کیا کرائے کے بچے بھی ہوتے ہیں؟ ہونے تو نہیں چاہیں۔ لیکن کیا کریں جس طرح او ربہت ساری باتوں کو نہیں ہونا چاہے مگر وہ ہوتی ضرور ہیں اس طرح کرائے کے بچے بھی ہوتے ہیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو یہی وہ نقطہ ہے جسے ہم اگر صحیح طور پر سمجھ لیں تو اپنے بچوں کے مفادات کا بھر پور تحفظ کرسکیں گے۔ بچوں کی بجائے اگرہم اپنی فکر کرلیں توبچے انجنیئر اور ڈاکٹر بن کر چور اور قصائی نہیں بنے گے۔ اپنی فکر کرلیں تو بچو ں کو عیاش بنانے سے بچ جائیں گے۔ اپنی فکر کرلیں تو بچے افسر بن کر کبھی جانور نہیں بنں گے۔ خود بد معاش نہ بنیں تو بچے بھی بدمعاش کی عزت کرنا چھوڑ دیں گے۔ خودفسادی نا بنیں تو بچے بھی فسادیوں کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھیں گے۔ خود جاہل نہ بنیں تو بچے بھی علم دشمن نہیں نکلیں گے۔ اس لئے کہ بچے وہی کچھ کرتے ہیں جو اُن کے باپ دادا کرتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔ وہ صرف باپ دادا کے دین پر ہی قائم نہیں رہتے بلکہ اُن کی دنیا پر بھی قائم رہتے ہیں اور ہم نے دونوں کو غارت کر نے میں کمال حاصل کیا ہے۔ اب بچوں سے کیا گلہ کرنا؟ بچے تو معصوم ہوتے ہیں۔ اپنے ہوں یا پرائے۔ یا پھر کرائے کے بچے۔ اسلئے کہ جس طرح مردہ زندوں کا مرہون منت ہوتاہے بالکل اِسی طرح بچہ بڑوں کے بل بوتے پر ہوتاہے۔ بچے خود سے کچھ نہیں کرسکتے۔ ان کے کمزور اور ناتواں ہاتھ اور پائوں بلکہ ان کا سارا وجود انھیں اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں بنا سکتا۔ تبھی تو اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں بھی تین تین چار چار برس کی عمروں میں بھی گینگ ریپ تک سہہ جاتے ہیں۔ بچے اپنی خرید وفروخت دن دیہاڑے اغوا ور کرائے پر چڑ ھا ئے جانے سے کسی کو کیسے روک سکتے ہیں؟ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ تبھی تو فرمایا گیا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان سے پیش آئو۔ اُن کے آگے اُف تک نہ کہو۔ کیوں؟ اس لئے کہ دنیا کے پُرآشوب جنگل میں صرف ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو بھیڑیوں اور گدھوں کی خوراک بننے سے بچاتے ہیں۔ کتنا بدقسمت ہے وہ بچہ جس کے اپنے ماں باپ ہی اُسے نوچنے مسلنے اور کچلنے کے لئے کرائے پر بھیڑیوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ ابراہیم ؑ کو نمرود نے آگ میں پھینکا تھا۔ یہاں تو ماں باپ ہی اپنے بچوں کو طرح طرح کی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ وہ ماں باپ جو ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ اور نمرود کو خدا کا دشمن سمجھتے ہیں۔
کون سے بچے کرائے کے بچے ہوتے ہیں؟ آدمی کہے گا کہ مکان کا کرائے پر چڑھانا تو سنا تھا، دکان کا کرایہ تو سمجھ میں آتاہے، شادی ہال کا کرایہ بھی ایک معمول کی بات ہے، کبھی کبھی ڈرائی کلین والے لوگوں کے سوٹ بھی ایک آدھ دن کے لئے کرائے دے دیتے ہیں، موٹر کاریں، بسیں، رکشے، ٹیکسیاں اور سائیکلیں وغیرہ کرائے پر ملتی ہیں بلکہ ہر قسم کی بڑی سے بڑی اورچھوٹی سے چھوٹی سواری جن میں ہوائی جہاز اور بحری جہاز تک شامل ہیں بین الا قوامی کاروباری حلقوں میں عام طور پر دستیاب رہتے ہیں۔ کرائے پرکیا نہیں اٹھتا؟ لیکن وہ جوکہتے ہیں "بات توسچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی" معصوم اور سادہ لوگوں کا دل نہیں مانتا کہ بچے بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔
