یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی بھر آدمی ہر چیز اور ہر بات کا معیار اپنی ذات کو ہی بنا کر رکھتاہے۔ آدمی اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر ہی زندگی کے ہر موڑپر فیصلے کرتاہے۔ اُس کی زندگی کے سارے زاوئیے، نظریات، خیالات اور افکار دراصل اُس کے عقائد روایات، جغرافیائی محل وقوع، تاریخی تشریحات اور زبان اور نسل کی ترجیحات متعین کرتے ہیں۔ اپنی ذات کے لحاظ سے آدمی ان ساری باتوں کا ملغوبہ ہوتاہے۔ یہی ملغوبہ آدمی کی شخصیت بناتاہے آدمی اسی ملغوبے کی قید میں رہتاہے۔ آدمی اپنی شخصیت کے اس مضبوط حصار سے نکلنے نہیں پاتا۔ آدمی کی ساری سوچ اور فکر شخصیت کا یہی حصار متعین کرتاہے آدمی شخصیت کے اِس حصار کا اس حد تک عادی ہوجاتا ہے کہ اُسکے لئے کسی نئے خیال مختلف فکر تازہ ہوا اور روشنی کو تسلیم کرنا ناممکن حد تک مشکل اور دشوار ہوجاتاہے یہ بات صرف فرد ہی پر موقوف نہیں رہتی۔ معاشرے قبیلے اور قومیں بھی اپنے اپنے حصار میں صدیوں تک قید رہتی ہیں۔ اسی موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
آدمی کایہی حصار رفتہ رفتہ راسخ ہوکر اُس کی سر شت بن جاتاہے اُس کی فطرت کارُوپ اختیار کرلیتاہے ملک کے مایہ ناز دانشوارجناب اوریا مقبول جان نے اپنے ایک حالیہ کالم میں آدمی کی تین جبلتوں یعنی کھانا، سونا اورجنسی معاملات کاذکر کرتے ہوئے اس بات کو ایک نئے زاوئیے سے کھولا ہے۔ جس کے تحت انسانی ارتقائ، گو کھانے اور سونے کے سلسلے میں خیرہ کن انداز سے آگے بڑھتاچلاگیا ہے اور پیچھے مڑکردیکھنے کا نام بھی نہیں لیا لیکن اس کے برعکس جنسی معاملات میں گذشتہ دوصدیوں سے وہ بڑی تیزی کے ساتھ واپسی کی طرف گامزن نظرآتاہے یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر سوچ بچار اب بین الاقوامی سطح پر بہت ضروری ہوگئی کیونکہ اس کا تعلق بنی نوع انسان کی ترقی کی بجائے زوال اور تباہی سے جڑا ہوا ہے۔
آدمی کی زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ اپنے حصار سے باہر نکلنے کا مرحلہ ہوتاہے اس لئے اپنے نفس کے ساتھ لڑائی کو جہادکہا گیا ہے۔ میدان جنگ میں دشمن کے خلاف جنگ جہاد اصغر ہو تی ہے، باہر کے کئی کئی دشمنوں کو مارنا اندر کے ایک دشمن کو مارنے کی نسبت آسان ہوتاہے جس طرح ایک لمحے کی فکر ساری رات کی عبادت سے بہترہوتی ہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ ان دونوں باتوں سے معرفت الہٰی حاصل ہوتی ہے اور معرفت الٰہی کے بغیر نہ تو حمد وثنا سمجھ میں آسکتی ہے اور نہ ہی طویل سجدوں کا بظاہر خضوع و خشوع۔ اپنے اندر سے باہر نکلنے کا آسان ترین راستہ دوسروں کی ضروریات کو اسی طرح محسوس کرنا ہے جس طرح آدمی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فکر مند اور بے چین ہوتاہے جب تک آدمی اپنے اندر کے حصار میں قید رہتاہے چھوٹا رہتا ہے، محدودرہتا ہے، سکڑ کر رہتاہے جو نہی وہ اپنے حصار کو کسی بھی وجہ سے توڑنے میں کامیاب ہوکر باہر نکل آتاہے بڑاہونا شروع ہوجاتاہے، پھیلنے لگ جاتاہے، بے فائدہ ہو رہنے کی بجائے مفید بن جاتاہے۔ تار یکیوں سے نکل کر روشنی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے اپنی ذات کے جھوٹ سے نکل کر سچ کی بیکراں وسعتوں کامزہ لینے لگ جاتاہے یعنی آدمی سے انسان بن جاتاہے۔
