سمجھ تو پیمانہ ہی گھپلوں کو پرکھنے اور جاننے کاہوتاہے۔ پھر بھلا سمجھ کے گھپلے کیا ہوئے؟ جب اللہ کسی پر فضل کرتاہے تو اُسے سمجھ عطا کردیتاہے وہ سمجھ جس کے اندر کوئی نقص نہیں ہوتا، کوئی گھپلا نہیں ہوتا۔ وہ سمجھ جو متضاد نہیں ہوتی اورجسے ماننے اور جاننے میں آدمی کوئی عار محسوس نہ کرے کسی شرمندگی اور ندامت کاشکار نہ ہونے پائے۔ ایسی سمجھ جو ہر طرح کے شک وشبے سے پاک ہو۔ جو آدمی کو انسان بنا دے، بندہ بنادے، وہ بندہ جو اپنی بندگی کاکسی قیمت پر بھی سودا کرنے کے لئے تیار نہ ہوسکے جیسے اقبال نے فرمایا
متاع بے بہا ہے درد سوزد آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
اشفاق احمدمرحوم سے کسی نے پوچھا، مسلمان اور مومن میں کیا فرق ہیـ" انھوں نے جواب دیا "مسلمان وہ ہوتاہے جو اللہ کو، مانتاہے اور مومن وہ ہوتاہے جو اللہ کی، مانتا ہے" اس سے جوبات آشکار ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اور مومن کی سمجھ میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔ اس تمہید کے بعد اب ہم سمجھ کے گھپلوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ایک سیدھے سادے آدمی کی زندگی ان گھپلوں سے بھری ہوتی ہے کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں بلکہ اپنی سمجھ کی اوقات کے مطابق انتہائی معصومانہ طورپربھری ہوتی ہے۔
سراسر حرام کی کمائیوں سے تعمیر کئے گئے مکانات پر آیات قرانی کندہ کرنے سے وہ مقدس مقامات میں تبدیل نہیں ہوجاتے۔ نجاست اور طہارت کو ساتھ ساتھ نہیں رکھا جاسکتا، جسم پاک نہیں ہے تو عبادت قبول نہیں ہوتی عبادت کی جگہ اورمقام بھی پاک نہ ہوتواسے اٹھک بیٹھک توکہا جاسکتا ہے نماز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بدکاری چاہے کھلے بندوں ہویا چھپ چھپا کر ہو گنا ہ کبیرہ ہی کہلائے گی۔
تاریخ میں نمرود، فرعون اورہا مان کے ساتھ ساتھ ایک کردار شداد کا بھی ہے جس نے زمین پر جنت بنانے کا نہصرف دعویٰ کیا تھا۔ جس طرح ہر ملک اور قوم میں چھوٹے چھوٹے فرعون اورنمرود ہوتے ہیں اسی طرح اس دنیا میں چھوٹے چھوٹے شداد بھی ہوتے ہیں جو اپنے حسین وجمیل محلات اور بڑے بڑے مکانوں کو جدید ترین آلات اور مشینوں کے ذریعے مسحور کن باغات کے عین بیجوبیچ اتنے دیدہ زیب اور دل فریب انداز میں تعمیر کراتے ہیں کہ دیکھنے والوں کی اکثریت اپنے نسبتاً کمزور ایمان کی بدولت ان پر جنت کا گمان کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح رشوتیں دے دے کر اور طرح طرح کی بدعنوانیوں کے ذریعے اس دنیا میں وسیع وعریض مکانات کھڑے کئے جاسکتے ہیں بالکل اسی طر ح آخرت بھی سنواری جاسکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی حلال اور محنت کی کمائی کا ایک حسہ کار خیر، لوگوں کی خدمت، مساجد اور ہسپتالوں کی تعمیر پر صرف کریں۔ اسلامی تہواروں پر بھی نمود و نمائش کی بجائے ان کو صحیح اسلامی روح کے مطابق منائیں۔ اور اس سلسلہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو پیش نظر رکھیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری آمد نی کی پاکیزگی زکوٰۃ سے مشروط ہے، خمس سے مشروط ہے، خیرا ت اور صدقات سے مشروط ہے لیکن کون سی آمدن؟ صرف اور صرف حلال کی آمدن۔ ڈاکے اور چوری کے مال سے نہ ز کوٰۃ ہوتی ہے، نہ خیرات وصدقات اور نہ ہی مسجدوں کی تعمیر کی جاسکتی۔ اپنی حلال کی کمائی سے خیرات کیا گیا ایک روپیہ حرام کے لاکھوں اور کروڑوں پر بھاری ہوتاہے۔
