ہمارے ہاں جب پردے کا ذکر ہوتاہے تو اس کا فوری مطلب عورت کاپردہ لیا جاتاہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ ہم اس آگے سوچ ہی نہیں سکتے۔ ہمارے علما، شاعر، مصّورا ورفنکارکے سر پر بس عور ت ہی سوار رہتی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ پوری کائنات کی حقیقت تہہ درتہہ پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔ قرآن نے دنیاوی زندگی کو دھوکے سے تشبیہ دی ہے جو ایک حقیقت ہے۔ دنیاکی ہرچیز ساقط نظر آتی ہے لیکن درحقیقت حرکت میں ہے یہی دھوکہ ہے۔ مادے کی حقیر ترین اکائی جو ایٹم کہلاتی ہے اور ننگی آنکھ سے دیکھی بھی نہیں جاسکتی اپنی مزیدگہرائی میں مثبت اورمنفی دائروں میں چکر لگاتی حرکتوں میں پوشیدہ رہتی ہے بیج زمین کی تہوں کے پردے سے اُگتا ہے تو سبزیوں پھلوں اورپھولوں کی شکل میں نظر آتاہے۔
روشنیوں میں طرح طرح سے آنکھوں کوسکون اور دلوں کو راحت پہنچاتے یہ پھل اورپھول اپنی اُٹھان سے پہلے زمین کے گہرے پردوں میں ہوتے ہیں اوراُٹھان کے بعد بھی اکثر اپنے چھلکوں، پوستوں، کھالوں، بالوں اور پانیوں کے پردوں میں پوشیدہ رہتے ہیں۔ بچہ پیدا ہوتے ہی کپڑوں میں ڈھانپ کر ماں کے حوالے کیا جاتاہے۔ مرنے والے کو بھی کفن میں ڈھانپ کریا لپیٹ کر دفنایا یاجلایا جاتاہے۔ گندم کا دانا کھاتے ہی آدم وحوّا کو بے پردگی کا احساس ہوا تو انھوں نے پتوں سے خود کو ڈھانپا۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے اور لباس جسم کو ڈھانپ دیتا ہے اُسے طرح طرح کے رسوم ورواج، تہذیب وثقافت، موسم و حالات کے طابق مختلف رنگوں اورنقش و نگار سے مزین، ڈھیلے ڈھالے یاچست اور مختصر قسم کے لباسوں کے پردوں میں ایک دوسرے کی پہچان کیلئے چھوڑ دیا جاتاہے۔
صرف پیاز ہی تہہ در تہہ پردوں میں ڈ ھکانہیں ہوتا۔ زندگی کی اکثر حقیقتیں تہہ در تہہ پردوں میں چھپی رہتی ہیں۔ ان میں سے دو بڑی حقیقتیں حق اورباطل اپنے اپنے انداز اورکردار کے مطابق تہہ در تہہ پردوں میں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔ ایسے پردوں میں چھپی رہتی ہیں کہ بڑی بڑی آنکھیں ٹھیک ٹھیک نشانے پر دیکھنے کے باوجودانھیں دیکھ نہیں پاتیں۔ میری آنکھیں ہر چیز دیکھنے کے باوجود خود مجھے نہیں دیکھ سکتیں۔ اُس طرح سے نہیں دیکھ سکتیں جس طرح سے دوسروں کو دیکھتی ہیں۔ خود کو دیکھنے کے لئے مجھے اپنی آنکھوں کے ہوتے ہوئے آئینہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ان سب ناکامیوں کے باوجود آدمی کے غرور کا یہ عالم ہے کہ وہ غائب کا انکاری رہتاہے۔ مسلمان کا تو وجود ہی غائب پر زبان سے اقرار اوردل سے تصدیق پرمنحصر ہے۔ آدمی کی زندگی کا ہرلمحہ گذرتے کے ساتھ ہی گذشتہ میں غائب ہوجاتاہے اور آنے والا لمحہ مستقبل کے پردوں میں غائب رہتاہے۔ آدمی ماں کے پیٹ کے اندھیرے سے نکلتاہے اور مٹی کی اندھیری قبرمیں غائب ہوجاتا ہے لیکن اکثر اوقات زندگی بھر غائب کی حقیقت کوتسلیم نہیں کرتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ غا ئب رحمان ورحیم کا نہ ماننے والا غائب شیطان الرجیم کی انگلیوں پر زندگی بھر ناچتارہتاہے۔
خود انسان کی اپنی زندگی کے ناقابل تردید پہلوظاہر اور باطن اس بات کا ثبوت ہیں کہ آدمی کاایک حصہ پردے میں رہتاہے۔ جب فرمایا گیاکہ "اعمال کا دارومدار نیت پر ہے" تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ آدمی کے جسمانی پردے میں پوشیدہ حقیقی مقصد سے آگاہ ہوتا ہے۔ مدتوں ایک چھت تلے رہنے والے بھی ایک دوسرے سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے کیونکہ یہی انسان کی شان ہے جس سے وہ اشرف المخلوقات بنا۔
