنی قابلیت اور صلاحیت منوانی پڑتی ہے مسلمان بننے کے لئے کلمہ پڑھنا ہوتا ہے۔ کوئی کام پایہ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں سکتااگر اُسکے کرنے میں خلوص نیت شامل نہ ہو۔
نماز پڑھنے سے پہلے نیت باندھنا کیوں ضروری ہے؟ کسی کو کیا پتا کہ آدمی نے نیت باندھی ہے یا نہیں؟ وضو کیا ہے یا نہیں؟ لیکن نماز کا حکم دینے والا ہر چیز کا جاننے والا ہے کیونکہ وہ علیم بھی اور خبیر بھی تبھی تو فرمایا گیا کہ اعمال کادارومدار نیتوں پر ہے۔
تیسری اہم بات جوکسی کام کے ابتدا کے لئے بے حد ضروری ہے، وہ کام کے بخیروخوبی انجام پذیر ہونے کے لئے دعا ہے۔ دعا ایک عجیب وغریب آلہ، ایک معجزاتی ایندھن ایک حیرت انگیر ڈھال اور بہترین امید ہے، دعا کامیابی کی کنجی ہے۔
دعا قضاوقدر کو اُس وقت بھی روک دیتی ہے جب وہ حتمی مرحلے میں داخل ہوجاتی ہے کیونکہ سرکار دوعالم ؐ کے ارشاد کے مطابق "دعا مومن کا اسلحہ ہے"، دعا حاسدوں کی حسد اور دشمن کے وار سے محفوظ رکھتی ہے۔ قُرب خداوندی اور معرفت الہٰی کی وجہ سے ذہن ودماغ کے وہ سارے در اور دریچے کھول دیتی ہے۔ اگر بنیاد مضبوط ہو تو عمارت پائیدار ہو گی جن ملکوں میں زلزلے آتے رہتے ہیں۔
وہاں عمارتوں کی بنیاد یں اِس طرح سے رکھی جا تی ہیں جو زوردار زلزلوں کو بھی بغیر کسی جانی ومالی نقصان کے سہہ لیتی ہیں۔ یہ اصول عمارتوں تک محدود نہیں ہے اِس اصول کا تعلق تعلیم وتربیت، اخلاق، عادات، عقائد ونظریات رسوم ورواج، تہذیب وثقافت، صنعت و حرفت اور طور طریقے غرضکہ بودوباش اور معاشرت کے تمام پہلوئوں پریکساں طور سے لوگو ہوتاہے۔ ان ساری باتوں کے پس منظر میں میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سال 2021کے دوران میں اپنے کالموں میں اللہ کے واضح احکام "اچھی با ت کہو اور سیدھی بات کہو" کے مطا بق لکھوں گا۔۔
مجھے معلوم ہے اِس طرح سچا اور سیدھا لکھنے کا نقصان بھی ہو تاہے۔ نقصان کیوں ہوتاہے؟ نقصان اسلئے ہو تاہے کہ لوگ اسی بات کو اچھا، سچ اور سیدھی بات سمجھتے ہیں جو اُن کے حق میں کہی یا لکھی جائے۔
گذشتہ سات دہائیوں سے پاکستان لوگوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھا ہواہے پاکستان کو ایسے لوگوں سے آزاد کرانے کی ضرورت ہے۔ بڑے لوگوں کو پاکستان کے تمام استحصالی طبقات کی غیر مشروط او راعلانیہ حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔
ذاتی مفادا ت کی ایک آگ ہے جو لگی ہوئی ہے اِس آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں ان کا بجھانا ضروری ہے۔ اُس چڑیا کی طرح جو اپنی چونچ میں ایک قطرہ پانی لے کر نمرود کی آگ بجھانے کے لئے نکلی تھی میں بھی وطن عزیز میں لگی اس بھڑکتی آگ کو اپنے کالموں کے ذریعے بجھانے کی کوشش کروں گا۔