حوصلہ افزائی ایک ایسی صفت ہے جو بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ جوماں باپ بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے ساری اچھی باتوں اور نیک کاموں کو برباد کئے رہتے ہیں وہ بھی بچوں کی حوصلہ افزائی سے عاری ہوتے ہیں۔ عزیزو اقارب دوست احباب اور ہی ہی ہا ہا کرنے والوں کی اکثریت کھلے دل سے غیبت کرتی ہے، روڑے اٹکاتی ہے، حسد کرتی ہے لیکن حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔ کیوں؟ اسلئے کہ حوصلہ افزائی دوسرے کو آگے بڑھنے کا نام ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ دوسرا آگے بڑھے اور وہ بھی اُس کے کہنے پر آگے بڑھے۔ بچہ یا بچی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے اور ابا، ماں اُسے مقابلے کے امتحان کے لئے کہتے نظر آتے ہیں۔ حوصلہ افزائی کے لئے دوسرے کی ستائش کرنی ہو تی ہے اُس کی کارکردگی کو سراہنا ہو تاہے تاکہ وہ اپنی کارکردگی میں کمال پیدا کرسکے۔ اُس کی شخصیت اور پہچان لو گوں کی نظروں میں اجاگر ہوسکے۔ جو لوگ خود صفر ہوتے ہیں ان کے لئے کسی کی حوصلہ افزائی کرنا موت سے کم کربناک نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ ناصرف خود حوصلہ افزائی کی صفت سے محروم ہوتے ہیں بلکہ اس صفت کے حامل لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی کرتے رہتے ہیں۔ فارسی کی ایک کہاو ت ہے بُری عادت قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جس معاشرے کے عام لوگ حوصلہ افزائی کی صفت سے من حیث القوم محروم ہوں اس ملک او رقوم کے ادارے کیسے حوصلہ افزائی کابیڑا اُٹھاسکتے ہیں؟ افراداور اداروں کے لئے بھی حوصلہ افزائی کی روش اپنانا ایک نہایت ہی مشکل مرحلہ ہوتاہے جس پر قابو پانا انتہائی قابل تعریف رویہ ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کی خا تون ایم این اے محترمہ عظمیٰ ریاض نے کہا ہے کہ پاکستانی ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی موٹروے پولیس کا اچھا قدم ہے۔ دیگر اداروں کو بھی اس کی پیروی کرنی چاہئے۔ موٹروے ہیڈ کوارٹرمیں پینٹنگ ایگزبیشن سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ موٹروے پولیس تحفظ کی علامت ہے اور یہ کہ اُن کے روڈ سیفٹی ایونٹس کی وجہ سے سڑکو ں پر حادثات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پینٹنگ ایگزبیشن کے ذریعے روڈ سیفٹی کی آگاہی مہم ایک منفرد آئیڈیا ہے۔ پینٹنگ ایگزبیشن نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اُن پینٹنگ پر مشتمل تھیں جو موٹروے پولیس کی روڈ سیفٹی کے لئے اقداما ت کی آگاہی مہم کو اجاگر کرنے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ اس ایگزبیشن کے انعقاد کے ذریعے جس طرح سے بچوں اور بچیوں کی حو صلہ افزائی کی گئی اس کا اندازہ صرف وہ نوجوان فن کار ہی لگا سکتے ہیں جن کی پینٹنگز اس نمائش میں شامل کی گئی تھیں اُن کے چہروں کی بشاشت، شخصیت کا اعتماد اور درخشاں مستقبل پر یقین اُن کے موٹروے پولیس کی طرف سے کی گئی حوصلہ افزائی کے لئے شکرئیے کا مظہر تھا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ حوصلہ افزائی صرف اچھے کاموں میں ہی نہیں ہوتی۔ بُرے کاموں میں بھی حوصلہ افزائی کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک طرف رحمان والے اور دوسرے طرف شیطان والے ہیں۔ اللہ والے اچھے کاموں میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جبکہ شیطان کے پجاری برائی کی طرح راغب کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ستر سے زائد برسوں میں ہمارے کئی بڑے ا دارے زوال پذیر ہوئے۔ پی آئی اے جیسی دنیا بھر میں مانی جانے والی ہماری فخریہ ائیر لا ئن ا کھٹارا بس سروس بن چکی ہے۔ ہمارے بعض شہر اور مناظر دھندلا گئے۔ کماڑی کا صاف شفاف اور نیلگوں پانی گٹر بن گیا ہے۔ روشنیوں کا شہر کراچی کچرا کنڈی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ موٹروے پولیس پاکستان کے ان چند قابل فخر سرکاری اداروں میں سے ہے جو تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اَب بھی اپنی ساکھ قائم رکھے ہوئے ہے۔ جیسے ہماری مسلح افواج، نادرا اور اٹامک انرجی کمیشن وغیرہ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں ایدھی فائونڈیشن، ڈاکٹر ادیب رضوی کا کڈنی سنٹر اور عمران خان کا کینسر ہسپتال ان اداروں کی وجہ شہرت قربانیوں اور حوصلہ افزائیوں سے ہی عبارت ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے راقم نے بھی عرض کیا کہ نوجوان ہمار ا مستقبل ہیں، جن کے تعمیری کردار کیلئے وزیر اعظم عمران خان ہر وقت متفکر رہتے ہیں۔ موٹروے پولیس نے نوجوانوں کو اپنا پلیٹ فارم مہیا کرکے وزیر اعظم کے وژن میں تکمیل کارکردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں اخلاقیات بربا دہوچکی ہے جن اقدار کو پاکستان کی پہچان ہونا چاہئے تھا وہ ملک اور قوم کے دشمنوں نے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت طرح طرح کی نت نئی بدعنوانیوں کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دی ہیں باہمی عزت احترام اور بھائی چارے کو دوبارہ روشناس کرانے لئے جبر اور سختی نہیں بلکہ ہر سطح اور ہر مقام پر حوصلہ افزائیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ موٹروے پولیس مبارک باد کی مستحق ہے کہ وہ اس قومی فریضے کو کامیابی کے ساتھ ملک کی سڑکو ں اور شاہرائو ں پرقابل ستائش ولولے او ر جذبے کے ساتھ انجام دے رہی ہے ہماری موٹروے غالباً دنیا کی واحد موٹروے ہے جو ہنگامی حالات میں جنگی جہازوں کے کام بھی آسکتی ہے موٹروے پولیس کے سربراہ افسران او راہلکار سبھی قوم کے شکرئیے کے مستحق ہیں۔ اس موقعے پر پینٹنگز ایگزبیشن کا اہتمام کرنے والے عباس کاظمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ انھوں نے پینٹنگز ایگزبیشن کا اہتمام پولیس افسران اور شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے نیک مقصد کے تحت کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ موٹروے پولیس نے جس طرح ان کے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنایا اِس پر وہ اُن کے شکر گذار ہیں۔
اس وقت ہمارا ملک بہت ساری بین ا لاقوامی قوتوں کے نرغے میں ہے جنھوں نے مقامی میرجعفروں او ر میرصادقوں کے ساتھ ملکر جس مایوسی کا شکار کررکھا ہے اس کا تدارک صرف حوصلہ افزائیوں کے پھیلائو سے ہی ممکن ہوسکتاہے۔ حوصلہ افزائی اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہو تی ہے۔ آد می اپنے آپ سے باہر نکل کر ہی حوصلہ افزائی جیسا قابل تعریف کارنامہ انجام دے سکتاہے۔ اپنی ذات کی اتھاہ گہرائیوں میں گم شخص کو باہر کسی قسم کی کوئی اچھائی نظر نہیں آتی۔ ایسا شخص اپنے اندر کے بغض، حسد، غصے، ریاکاری اور دوسروں کے معاملات میں تجسس کے عذاب میں تلملاتا رہتا ہے۔ اس نوعیت کے وسوسے شیطان ہی آدمی کے دل میں ڈالتارہتاہے جس سے صرف یا د الٰہی ہی چھٹکارا دلاسکتی ہے۔ ذکرالٰہی ہی دلوں کے سکون اور اطمینان کا باعث ہے ہوتا ہے اسکے علاوہ جو کچھ بھی ہے سراسر دھوکا اور سراب ہے۔ حو صلہ افزائی آدمی کو بڑا کردیتی ہے۔ پھیلادیتی ہے قابل قدر بنادیتی ہے ڈاکٹر کلیم امام نے موٹروے پولیس کو حوصلہ افزائیوں کی راہ پر لگاکر "ایک قوم اور ایک منزل"کی طرف گامزن کردیا ہے یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر محبتیں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ پولیس کا کام محبتیں سمیٹنا ہے ڈراور خوف پھیلانا نہیں علی فرماتے ہیں " تم اپنے دوہاتھوں سے لوگوں کی مدد کرو وقت ضرورت سینکڑوں ہاتھ تمہاری مدد کو نکل آئیں گے " یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