بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو روز مرہ کا معمول ہونے کے باوجود قابل غور وفکر نہیں گردانی جاتیں۔ بعض اوقات آدمی چھوٹی چھوٹی فکرات میں زندگی بھر گم رہتاہے۔ لیکن زندگی کے بڑے بڑے او رگھمبیرتضادات کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا غالباً اس لئے کہ کہ آدمی اپنی ناک سے آگے دیکھنے کا کم ہی قائل ہوتاہے اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ آدمی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے گھر میں کیا ہورہاہے لیکن پڑوس کے گھر کی ہر بات کا اُسے پتہ ہوتا ہے مطلب؟ مطلب صاف ظاہر ہے آدمی دیکھتا ہی دوسروں کو ہے۔ خود کو دیکھنا ایک تو اُسے آتا ہی نہیں دوسرا اپنے گریبان میں جھانکنے کی جراّت اور صلاحیت کے لئے جس خوف خداکی ضرورت درکار ہو تی ہے وہ اکثر لوگوں میں نہیں ہوتا۔
زمانہ بدل چکاہے۔ اکیسیویں صدی کے تیسرے عشرے میں علم، معلومات عامہ اور ٹیکنالوجی کی بھر مار نے آنکھوں کو خیرہ کررکھا ہے۔ اس وقت ایک عام آدمی کی پہنچ میں جو چیزیں اور باتیں آگئی ہیں وہ پہلے زمانے کے بڑے بڑے بادشاہوں کے نصیب میں بھی نہیں تھیں۔ اکبر اعظم کے نصیب میں بھی نہیں تھیں۔ آج کا ایک عام آدمی بھی جس جہاز میں اڑان بھر تا ہے، بیچارہ اکبر اعظم مرحوم اسکا تصور تک نہیں کرسکتاتھا۔ آج کی اس دنیا میں جو لوگ آکسفورڈ، کیمرج اور ہاروڈ کے سند یافتہ لوگ ہیں اور جن کے ایک اشارے سے
۲۔ ایسے ویسے، کیسے کیسے اور کیسے کسیے، ایسے ویسے ہوجاتے ہیں، ان کے تضادات کا یہ عالم ہے کہ علم ودانش کے مقام پر بیٹھنے کے باوجود اپنی سوچ او رپست نظریا ت، اندر کے غلاظتوں، تکبر، نخوت اور نفرتوں کو بنی نوع انسان کے پسماندہ طبقات کے حق میں نہیں بدل سکے اِن پڑھے لکھے لوگوں نے فلسطین، کشمیر اور روہنگیا کے مسلمانوں کے علاوہ آئی ایم ایف، ورلڈبینک اور اب فیٹف جیسے عالمی اداروں کے ذریعے پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کے لوگوں پر دھونس جما رکھی ہیں، کیا یہ ان کی زندگیوں کا منہ چڑاتا ہوا تضاد نہیں ہے؟ جب ایک بظاہر انتہائی پڑھا لکھا شخص اپنے سے بہت زیادہ کم تر، حقیر اور بے عزت لوگوں کو اپنا بڑا مان کر اُن کی پوجا کرتاہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسکی عقل ودانش گھاس چررہی ہے کیونکہ اسے اپنی زندگی کا یہ تضاد نظر نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں اس وقت ایسے غلاموں اور کنیزوں کی بہتات ہے جو اپنی بڑی بڑی ڈگریوں اور مراتب کا سرعام مذاق اُڑاتے نظرآتے ہیں ا۔ نھیں دیکھکر دوسرے شرماجاتے ہیں لیکن انھیں شرم نہیں آتی۔ جب رشوتوں کی کمائی سے تعمیر ہونے والے گھر پر "ھذا من فضلِ ربی" تحریر ہو اور گھر کا مالک گلی محلے، عزیز واقارب اور مسجد میں بھی معزز ہی رہے، تو قصور پھر ایک فرد کا نہیں رہتا، پوری قوم کا بن جاتاہے۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ او ر مائوں کی طرح میری ماں نے بھی کوئٹہ میں مجھے ایک گھر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے سے اسلئے منع کررکھا تھا کہ اُس بچے کے گھر میں رشوت کا پیسہ آتا تھا۔ آج کی ماں کے ذہن میں یہ بات سماہی نہیں سکتی کیونکہ رشوت آمدن اور کاربار کے درمیان تمیز اس قدر دھندلا چکی ہے کہ بچو ں کو یہ فرقنہ باپ بتاسکتاہے، نہ ماں اورنہ ہی کوئی استاد۔ دنیاوی زندگی میں حکمرانی تضادات کی ہے۔ کیونکہ جب دولت کسوٹی بن جائے توہر چیز کی قیمت لگ جاتی ہے عزت وتوقیر، عقل ودانش، عدل وانصاف، سیاست، صحافت اور امامت ہر چیز کی قیمت لگ جاتی ہے۔
