انسانی کردارکی کئی قسمیں ہیں۔ لوگ اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی۔ اخلاقیات، سیاسیات، اقتصادیات، عدل وانصاف، تعلیم وتربیت اور کھیل کود اور مشاہدے کے لحاظ سے انسانی کردار فیصلہ کن اہمیت کا حامل رہا ہے۔ کردار کے مقابلے میں جو پہلو انسانی زندگی میں اہمیت کا حامل ہے وہ گفتار کا پہلوہے، آدمی ایک طرف اپنے عمل یا کردار سے پہچانا جاتاہے اور دوسری طرف اپنی گفتار سے۔ جیسا کہ شیخ سعدی کہتے ہیں کہ
تا مرد کہ ناگفتہ باشد
عیب و ہنر نہفتہ باشد
او ر حضرت علیؓ کا فرمان گرامی ہے "کلام الناس علیٰ قدر عقولہم" لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق گفتگو کرو، آدمی کی زندگی کے اچھے یا برے دونوں رُخ انہی دو پہلوئوں سے واضح اور آشکار ہوتے ہیں۔ دوستی دشمنی، امن وجنگ، نفرت ومحبت، ظلم وہمدردی اور مصیبت وراحت کے مواقع پر لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ کردار کے انگنت پہلوئوں میں سے ایک برا پہلو ریاکاری بھی ہے، ریاکاری دوغلے پن، منافقت اور دکھاوے کو کہتے ہیں۔
آدمی کی حرکات وسکنات جب اس کے ظاہر و باطن سے سے میل نہ کھاتی ہوں تو یہ ریاکاری ہے۔ ، ریاکاری انسان اُس وقت اختیار کرتا ہے جب وہ کسی مشکل سے نکلنے کے لئے خودکو سیدھا راستہ اختیار کرنے کے قابل نہیں سمجھتا۔ اُسے یقین ہوتاہے کہ سیدھا راستہ اختیار کرنے سے اس کی ذات پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اُس کی عزت ووقار میں کمی آجائے گی۔ لوگوں کی نظروں میں جس بھر م کو قائم رکھنا چاہتے ہیں، وہ بھر م قائم نہ رہ سکے گا۔ ان کی ذات کی کمزوریاں سامنے آجائیں گی۔ آدمی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہدف کے حصول کے ساتھ ساتھ اسکی ریاکاری بھی ظاہر نا ہونے پائے ایسی کامیابی کسی شخص کو وقتی طورپر تو حاصل ہوسکتی ہے لیکن ریاکاری انسانی زندگی کا وہ پہلو ہے جو جلد یا بدیر آشکار ہوکررہتاہے۔
ریاکار انسان وقتی طورپر سہی وہی کچھ کچھ فائدہ تو ضروراٹھا لیتا ہے لیکن کمزوریاں آ خر کار آدمی اپنی اصلیت اس طرح چھپانے میں جیساکہ پہلے عرض کیا گیا، وقتی طور پر ہی سہی کامیاب توہوجاتا ہے اس طرح کامیاب ہوجاتاہے لیکن یہ کامیابی وقتی ہوتی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے تقسیم ہند سے پہلے کے ہندوستان کے بارے میں بات کرنا ضروری معلوم ہوتاہے کسی بڑے بزرگ پاکستانی سے پوچھا گیا کہ آخر پاکستان کیوں بنایا گیا تھا؟ انھوں نے بڑی متانت سے جواب دیا کہ "پاکستان اس لئے بنایا گیا تھا کیونکہ غیرمنقسم ہندوستان میں اگرمسلمان دوڑ میں جیت بھی جاتاتھا تو پہلا انعام ہندو کو ملتا تھا۔
دوڑ میں جتنے کے ساتھ ساتھ پہلا انعام بھی لینے کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا" یہ تو کسی بچے کے سوال کا جواب تھا لیکن جب آدمی کو ریاکاری کے تحت بھی پہلا انعام مل جائے تو تاریخ صرف پہلاانعام لینے والے کو یاد رکھتی ہے۔ حقیقت میں دوڑ جتنے والے کو نہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سطح اور ہرمقام پرریاکار ہی جیتتے نظر آرہے ہیں یہ کوئی نئی نویلی بات نہیں ہے تاریخ انسانی ایسی روایات او ر ریاکاریوں پرمبنی حاصل کردہ جیتوں سے بھری پڑی ہے۔
