رشید ہمیرانی سے ہمارے گھر جیسے رشتے ہیں۔ ٹی وی پر سندھی خبریں پڑھتے تھے، اچھی آواز تھی۔ پھر سندھی فلم کے ہیرو بنے۔ بہن رخسانہ بہت ہی باغ وبہار لڑکی تھی اور پھر خالہ شاہ بی بی کے کیا کہنے۔ شیر شاہ فیمیلی میں ان کی موجودگی "اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں " کی یاد دلاتی، اتنی خوش گفتار خاتون تھیں کہ آدمی بس سنتا چلا جائے۔
ان کی بیٹیاں الماس، رانی، بے بی اور ڈالی کے نام سے ہیں۔ یہ یادیں سندھ دھرتی سے جڑے لوگوں کی تھیں۔ گپ شپ ہوتی، زندگی کے اجلے پہلوؤں پر نظر رہتی، دوستی، مروت، وضع داری، احترام کا چلن تھا، خورشید آپا کی منفرد شخصیت تھی، اداس، خاموش سی ایک عورت، محفل میں بھی تنہا مگر کس تدبر اور متانت سے لوگوں کی باتیں سنتی تھیں، ان کے لبوں پر دائمی تبسم کی جھلملاہٹ رہتی تھی۔ رشید ہمیرانی کی فلم مکمل ہوئی، ریلیز ہوئی، ان کی نیوز کاسٹنگ بھی جاری رہی، پھر اچانک یہ سارے رشتے "کالعدم" ہو گئے۔ بلکل سندھی فلموں کی طرح، فلمی زندگی کی Fictional ٹوٹ پھٹ جیسی۔
کبھی ایک عدد ایسٹرن اسٹوڈیو تھا، اس سے پہلے پنچولی اسٹوڈیو تھا لائٹ ہاؤس اور پکچر ہاؤس تھے، اب نہ رہے، ماڈرن اسٹوڈیو میں کارخانے کھل گئے، پشتو فلموں کا مقبول ترین ہیرو بدر منیر بیروزگاری کے دنوں میں ایسٹرن اسٹوڈیو میں لائٹ مین تھا، اس کا ایک کتا تھا، وہ خود خوبرو حسین انسان تھا، قسمت نے یاوری کی، ہیرو بن گیا، ایک تھے محمد حسین مداری، سعید ہارون کے خادم تھے، ہنسی مذاق والے، پھر سندھی فلموں کے ہدایت کار ہو گئے۔
ایسٹرن اسٹوڈیو میں ایک لائبریری تھی جس میں کہانی نویس ذاکر حسین بیٹھا کرتے تھے اور فلمی صحافی دانش دیروی اکثر ان کے پاس آتے، یہ وہی دانش دیروی ہیں جنھوں نے فلم "اور بھی غم ہیں "کی خوبصورت کہانی لکھی تھی، بشیر نیاز بھی ایسٹرن اسٹوڈیو کے گوشہ نشین تھے، ابھی انھیں لاہور آ جاؤ کا پروانہ نہیں ملا تھا جہاں پہنچ کر انھوں نے فلم اسٹوریز اور اسکرین پلے کے جھنڈے گاڑھ دیے، وہ ہفت روزہ " نگار" سے وابستہ تھے، نگار کے مالک و مدیر الیاس رشیدی تھے، بلاشبہ بابائے فلمی صحافت تھے۔ نگار کی روایت ان کے بیٹے اسلم الیاس نے سنبھالی۔ دکھی پریم نگری، یونس ہمدم اور رضوان حیدر برنی بھی ان کے ساتھ تھے۔
یاد رہے ٹی وی اسٹار انور اقبال کی پروڈیوس کی ہوئی پہلی بلوچی فلم "ہمل و ماہ گنج" ریلیز نہ ہو سکی۔ یہ کلمت کی جنگ کے تاریخی واقعات پر مبنی تھی۔ اس کی شوٹنگ کے زمانے میں خدا کی بستی کے مصنف شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ بلوچ قوم باوقار اور سیاسی طور پر باشعور ہے، مجھے حیرت ہے وہ فلم میڈیم کی مخالفت کر رہی ہے۔ آج اسی سیاق و سباق میں بات سندھی فلم انڈسٹری پر ہو گی۔ لیکن ضروری ہے کہ پہلے ملکی کلچر میں علاقائی ثقافتوں، مادری زبانوں اور قومی زبان کے حوالہ سے لسانی گھمبیرتا پر کچھ کہا جائے۔ ان اکابرین کے درد کی کسک کو سامنے لایا جائے جن کی کوششوں سے علاقائی فلموں نے اپنے ارتقائی عمل میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ بڑی اسکرین پرکئی خوبصورت چہرے نمودار ہوئے۔