اب آئیے اُس زندگی کی طرف جس کا تعلق ہمارے آخرت پر ایمان سے ہے مسلمان ہر معبود کا انکار کرکے صرف ایک اور لاشریک معبود کا اقرار کرتاہے اس معبود کا جو رحمان ورحیم ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت کے دن کا مالک بھی ہے یعنی اس زندگی میں مسلمان آخرت کے اُس تصور کے ساتھ جیتا ہے جس نے واقعی برپا ہونا ہے جس وقت سارے کئے گئے اعمال ہر ایک کے سامنے لائے جائیں گے جن کا جھٹلاناکسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا مشکل ہرگز نہیں بلکہ نہایت آسان ہے ہم نے خود اُسے مشکل بنادیا ہے یا اُسے مشکل سمجھنے لگ گئے ہیں ہم مسلمان ضرور ہیں لیکن مومن نہیں۔ اشفاق مرحوم سے کسی نے پوچھا تھا بابا جی مسلمان اورمومن میں کیا فرق ہے؟ انھوں نے کہا تھا "مسلمان اللہ کو مانتاہے اور مومن اللہ کی مانتا ہے" اس لحاظ سے ہم مسلمان تو ہیں لیکن چونکہ اللہ کی کم اور بیوی کی زیادہ مانتے ہیں اس لئے مومن کہلانے کے قابل نہیں رہتے ہم جتناگلی میں محلے والوں سے، دفتروں میں افسروں سے، کاروبار میں گھاٹے سے، الیکشن میں ووٹروں سے، عدالت میں جج سے، تھانے میں تھانیدار سے، اخبار میں صحافی سے، سیاست میں لیڈر سے اور مسجد میں امام سے ڈرتے ہیں اُس کا آدھا بھی اگر ہم اللہ سے ڈرنا شروع کردیں تو ہماری زندگیوں میں سکھ اورچین واپس آسکتے ہیں اسلئے کہ دین میں اللہ نے کوئی جبر نہیں رکھا۔ دین کو اللہ نے بہت آسان بنایا ہے صاف صاف اور سیدھی سیدھی باتوں کو حکم دیا ہے اُن باتوں میں اگر کوئی تضاد نہیں ہے تو ان باتوں پر عمل کرنے میں کیونکر تضاد ہوسکتاہے؟
دن میں پانچ نمازوں کا مجموعی دورانیہ ایک گھنٹے سے بھی کم ہوتا ہے پورے سال میں صرف تیس دن روزوں کے ہیں، اخراجات سے سال بھر بچ رہ جانے والی بچت کا چالیسیواں حصہ زکواۃ ہے یعنی اس کے دئیے ہوئے سوروپوں میں سے ڈھائی روپے اُسے واپس کرنا ہیں۔ اگر حالات اجازت دیں تو زندگی میں صرف ایک مرتبہ اسکے گھر حاضری دینا ہے۔ اگر اللہ کے دشمنوں سے لڑنا پڑجائے تو اس لڑائی میں شامل ہونا ضروری ہے۔ آج چونکہ اس قسم کی لڑائیوں کیلئے باقاعدہ فوجیں موجود ہیں لہذا اب یہ لڑائی اللہ کے دیگر دشمنوں کے خلاف لڑنا ضروری ہے۔ خاص کر اُن کے خلاف جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں یعنی سود خوروں کے خلاف ہم نے جنگ کرنا ہے۔ لیکن ہمارا تضاد یہ ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سود کے بغیر چلتاہو۔ ہمارے سارے کاروبار، صنعت وتجارت، خرید وفروخت، بینکوں سے لین دین حتیٰ کہ صدقات وخیرات تک بینکوں سے ہتھیائے گئے روپوں، ڈالروں اور ریالوں میں ہوتے ہیں ہم اللہ رسول کو بھی سود کے پیسوں سے راضی کرناچاہتے ہیں۔
۳۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ابلیس شرک جیسے ناقابل معافی گناہ کبیرہ کا مرتکب نہیں ہواتھا۔ اللہ کی نافرمانی اور تکبر کے باعث کافر بن گیا تھا۔ وہ نافرمانیاں اور تکبر جن کا ہم دن رات مرتکب ہوتے رہتے ہیں ہم اپنے جیسے لوگوں کو گلیوں، چوکوں درگاہوں، عبادت گاہوں، عدالتوں کچہریوں، ہسپتالوں، اسکولوں کالجوں اور گھروں کے اندر اور باہر اپنے اور پرایوں سمیت دن رات حقیر اور ذلیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارا دینی تضاد ہے جسے خیرباد کہنا نہایت ضروری ہے۔ ہماری تضادات والی زندگی ہمارے کسی کام نہیں آسکے گی۔