رب تعالیٰ مسلمان کو اپنی ذات سے باہر نکلنے کے مواقع زندگی بھرفراہم کرتارہتاہے بہت کم لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک نہیں دوطرح کے فائدے یعنی دنیا اور آخرت دونوں کے فائدے۔ مسلمان کی زندگی میں اس قسم کا ایک عظیم ترین موقع ماہ ِرمضان المبارک ہے جس کا مقصد ہم نے صرف صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنا ہی سمجھ رکھا ہے اس سے آگے کچھ نہیں۔ یہ پاک اور مبارک مہینہ جوبس اب شروع ہوا چاہتاہے، مسلمان کو اس قدر طاقتور، مضبوط اور توانا بناسکتاہے جو اُسے ہر دشمن پر فتح اور کامرانی نصیب کرسکے، ہر رکاوٹ عبور کرادے، ہر مشکل آسان کردے، ہردعاقبول ہو، ہر تدبیر کارگر بنا دے، غرضیکہ ہر مقصد پورا کردے یعنی آدمی کو اللہ کا بندہ بناکر ہر غلامی سے نجات عطا کردے۔
ہماری ذات کے حصاروں نے ہمیں کئی کئی طرح کے ڈر خوف اور اندشیوں میں جکڑ رکھا ہے لمحہ لمحہ ہم انجانے خوفوں کا شکار رہتے ہیں پہلے آدمی کی رسوائیاں گلی محلے اور برادری تک محدود ہوتی تھیں اب ذرا ذرا سی لرزشیں آدمی کورسوائے زمانہ بنانے میں دیر نہیں لگاتیں۔ امام زین العابدین ؑ کی روزانہ کی دعائوں میں ہفتہ کے دن کی دعا میں ایک جملہ ملتاہے۔" یااللہ مجھ سے محبت کرنے والوں کو میرے اعمال کی بدولت پریشان ہونے سے بچا" اکیسیویں صدی کے تیسرے عشرے میں آدمی کے روز مرہ خوف اور ان کی نوعیت میں بے پناہ اضافہ ہوگیاہے۔ اسکا صرف ایک ہی توڑہے جو بڑا آسان اور زوداثر ہے۔"یااللہ اپنا خوف میرے دل میں راسخ کرکے مجھے بے خوف کردے"اس خوف اورڈر کی تلوار اور ڈھال سے مسلح ہوکر ایک مسلمان دوسروں کے لئے چھوٹی چھوٹی آسانیاں پیدا کرکے اپنے لئے بڑی بڑی کامیابیاں سمیٹ سکتاہے صرف اپنے حصے کی نیت اور عزم کی ضرورت ہے۔ اپنے حصے کے ذرا سے عمل کی ضرورت ہے۔ اُس چڑیا کی نیت اور عزم کی مانند جو اپنی چونچ میں ایک قطرہ پانی لے کر نمرود کی آگ سے حضرت ابراہیم ؑ کو بچانے نکل پڑی جبکہ جنگل کے سارے لحیم اور جیسم جانور اُسے دیکھ رہے تھے کیونکہ یہی اُس کی اوقات تھی یہی اُ س کا بھرم تھا۔ نمرود کی آگ کو اللہ نے اپنے اذن سے بجھایا لیکن چڑیا کا یہ فخر اور شکرقائم رہا کہ اس نے بھی ابرا ہیم علیہ السلام کوآگ سے بچانے میں اپناحصہ ڈالا۔ بالکل اس چڑیا کی مانندہمارے ہر بڑ ے چھوٹے، ہر گھر، ہر محلے ہر گلی کوچے، ہربستی، قریے اور شہر نے بھڑکتی ہوئی اس مہنگائی اور بدعنوانی کی آگ کو اپنی اوقات اور حیثیت کے مطابق بلا خو ف وخطر بجھانا ہے۔ کسی حکومت، کسی ادارے، کسی تنظیم اور کسی جماعت کا انتظار کئے بغیر خود اپنے حصار سے نکل کرہر سطح اور ہرمقام پر اس آگ کو بجھانا ہے۔ بچے نے اپنے جیب خرچ سے، دکاندارنے ذرا سا منافع کم کرکے، رشتہ دار نے مدد کا ہاتھ بڑھا کے، عورتوں نے حوصلے بڑھاکر اور مردوں نے صرف خوشنودی خدا کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے اس آگ کو بجھانا ہے۔
اس جنگی حکمت عملی کا آغاز " اوّل خویش بعد درویش " کے حساب سے کرنا ہے دین حق کا معاشرتی نظام صلہء رحمی کے مضبوط ترین ستون پرکھڑا ہے ہر شخص جانتاہے کہ خاندان میں کون خوشحال اور کون مالی مشکلات کا شکار ہے کون سا بھائی سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہے، کس بہن کے بچے اور بچیاں کن ناقابل بیان مسائل میں مبتلا ہیں، کون بزرگ دوا کیلئے ایڑیا رگڑرہا ہے، کون بچے بھوک سے نڈھال اور تن پے کپڑوں کے بغیر جی رہے ہیں، کن بچیوں کے بالوں میں سفیدی چمکنے لگی ہے۔ اس رمضان المبارک میں کیوں نا اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے؟ حکومت تبدیلی لائے یانہ لاسکے، ہم اس طرح سے اپنی دنیا اور آخیرت دونوں کو بدل سکتے ہیں ہمیں خود سے نکلنا ہوگا۔