آدمی گھر سے باہر نکلے تو ہر چوک، ہر موڑ، ہر اشارے پر انتہائی کم عمر بچے اور بچیاں گاڑیوں کے شیشوں پر ٹھونگیں مارمار کر بھیک کیلئے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ بعض حاملہ خواتین نے ایک نہیں دو دوبچے اٹھائے ہوتے ہیں جو اکثر نیم بیہوشی کی حالت میں بے سدھ کاندھوں پر ڈھلکے ہوئے پڑے نظر آتے ہیں۔ واقف کار لوگوں نے بتایا کہ ایسے بچوں کی اکثریت والدین یا گھر کے بڑوں نے پانچ سو سے لیکر ہزار روپے روز تک کرائے پر دئیے ہوتے ہیں کیونکہ آرام دہ گاڑیوں میں گذرنے والی متمول، شائستہ اور خدا ترس قسم کی مہذب خواتین گناہوں کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے ان کی طرف زیادہ مائل بہ کرم ہوتی ہیں۔" پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی" کے طفیل یہ دھندا ملک کے طول وعرض میں نہایت منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکاہے جو روز افزوں ترقی پذیر ہے۔ یہ کاروبار تیروں کے سائے میں بھی چل رہاتھا، شیروں کی دھاڑ میں بھی جاری تھا اور اب بلے کی حکومت میں بھی اپنی آب وتاب قائم رکھے ہوئے ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ پہلے بھی بچے نہیں پیسہ اہم تھا اور آج بھی بچے نہیں پیسہ اہم ہے۔ زندگی کا محور بچے نہیں پیسہ ہے۔ دلوں اور دماغوں کے اندر اس یقین کاراسخ ہوناہے کہ دولت ایک ایسی نعمت ہے جس سے ہر نعمت خریدی جاسکتی ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ اولاد نرینہ کو اس لئے اہم سمجھتے تھے کہ بیٹے بڑھاپے کا سہارا ہونگے، اب غریب غربا، لاچار بے بس اور حالات اور اہل ہوس کے ہاتھوں مارے ہوئے گھرانوں کے ننھے منے بچے اور بچیاں دونوں جوان اور ہٹے کٹے لیکن محنت مزدوری کے دشمن والدین کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ وہ بچیاں پانچ دس ہزار ماہانہ پے ظالموں کے گھروں میں کام کاج کے لئے حوالے کردی جاتی ہیں اپنی کم سنی میں طرح طرح کی بربریت سہہ سہہ کر دور بیٹھے والدین کا سہارابنی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ کھلے عام ہورہاہے لیکن مجال ہے جو اسلام کو کوئی خطر ہ ہو۔ ہمارے ہاں اسلام کو خطرہ تو اس وقت ہوتاہے جب پیشہ وار جبہ اور دستار والے حکومتی ایوانوں کے اندر ہونے کی بجائے سڑکوں، جلسوں اور جلوسوں میں نوحہ کناں سینہ کوبی کررہے ہوں۔
چوکوں چوراہوں پر سردی گرمی اور دن رات یہ ہاتھ پھیلائے اور امید ویاس سے بھر ی معصوم نگاہوں سے تکتے بچے ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں جس کی بظاہر ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ کیوں؟ اسلئے کہ ہمیں اپنی طاقت اور توانائی قائم رکھنے کے لئے ڈنڈ بیٹھکوں سے ہی غرض ہے تا کہ ہم اپنی رعونتوں کا صدقہ اتار نے لئے بھیک بانٹتے پھر سکیں۔ اس موقع پر ایک شعر یا د آگیا ہے:
شعور ہے تو میری ذلتوں کو سجدہ کر
تیرے وقار کی بنیاد بن گیا ہوں میں
یہ خوبصورت، ناتواں، نڈھال معصوم بچے اور بچیا ں جو سارا سارا دن بھوکے پیاسے گاڑیوں کے آگے دوڑتے بھاگتے اپنے بڑوں کی جھولیاں بھرنے کیلئے تھکنے کا نام بھی نہیں لیتے ہمارے ہی بچے ہیں۔ ہم کیوں انھیں قبول نہیں کرتے کہ یہ ہمارے بچے ہیں۔ ہم انھیں کبھی کھبی پانچ دس روپے دے کر کیوں خود کوبری ا لذمہ سمجھ لیتے ہیں؟ بچوں کو دیکھ کر ہی بڑوں کی ذہنیت، رکھ رکھائو اور چال چلن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جس قوم کے بچے اس طرح سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر چوبیس گھنٹے رُل رہے ہوں اُس قوم کا مستقبل درخشاں نہیں ہوسکتا، جس قوم کے بچے مستریوں، مکینکوں، ڈھابوں اور فیکٹریوں میں اگر " اوئے چھوٹے " ہونے کے باوجود باپ بن کر گھر چلارہے ہوں وہ ملک کیسے آگے بڑھ سکتاہے؟ صلہ رحمی کیوں اہم ہے؟ اس لئے کہ پرایوں کو نہیں صرف اپنوں کو پتہ ہوتا ہے کہ خاندان میں کون ضرورت مند ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے اللہ کے حکم کے مطابق ہماری آمدن میں ایسے ضرورتمند عزیزواقارب کا حق ہوتا ہے۔ کرائے کے یہ بچے ہمارے عزیزواقارب اور رشتہ دار نہ سہی لیکن قوم کے بچے توہیں۔ کیا ان کا کوئی حق نہیں ہے؟