وزیر اعظم عمران خان کی پالیسیاں کورونا وائرس پرابھی تک واضح نہیں ہوسکی ہیں۔ ابھی تک حکومت لاک ڈاون ہی مکمل طور پر نہیں کراسکی ہے اسی وجہ سے عوام بھی تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ کورونا وائرس کا پھیلاو روکنے کے لیے بنیادی عوامل پر ہی ابھی تک مکمل عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت پوری دنیا کی حکومتوں پر مسلسل زور دے رہا ہے کہ اس مہلک کورونا وائرس کا پھیلاو روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی اسکریننگ کی جائے۔ اس وقت چین اورجنوبی کوریا ہی دو ملک ہیں جو اس فارمولے پر سنجیدگی سے عمل کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں میں کورونا کے کیسز میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک وقت تک جب چین اور ساوتھ کوریا میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی لیکن اب صورت حال کنٹرول میں دیکھائی دیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اسکریننگ کا کوئی ڈیٹا نہیں، روزانہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں میڈیا پر آکر متاثرین کا ڈیٹا تو بتاتی ہیں لیکن کتنے لوگوں کی اسکریننگ کی گئی اس کا کوئی ڈیٹا نہیں بتایا جاتا۔
پاکستان کڈنی اینڈ اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر کے صدر اور سی ای و ڈاکٹر سعید اختر بھی اسکریننگ پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں عیار اور مکار دشمن کا سامنا ہے اس کا مقابلہ بڑے لیول پر اسکریننگ کا عمل بڑھا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ایک ایک شخص کو آئی سولیشن میں ہر صورت جانے پر مجبور کرنا ہو گا۔ پہلے ہی لاک ڈاون کرنے میں پاکستان دو ہفتے تاخیر کر چکا ہے۔ انہوں نے جاپان، سنگاپور، چین، ساوتھ کوریا اور ہانگ کانگ کی مثال دی جہاں حکومتوں نے انتہائی سختی کی۔ عوام کو گھروں میں رہنے پر مجبور کیا اس کے لیے ڈنڈے کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس طرح ان پانچوں ملکوں کے عوام گھروں میں رہے اور ہر قسم کی سماجی سرگرمیاں ختم کیں۔ ساوتھ کوریا کی حکومت نے پابندیاں سخت کرتے ہوئے خلاف ورزی کرنے والوں پر ڈھائی ہزار ڈالر تک کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ اب ان ملکوں میں ایک فیصد سے بھی کم اموات کی شرح ہو چکی ہے۔ پاکستان کیوں ان ملکوں سے سبق نہیں سیکھ رہا؟ اب یہی سوال انتہائی شدت سے اٹھنا شروع ہو جائے گا کہ اسکریننگ کا عمل شروع کرنے میں حکومت کیوں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے؟ گو کہ اسکرینننگ کی کٹس بھی چین سے پاکستان پہنچائی جا چکی ہیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق جب تک آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ کتنے لوگ اس مہلک مرض سے متاثر ہیں علاج کس طرح کیا جاسکے گا؟ ہمارا لوگوں کے ساتھ رویہ بھی اچھا نہیں، لوگ اسپتالوں سے بھاگنے لگے ہیں جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس جنگ میں ہمارے ینگ ڈاکٹرز صف اول میں ہیں لیکن وہ غلیل کے ساتھ مہلک دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کی شہادت ہو چکی اور کئی اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر خالد نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہمارے ہاں موت کا وہ بازار گرم ہو گا جس پر سب ہی الامان الحفیظ کریں گے۔ پروردگار بھی انہی کی مدد کرتا جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ اسی لیے تو کہا جارہا ہے بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے موت سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا ہے قاتل یونہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے۔ دوسری طرح اگر ہم برطانیہ کو دیکھیں تو سابق وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے 180 ملین افراد کی اسکریننگ لازمی قرار دے دی ہے۔ ٹونی بلئیر کا کہنا ہے کہ اگر کورونا وائرس کو ہمیشہ کے لیے شکست دینی ہے تو اس کے لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ کرنے پڑیں گے۔
اس وقت بھی برطانیہ میں روزانہ کی بنیاد پر 10 ہزار افراد کے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔ وزیراعظم بورس جونسن کی خواہش ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 25 ہزار ٹیسٹ ہونے چاہئیں۔ برطانیہ میں کورونا وائرس سے 17 ہزار 89 افراد متاثر اور ایک ہزار 19 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں کووڈ 19 سے متاثرہ افراد کی تعداد گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اتوار کی شام 4 بجکر 50 منٹ تک 6 لاکھ 79ہزار 910 متاثر اور 31 ہزار 771 اموات ہو چکی ہیں۔ لیکن خوش آئند بات ہے کہ احتیاط کی اور قرنطینہ کرنے والے ایک لاکھ 46 ہزار 319 افراد صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔ حکومت کو ان اعدادو شمار کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا چاہیے کہیں دیر نہ ہو جائے پھر سب ہی کہنا شروع کر دیں گے وزیراعظم صاحب اسکریننگ میں تاخیر کیوں کی؟