قائداعظم محمد علی جناح بیسویں صدی کے ایک عظیم مسلمان رہنما تھے اور آج ہم ان کی وجہ سے ہی آزاد فضاوں میں سانس لے رہے ہیں۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ پاکستان کے بارے میں قائداعظم کا وژن کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد امریکی خاتون صحافی مارگریٹ بورک وہائٹ نے "لائف میگزین" کیلئے کیے گئے انٹرویو کے دوران آپ سے سوال پوچھا کہ عالمی معاملات میں پاکستان کے کردار کے بارے آپ کا وژن کیا ہے؟ قائداعظم نے جواب دیا پاکستان دنیا کی سیاست کاایک ایسا محور ہو گا جس کے گرد عالمی سیاست گھومے گی۔ یہ انٹرویو لائف میگزین میں 5 جنوری 1948ء کو شائع ہوا۔ آپ اندازہ کریں قائداعظم اس وقت ہی پاکستان کی تزویری اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے حالانکہ یہ وہ دور تھا جب پاکستان اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہوا تھا اور مخالفین اس کے خاتمہ کی پیشگوئیاں کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اور ہم قائداعظم کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں پاکستان بنا کر دیا۔ قائداعظم نے کئی دہائیاں قبل ہی ہندوتوا کی اس سوچ کا اندازہ لگا لیا تھا جو تعصب اور نفرت پر مبنی ہے۔ نریندرا مودی، امیت شا جیسے مکروہ ٹائپ لوگ مسلمانوں کیخلاف برملا نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ قائداعظم نے اس انتہاپسندانہ سوچ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ قائداعظم نے آرمی، اسٹیبلشمنٹ اور عالمی طاقتوں کی حمایت کے برعکس اپنی قوت ایمانی، عظمت کردار اور اعلیٰ قیادت کی بدولت پاکستان بنایا تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جاری اس تحریک میں طلبا وطالبات اور خواتین نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
اس سال یعنی 2020ء میں پاکستان کو کافی سٹریٹیجک سپیس ملی ہے اور حالات اس کے حق میں سازگار بھی ہو گئے ہیں۔ نریندرا مودی نے کشمیر میں ایک پنگا لیا اور اس کے بعد شہریت ترمیمی ایکٹ اور نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزنز کے بل پارلیمنٹ سے منظور کروائے۔ اس کے نتیجے میں پورے بھارت میں بغاوت پھیل گئی اور طلبا وطالبات بھی احتجاج میں شامل ہو گئے۔ 5 اگست 2019ء کو کشمیر پر بھارتی اقدام کے بعدمعروف بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے نیویارک ٹائمز میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں بھارتی فاشزم کو بے نقاب کیا تھا۔ اس بھارتی اقدام کے بعد سے ابتک ساڑھے چار لاکھ کشمیری بیروزگار اور کشمیری معیشت کو 20 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 183 روز سے کرفیو نافذ اور مکمل لاک ڈاون ہے۔ جدید تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی جگہ اتنا طویل لاک ڈاون ہوا ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوج موجود ہے یعنی ہر پانچ کشمیری مردوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔ دوسری طرف آپ دیکھیں کہ بھارت میں اس وقت علیحدگی اور خود مختاری کی متعدد تحریکیں چل رہی ہیں اور بھارتی معیشت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔
اب جہاں نریندرا مودی اپنے ایشوز میں پھنسا ہوا ہے تو دوسری طرف امریکی صدر ٹرمپ کیخلاف مواخذے کی کارروائی ہو رہی ہے اور امریکہ میں الیکشن بھی ہونیوالے ہیں۔ لہٰذا اس وقت صدر ٹرمپ اور امریکہ کو نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کی ضرورت ہے۔ وہ پاکستان کے ذریعے افغانستان میں قیام امن لانا چاہتے ہیں تاکہ وہاں طویل جنگ کا خاتمہ ہو اور پھر اسے آئندہ امریکی الیکشن میں اپنے حق میں کیش کروا سکیں۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہو کر جاتا ہے، اس لئے آئندہ ایک ڈیڑھ سال تک ہمیں کسی خاص امریکی دباو کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
چین ہمارا دوست ملک ہے اور آج دنیا میں ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہو رہی ہے کہ طاقت کا تواز ن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال نے تو اپنی زندگی میں ہی اس طرف اشارہ کر دیا تھا۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
سی پیک ایک بڑا منصوبہ ہے اور اس نے پاکستان کو نئے آپشنز دے دیے ہیں۔ سی پیک کی کامیابی سے پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے اور یہ منصوبہ ہمارے روشن مستقبل کا ضامن ہے۔ پاکستان اور چین ہر دو نے مشکل وقت میں ایکدوسرے کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اگر چین نہ ہوتا تو بھارت ابتک سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بن گیا ہوتا۔ بھارت اور امریکہ سی پیک کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ امریکہ کے خیال میں چین ہی وہ طاقت ہے جو اس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ چین اقتصادی طور پر مضبوط ہو رہا ہے۔ اس کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بہت بڑا پراجیکٹ ہے جس سے وابستہ ممالک میں ترقی کی راہیں کھلیں گی اور سی پیک اس کا اہم حصہ ہے۔ سی پیک کیخلاف امریکہ بے بنیاد پراپیگنڈہ کر رہا ہے۔ وہ اس منصوبہ پر جھوٹے الزامات لگا کر ہمیں چین سے دور کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ چین کے خلاف ایک نئی سرد جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکہ افغانستان میں جنگ کے خاتمہ کا تو خوہشمند ہے لیکن وہ مکمل طور پر یہاں سے نکلنا نہیں چاہتا بلکہ یہاں قائم اپنے اڈوں کے ذریعے پاکستان، ایران، چین اور روس پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔
گزشتہ دنوں تین ایسے بیانات آئے ہیں جن کو سامنے رکھیں تو آپ کے سامنے خطے کے حالات کی درست عکاسی ہو سکے گی۔ نریندرا مودی نے ایک بیان دیا کہ ہم پاکستان کو سات یا دس دنوں میں گرا سکتے ہیں۔ دوسرا امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے لندن میں ایک تھنک ٹینک میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کیلئے اب دہشت گردی بڑا خطرہ نہیں رہا بلکہ چین سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ تیسرا صدر ٹرمپ نے فلسطین کے مسئلہ پر اپنے منصوبے کو "ڈیل آف دی سنچری " قرار دیا اور کہا کہ ہم نے مسئلہ فلسطین حل کر دیا ہے۔ ان تینوں بیانات کا پاکستان سے گہرا تعلق ہے۔ نریندرا مودی کے بیان کی اہمیت اس صورت میں زیادہ ہونا تھی اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے۔ میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر حکمران رہنے والے سیاستدانوں کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے دباو کے باوجود اس پروگرام کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ کامیابی سے بھی ہمکنار کیا۔ ایٹمی صلاحیت کی موجودگی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نریندرا مودی کو ملک کے اندر کسی دباو کا سامنا ہو گا کہ وہ اس طرح کے بیانات دے رہا ہے۔
امریکہ کی فلسطین کے متعلق نام نہاد ڈیل فلسطینیوں کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ ہے اور اس کے ذریعے گریٹر اسرائیل کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضہ کو جائز قرار دیا گیا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی ہے۔ اس منصوبہ کو دنیا نے رد کر دیا ہے، اس اقدام سے وہاں حالات مزید بگڑیں گے کیونکہ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ فلسطین کے حوالے سے پاکستان کا موقف ہمیشہ بڑا واضح رہا ہے۔ 23 مارچ 1940ء کے تاریخی اجلاس میں دو قراردادیں منظور کی گئی تھیں۔ ایک قرارداد پاکستان منظور کی گئی تو دوسری طرف فلسطینیوں کے حق میں بھی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ قبلہ اول کا تحفظ ہم پر لازم ہے۔ گزشتہ 70 برس سے کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل طلب ہیں، ان کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور دونوں جگہوں پر مزاحمتی تحریکیں بھی جاری ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کی پالیسیاں یکساں ہیں جو تعصب اور اسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔ امت مسلمہ کو متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا کیونکہ اب ہم یورپی یونین میں برطانوی پارلیمنٹ کے 6مسلمان ممبران کی آواز سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہمیں ازسرنو یورپی ممالک سے تعلقات استوار کرنا پڑیں گے اور انہیں اپنا موقف مدلل انداز میں پیش کرنا پڑے گا۔ بنگلہ دیش میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے۔ ہمیں بھی کشمیری بھائیوں کی تحریک کی مکمل حمایت اور ان سے بھرپور اظہار یکجہتی کرنا چاہئے۔ ہمیں مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ سے مصالحانہ کردار کی بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ انہوں نے ایک ایسا ہی حل پیش کر دینا ہے جیسا فلسطین کیلئے کیا ہے، لہٰذا ہمیں کشمیریوں کی تحریک کی مکمل حمایت کرنی چاہئے۔ کشمیر، ایٹمی طاقت اور سی پیک، ان تین اہم ایشوز پر حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی سوچ یکساں ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں حوصلہ و جرات کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اپریل میں مسئلہ کشمیر پر اسلام آباد میں او آئی سی کی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، اس میں فلسطین کے ایشو کو بھی شامل کیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان ملائیشیا اور ترکی کے دورہ پر جا رہے ہیں۔ پاکستان، ملائیشیا اور ترکی مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر متفقہ موقف اختیار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کے سربراہان کو خطوط لکھیں۔ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے ان مسائل کا فوری حل ضروری ہے۔