مختصر ترین تعریف کے مطابق جنت میں نہ خوف ہوگا اور نہ ہی غم۔ یہ محل نما مکانات اپنے تمام جاہ وجلال اور کروفر کے باوجود جنت کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ جو ہمیشہ کے لئے ہوگی۔ کیوں؟ اسلئے کہ ایک تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نہیں ہوتااور دوسرا یہ کہ ان کے مکین بھی طرح طرح کے خوف اور جان لیوا غموں کا شکار ر ہتے ہیں۔ شہرہ آفاق روسی ناول نگار ٹالسٹائی اپنے عظیم ناول ایناکیرا نینا کے پہلے جملے میں کہتا ہے " سارے خو شحال گھرانے ایک طرح کے ہوتے ہیں۔ ہر غم زدہ گھرانے کا غم اپنا ہو تاہے" مطلب؟ مطلب یہ کہ خوشی کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ حقیقت صرف درد وغم کی ہوتی ہے غم کی غیر موجودگی خوشی کہلاتی ہے جہاں غم ہو تاہے وہیں خوف بھی ہو تاہے کیونکہ یا آدمی کسی خوف کی وجہ سے غم زدہ ہو تاہے یا کسی غم کے باعث کسی خوف کا شکار رہتاہے۔ اسی لئے زندگی اور موت کے خالق نے جو خوف اور غم کا خالق بھی ہے اس نے جنت کو خوف اور غم سے پاک رکھا ہے یہ ذات رب العزت کے علیم وخبیر اور رحمان ورحیم ہونے کی دلیل ہے۔
بڑے بڑے مکانوں کے مکین خوف اور غم کاشکار کیوں رہتے ہیں؟ ایسے ایسے خوف اور غموں کا شکا رجو نسلوں پرمحیط کسمپرسیوں، بیچارگیوں اور پسماندگیوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے۔ کیوں؟ اسلئے کہ ایک توان کے رہن سہن کی چکا چوند طرح طرح کی محرومیوں کے مارے لو گوں کو جھانکنے نہیں دیتی اور دوسری بات یہ کہ یہ مکانات ا نگنت لوگوں کے حقوق کو پامال کرکے تعمیر ہوتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے کوفے میں داخل ہوتے وقت فرمایا تھا "اے لوگوں دیکھ لو، میں جس گھوڑے تلوار اور ڈھال کیساتھ جس لباس میں داخل ہوا ہوں، اگر جا تے وقت تم میرے پاس اس سے زیادہ کچھ دیکھو تو سمجھ لینا کہ میں نے تمہاری حق تلفی کی ہے" قرون اولیٰ کے اسلامی حکمرانوں نے بادشاہ اور خلیفہ ہوتے ہوئے بھی درویشی اور فقیری کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ وہ حکمران کم ا اور عوام کے صحیح معنوں میں نمائندے نظر آتے تھے، دنیا کے کسی غیر اسلامی حکمران کو ان کے مقابل کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام تو حکمران کو راعی یعنی چرواہا قررا دیتا ہے اور وہ اللہ کے حضور اپنی رعایا کے لئے جواب دہ ہے۔ اسلام ہر سطح پر حلال و حرام میں واضح امتیاز کا قائل ہے اور اس کی کسی کے لئے چھوٹ نہیں ہے۔
حرام اور حلال کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ ایک نجس قطرہ پورے تالاب کو پلید کردیتا ہے جبکہ گندگی کا ڈھیر بھی ایک بہتے دریا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، بہت بڑے بڑے اور نامی گرامی بولنے او رلکھنے والوں کو اکثر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کیوں؟ اسلئے کہ وہ خود کو تالاب نہیں دریا سمجھتے ہیں اور اپنی سمجھ کے گھپلوں کے باعث بھول جا تے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک بڑے جوہڑکے کھڑے پانیوں میں اُگے ہوئے کسی پھول کی مانند ہیں اور کچھ نہیں۔ اگر میں میں اپنی ناقص سمجھ کے ساتھ مسلمان ہونے کی سکت بھی نہ رکھوں اور ڈنکے کی چوٹ پر دعویٰ مومن ہونے کرتا پھروں تو اسے میری سمجھ کے گھپلوں سے ہی تعبیر کیا جائے گا۔