ریاکاری کے ماخذ کیا ہیں؟ ریاکاری کے ماخذوں میں خود پسندی، حسد، حقارت اورآخرت کے دن کے مالک سے بے خوفی شامل ہیں۔ ریاکاری کے مدنظر صر ف جیت ہوتی ہے چاہے صحیح جیت ہویا غلط جیت۔ دراصل صحیح جیت کے لئے تو کسی قسم کی ریاکاری کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ ریاکاری تو ہوتی ہی غلط قسم کی جیت کے لئے اگر آدمی کو یہ پتے کی بات سمجھ میں آجائے کہ اللہ نے زندگی کے معرکے ہار جیت کے لئے نہیں رکھے۔ زندگی کے معرکوں میں ہار جیت کے معنی ہر گز وہ نہیں جو لوگوں کے نزدیک ہار جیت کے معنی ہوتے ہیں۔ جو اللہ کے راستے پر چل نکلا وہ کامیاب ہوگیا چاہے بظاہر اپنے ساتھ چلنے والوں سے ان کی نظروں میں وہ بہت پیچھے ہی کیوں نارہ گیا ہو۔
سیدالشہداء امام حسین ؑ کے ایک فرمان کے مطابق "یا اللہ اس نے کیا کھویا جس نے تجھے پالیا اور اُس نے کیاپایا جس نے تجھے کھو دیا" جیت وہ نہیں جسے دنیا وی مقاصدکے حصو ل کے لئے حاصل کرلیا جائے بلکہ وہ ہے جس سے آخرت میں آدمی کے درجات بلند ہوں۔ یزید بظاہر جنگ جیت کے بھی ہار گیا اور حضرت امام حسینؓ جنگ ہار کے بھی جیت گئے۔ عشق کی بازیوں میں ہار اور جیت کے معنی یکسر مختلف ہوتے ہیں کیا آدمی خود سے ریا کاری کرسکتاہے؟ بظاہر ریاکاری آدمی دوسروں کے ساتھ روارکھتا ہے اس لئے کہ دوسروں ہی کی نظر سے وہ خود کو دیکھتا ہے بہت کم لوگ خود اپنی نظروں سے دیکھتے ہیں لوگ اپنی ہار اور جیت کو دوسروں کی نظر سے دیکھتے ہیں دوسروں کی نظریں اوّل آنے والے پر ہی مرکوز ہوتی ہیں۔ اس لئے لوگ اوّل آنا چاہتے ہیں۔
انسان کو ہار گوار ا نہیں ہوتی وہ ہر حالت میں جیتنا چاہتاہے۔ اس کے لئے بس ایک ہی شرط ہے ہرمیدان میں آگے بڑھنے کے لئے اللہ سے ڈرتا رہے اس کے باوجود کہ اُس کے اردگرد بے شمار لوگ اللہ سے ڈرے بغیر لوگوں کی نظروں میں پہلا انعام لینے والوں میں دھڑا دھڑا شامل ہورہے ہوں۔ اللہ سے ڈرنے کا امتحان ہی یہی ہے ایسے بے شمار لوگوں کے درمیان میں رہنے کے باوجود جو اللہ سے بے خوف ہوکرمسلسل آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ سے ڈرنے کے امتحان میں کامیابی کے لئے شیطان سے ہروقت باخبر رہنا ضروری ہے۔
ریا کاری اب ایک کاروبار بن چکی ہے جس کے ذریعے نوٹ کمائے جا سکتے ہیں اسے باقاعدہ تسلیم کیا جانے لگا ہے، ریاکاری پر مبنی لچھے دار گفتگو کے لئے باقاعدہ پیشہ ور حضرات وخواتین لمبے چوڑے مشاہیر پر بھرتی کئے جاتے ہیں جن کا مقصد یکطرفہ دلائل اور ہیرا پھیری والے مشاہدات پر مبنی گفتگو اور بحث مباحثو ں کے ذریعے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کرکے پیش کرنا ہو تاہے۔ ریاکاری پر مبنی تحریر یں خریدی اور بیچی جا تی ہیں اور اسکے لئے بے دریغ پیسہ خرچ کیا جاتاہے۔ ریاکاری کا نقصان کیا ہے؟
ریاکاری کا سب سے بڑانقصان یہی ہے کہ اس سے جڑا ہر فائدہ اللہ سے دُور کردیتاہے۔ اللہ سے دُوری میں نقصان ہی نقصان ہے اس ے بچنا چاہے کیونکہ اللہ سے دُور کرنے والی کوئی جیت بھی جیت نہیں رہتی۔ جیت اسی کی یے جو اپنے رب سے ڈرتا رہے اس کی رحمتوں کا امید وار رہے اور اپنے ظاہر اور باطن میں جھول نہ آنے دے۔