سندھی اور پشتو فلموں کے فلم سازوں، ہدایتکاروں اور اداکاروں کو رنج صرف اس بات کا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد اردو فلموں کو عروج ملا، لیکن علاقائی فلموں کی قدر و منزلت کے لیے حکمرانوں نے سنجیدگی سے بڑے اسکرین کی افادیت اور حساسیت کا ادراک نہیں کیا، وہ اس سیاسی وژن سے محروم رہے جو فلم کے بڑے میڈیم کے فروغ، اس کے استحکام اور سائنسی و تکنیکی ترقی و وسعت کے لیے ناگزیر تھی۔ کسی حکومت نے فلم میڈیم کی ضرورت، قومی یکجہتی میں اس کی حساسیت، افادیت اور بین الصوبائی رابطہ کی مسلمہ اہمیت پر توجہ نہیں دی۔
معلوم ہوتا ہے کہ حکومتوں نے فلم کو ہمیشہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کی متعصبانہ اور تنگ نظرانہ عینک سے دیکھا اور اسے ناچ گانے سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یہی سبب ہے کہ 71 برس بعد بھی کوئی ٹھوس، مربوط، فکر انگیز اور تخلیقی فلم کلچر ملک میں جڑ نہ پکڑ سکا۔ جن لوگوں نے کچھ کام کیا تو ان کی قدر و منزلت بھی برائے نام رہی۔
علاقائی فلموں کی کوئی اتھارٹی قائم نہیں ہوئی، نیف ڈٖیک ضرور بنی جو نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے نام سے کام کرتی رہی مگر اسے بھی سمت نہیں ملی۔ تھیٹر، ملکی ثقافت اور فلم انڈسٹری کی ہمہ جہت ترقی فلم پالیسی اور کلچرکے مسائل سے متعلق "جال " ایجی ٹیشن کے بعد پھرکوئی تحریک فلم انڈسٹری کے تن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے شروع نہیں کی گئی۔
سندھی فلموں کی ابتدا ایک قدیم تہذیب سے وابستگی کے احساس کے ساتھ ہوئی۔ جہاں تک سندھی فلموں کے آغاز کا تعلق ہے فلم "عمر ماروی" سے سندھی فلمی صنعت نے اپنا سفر شروع کیا۔ سید حسین شاہ فاضلانی نے فلم پروڈیوس کی، شیخ حسن اس کے ہدایتکار تھے۔ فاضلانی خود ہیرو تھے، نگہت سلطانہ ہیروئن اور دیگر کاسٹ میں اس وقت کے مزاحیہ فنکار نور محمد چارلی کامیڈین تھے۔ کافی عرصہ بعد ہدایت کار غلام حیدر صدیقی غیر ملک سے فلم ٹیکنالوجی اور ہدایت کاری کی با قاعدہ تربیت لے کر آئے۔ انھوں نے کئی فلمیں ڈائریکٹ کیں۔ بہت شائستہ نفیس انسان تھے۔ ایک حادثے میں ان کی ایک ٹانک ضایع ہوئی۔ سندھی فلموں کے موضوعات متنوع تھے۔
رومانی فلموں کے بغیر توبات بنتی نہ تھی، مگر فلمیں ہجرت، تقسیم ہند، سندھ کو درپیش سماجی اور معاشی مسائل، داخلی تضادات کا احاطہ کرتی رہیں، تاریخی کرداروں پر مبنی فلموں کی ایک سیریز موجود ہے۔ سندھ کے ڈاکوؤں پرکئی فلمیں بنیں، بعض خوبصورت فلموں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے، ملکی فلمی صنعت نے کراچی کو مرکز بنایا، ایسٹرن فلم اسٹوڈیوز میں فلمیں بنیں، پھر ماڈرن اسٹوڈیوز بنا۔
