کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے روبوٹس بھی ایجاد کرلئے جو بہت سارے انسانی کام انسانوں سے زیادہ سرعت اور یکسوئی سے کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ ان روبوٹوں کا دائرہ کار روزبروز وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ جس تیز رفتاری کے ساتھ یہ روبوٹ انسانی ہاتھوں کو پیداواری عمل سے بیدخل کررہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ یہ بہت جلد انسانی رشتوں کوزندگی سے بیدخل کردیں گے۔ یہ توہم سب جانتے ہیں کہ روبوٹ انسان نہیں مشین ہوتے ہیں ان کے اندر مطلوبہ کارکردگی اس طرح سمودی جاتی ہے کہ جس کا بجالانا دئیے گئے احکامات کی روشنی میں انتہائی تسلی بخش، فوری ا ور مقررہ وقت کے اندر ضروری ہوتاہے ظاہر ہے مشین کے جذبات اور احساسات نہیں ہوتے۔ مشین احکامات بجالانے کے لئے ہوتی ہے بحث مباحثے کے لئے نہیں۔ سوائے آپ کے احکامات پر منِ وعن عمل کرنے کے مشین اور کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ مشین سے لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔
عقل اور پڑھائی کا تعلق سوچنے سمجھنے سے ہوتا ہے عقلمند شخص باتوں اور چیزوں کو سمجھنے کے لئے طرح طرح کے سوال کرسکتاہے وہ مشین نہیں ہوتا کہ جس کے کل پرزے یکسانیت سے آگے کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ آدمی کی سوچ ہر وقت بدلتی رہتی ہے اسکی سوچ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ چیزوں یا باتوں کے بارے میں کب کیوں کیسے اور کہاں سے وابستہ سارے پہلوئوں کو جاننا چاہتا ہے۔ ہمارا آج کا موضوع اس عبرتناک، دردناک اور شرمناک نئی نئی درجہ بندی سے ہے جو عقل سے عاری نہیں بلکہ بظاہر کافی ذہین اور مثاثر کن حد تک سند یافتہ خواتین وحضرات، بقائمی ہوش وحواس اور دل کی گہرائیوں سے پوری رضامندی کے ساتھ بغیر کسی جبر اور دبائو کے روبوٹ بننے پر تلے ہوئے ہیں۔ ناصر ف اپنے اس باقاعدہ زوال پر شرمندہ ہونے سے قاصر ہیں بلکہ آدمی سے روبوٹ بننے کے اس باجماعت عمل پر نازاں اور شاداں بھی ہیں ایسا بھی نہیں کہ یہ بھوسے میں گمی ہوئی سو ئی کی مانند ہوں جنکا ڈھونڈنا مشکل ہو۔ یہ تو اب ہر سطح ہر مقام اور ہر شعبہ زندگی میں سرعام دندناتے نظر آتے ہیں۔ ایسے روبوٹ حضرات وخواتین پر ذرا توجہ فرمائی جائے تو واضح ہوگا کہ اُن کی شخصیت کی اصلی پہچان اور شناخت ان کا روبوٹ ہونا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے روبو ٹ تو بنادیئے ہیں لیکن جدید ٹیکنالوجی آج بھی بظاہر پڑھے لکھے بندوں کو روبوٹ بنانے سے اب بھی قاصر ہے کیوں؟ اسلئے کہ بندوں کو روبوٹ بنایا ہی نہیں جاسکتا، بندے اگر روبوٹ بنتے ہیں تواپنی مرضی منشا اور ہٹ دھرمی سے ہی بنتے ہیں۔