اسی کا نام انفرادیت ہے جو ہمیشہ پردے میں رہتی ہے پس ثابت ہواکہ دنیاکی ہرچیز پردے میں ہے ان پردوں سے صرف دانا لوگ ہی واقف ہوتے ہیں جبکہ نادان انہی پردوں کو حقیقت سمجھتے ہوئے زندگیاں دائو پر لگا دیتے ہیں۔ تبھی توعلی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں "اگرمیرے سامنے سے تمام پردے ہٹا دئیے جائیں تو بھی میرے یقین میں ذرہ بھر اضافہ نہیں ہوگا۔" جو بھی اس دنیاوی زندگی کی پردوں کے پیچھے حقیقت سے واقف ہے وہ اس دنیا کو اُن کے نقش قدم پرچلتے ہوئے دنیا کو طلاق دے دیتا ہے۔
آدمی کی خصلتیں آدمی کا پردہ ہوتی ہیں۔ حسد پردہ ہے، بغض پردہ ہے، غصہ پردہ ہے، نفرت پردہ ہے حتی کہ محبت بھی ایک پردہ ہوتی ہے۔ اللہ سے محبت شیطان سے نفر ت سکھاتی ہے۔ جانوروں میں پردہ نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اسلئے کہ ان میں عقل نہیں ہوتی۔ ان میں حسد، بغض، چغل خوری اور بہتان تراشی نہیں ہوتی۔ جانورکوئی بھی اچھا یا براکام ایک دوسرے سے چھپ کر نہیں کرتے۔ اس لئے وہ جسمانی اور نفسانی پردوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ وہ جوکچھ بھی کرتے ہیں اپنی فطرت اور سرشت کے مطابق کرتے ہیں۔
ڈنگ مارتے ہیں تو اپنی فطر ت کے مطابق، چیرپھاڑ کرتے ہیں تو اپنی فطر ت کے مطابق اوراگر دُم ہلاتے ہیں تو بھی اپنی فطر ت کے مطابق ہلاتے ہیں۔ جانوروں کوسدھایا تو جاسکتاہے انھیں محبت اورنفرت پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات بہرحال ذہن میں رہے کہ جانوروں کو اللہ تعالیٰ اپنے اپنے وقت کے پیغمبر وں کی شناخت ضرور کرا رکھی۔ مچھلی پیغمبر کو نگل سکتی ہے اور زندہ واپس لوٹا سکتی ہے اُسے کھا نہیں سکتی۔
یہی حال خیالات اور نظریات کے پردوں کا بھی ہے نظریات اور خیالات کے پردوں کا اندازہ اُن نظریا ت اور خیالات سے اخذ شدہ نتائج سے لگایا جاتاہے سوچ اور فکر کے پیچھے جو اچھی یا بری نیت ہوتی ہے وہ ہمیشہ چھپی رہتی ہے۔ جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بُری بھی۔ تبھی تو فرمایا گیا ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیتو ں پر ہے۔" ہر چیز کا ظاہر اور ہے اور باطن اور۔ قرآن کا باطن وحی ہے۔ قرآن نظر آتاہے اوروحی نظر نہیں آتی کیونکہ وحی قلب پیغمبر ؐ پر نازل ہوتی ہے۔ یعنی پوشیدہ رہتی ہے وحی کی حقانیت کے نتائج نظر آتے ہیں۔
یہی وحی کی سچائی کا ثبوت ہے ایسا ثبوت جسے تمام تر شیطانی کوششو ں کے باوجود جھٹلایا نہیں جا سکا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس کا نازل شدہ ہر ہر لفظ کی حفاظت کا ذمہ خدائے ذوالجلال نے خود اٹھایا ہوا ہے۔ اس خدائے ذوالجلال نے اٹھایا ہوا ہے جو ذرے ذرے، قطرے قطرے اور پتے پتے میں ظاہر ہونے کے باوجو د ہر آنکھ سے پوشیدہ ہے کیونکہ کہ "غائب " کے پردے میں پہناں ہے۔ اس کی ذرا سی تجلّی پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کردیتی ہے۔
پھر آدمی کیوں بھٹکتاپھرتاہے؟ کیوں جگہ جگہ بات بات پر ذلیل و خوار ہوتاہے؟ کیوں آدمی ہر وقت کسی نا کسی خوف اورغم کا شکار رہتا ہے؟ کیوں اُسے ایک دھڑکا سالگارہتاہے؟ اَس کی واحد وجہ وہ مخمصہ ہے جو پردوں کے پیچھے چھپی حقیقتوں سے آشنائی کے باوجود ظاہری عجائبات کی چکا چوند کابوجھ برداشت کرنے سے قاصرہے۔ اس کاعلاج کیاہے؟ اس کا آسان ترین علاج وہ خدا خوفی ہے جو سارے پردوں کو چاک کردیتی ہے۔ بس:
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