سوال پیدا ہو تاہے کہ وہ لوگ روبوٹ کیوں بنتے ہیں جنہیں بظاہر اللہ نے عقل او رسمجھ کی وہ تمام نعمتیں دے رکھی ہیں جنہیں دنیا تسلیم بھی کرتی ہے؟ ایسے لو گ شاید اسلئے روبوٹ بنتے ہیں کہ انھیں انسان کی بجائے روبوٹ رہنے میں ہی وہ تمام فائدے، لوازمات اور مواقع حاصل ہوسکتے ہیں جن کا ایک باقاعدہ انسان رہتے ہوئے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسے لاجواب اور قابل رشک وحسد فوائد اور لوازمات کا حصول لوگوں کے نزدیک ارسطو اور افلاطون جیسا دماغ رکھنے والے بھی سمجھتے ہیں کہ ایک روبوٹ بنے بغیر بالکل ناممکن ہے تو ایسے حضرات و خواتین بظاہر حق بجانب ہیں کہ وہ انسان ہونے پر روبوٹ بننے کو ترجیح دیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب ہر طرف روبوٹ ہی روبوٹ نظر آتے ہیں۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں رہا جس میں اپنی مرضی اورمنشا سے روبوٹ نہ بن رہے ہوں۔ جن شعبوں میں روبوٹ کا بظاہر بننا بالکل ناممکن تھا ان شعبوں میں بھی روبوٹ ہی دندنارہے ہیں مثلاً ادب، شاعری اور ہنرمندی میں روبوٹ ہونا اس صنف کے انکار کے مترادف گردانا جاتا تھا لیکن
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
ملک عزیز میں " روبوٹ بننے "کی ابتداء پہلے مارشل لائوں اور پھر موروثی سیاست کے باعث شروع ہوئی۔ جب اُسی بات، چیز یا عمل کی بنیاد پر پروان چڑھنا ہوجس کی پذیرائی صرف مقتدر حلقوں کے شرف قبولیت پر منحصر ہو، تو ماحول کی یہ صورت اور کیفیت روبوٹ پیدا کرنے کے لئے بہترین مواقع فراہم کرتی ہے۔ چونکہ زندگی کا کوئی شعبہ بھی حکام بالااور اُن کے احکامات سے خالی نہیں رہ سکتا اس لئے اس میں روبوٹوں کا پیدا ہونا ایک لازمی امر بن جاتا ہے۔ ان حلقوں کو اپنی حیثیت کو قائم رکھنے اور اسے دوام دینے کیلئے ڈھنڈورچیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف وہی بات کہیں اور وہی کچھ کریں جو اُن کے مقاصد کے حصول کو روزمرہ کی بنیادوں پر طرح طرح کے مختلف طریقوں، بیانوں اورحرکتوں سے ممکن بنا سکیں۔
ان کا تعلق سیاست کے ایوانوں سے، عالیشان سرکاری دفتروں کے رعب ودبدے سے سجے سجائے کمروں سے ہو یامحفلوں اور مجلسوں کے روح پر ور اور پرنور اجتما عا ت سے، رنگ برنگی صحافتی تحریروں سے ہو یا دانشوارنہ تقریروں کی ساحر انگیزدلیلوں سے انھیں اپنا نقطہ نظر قابل قبول حد تک پھیلانے کے لئے روبوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
بس اک پکارکہ دربار سے بلاوہ ہے
قلندران سخن کا ہجوم سامنے تھا
جن قوموں میں روبوٹوں کی بہتات ہوجائے و ہ سپر پاور ہونے کے باوجود شرمناک شکستوں سے دوچار ہوجاتی ہیں امریکہ اور پوری مغربی دنیا کی افغانستان میں حالیہ شکست صرف اور صرف روبوٹوں کے واضح اور یکطرفہ کردار ہی کی وجہ سے ہوئی ہم سمجھتے ہیں کہ روبوٹ صرف ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں جن کے معاشرے نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ روایات پر مبنی ہوں۔ ایسا ہر گز نہیں ہوتا اس وقت پوری دنیا میں روبوٹ دندنارہے ہیں اور ان کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہورہے ہیں جن کے پاس کھانے کو روٹی، پہننے کو جوتے اور سروں پر چھت تک نہیں۔ یہ نظام قدرت ہے۔ تکبر، نخوت اور ظلم وبربریت کو قائم رکھنے والے درباروں سے انسان نہیں صرف پڑھے لکھے روبوٹ پیدا ہوتے ہیں۔