سندھی فلمیں ان ہی اسٹوڈیوز میں مکمل ہوئیں۔ مشتاق چنگیزی سندھی فلموں کے "دلیپ کمار"کی حیثیت میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے، انھوں نے 60 کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا، تین عشروں تک فلم انڈسٹری پر راج کرتے رہے۔ ان کی فلم " شہرو فیروز" عوام میں پسند کی گئی، چینگیزی نے مقبول اداکارہ چکوری سے شادی کی، بعد ازاں مشکل حالات میں وہ فلم انڈسٹری کو چھوڑ گئے۔ سندھی زبان کی جن فلموں نے مقبولیت حاصل کی ان میں گھونگھٹ لائے کنوار، گھاتوگھرنہ آیا، بادل ائیں برسات، چانڈوکی، دل ڈیجے دل وارن کھے، انصاف کتھے آئے، منجھو پیار پکارے، مٹھڑا شالا ملن، محبوب مٹھا، نوری جام تماچی، پروچانڈیو، جلال چانڈیو، قربانی، پیارتاں صدقے، فیصلو ضمیر جو، سندھڑی تاں صدقے، پردیسی، محب شیدی، نادر گوہر، رتھ ائیں اجرک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس حقیقت سے شاید کسی کو انکار ہو کہ فلمی صنعت کو مجمعوی طور پر جنرل ضیاالحق کی آمریت سے شدید دھچکا لگا، ملکی فلمی صنعت لاوارث ہو گئی، سندھی سمیت بلوچی، پنجابی، پشتو اور اردو فلموں میں مین اسٹریم میڈیم کی روح نکل گئی، فلمی بیانیہ راندہ درگاہ ہو گیا، فلموں میں وی سی آرکے ذریعے بیہودگی، عریانی کی لہر اسی عرصہ میں در آئی، اسٹیج ڈرامہ بھی رسوا ہوا۔ 20 جنوری2017 ء کو روزنامہ "ڈان" نے لوک ورثہ کے تحت ایک گفتگوکی رپورٹ شایع کی جس تھیٹر اور سینما کو درپیش معاملات پرسنجیدہ سوچ و بچار کیا گیا، اس وقت بھی مقررین نے سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو زبانوں سینما کے ارتقا پر مایوسی کا اظہار کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ مادری زبانوں کی ترقی و پذیرائی پر مردنی سے چھائی ہوئی ہے، فلم، تھیٹر اور مادری زبانوں کے تحفظ، فروغ، نصابی مسائل پر ایک جامع اور قابل عمل پالیسی کی ضرورت پر زور دیا گیا اور حکومت کو فعال کردار ادا کرنے کے لیے ویک اپ کال بھی دی گئی۔
سندھی فلموں کی بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے بعض دانشوروں، فلمسازوں، اور فنکاروں نے انڈین فلم انڈسٹری کی وسعتوں کا حوالہ دیا، جب سندھی فلمیں بن رہی تھیں تو ہندوستانی ذرایع ابلاغ اور فلم سے وابستہ کاروباری شخصیات کا کہنا تھا کہ تقسیم ہند سے قبل بھارت میں سندھی فلموں کی لوکل مارکیٹ بھی تھی، اس وقت 30 فلمیں پروڈیوس کی گئیں، بھارت کی6 ریاستوں اور 100شہروں میں فلمی صنعت کام کر رہی تھی، فلم ساز معیاری فلمیں بنا رہے تھے، حکومت اگر سپورٹ کرتی تو اس کی مارکیٹ مشرق وسطی، پاکستان اور یورپ کے ان ملکوں میں بھی قائم ہو سکتی تھی جہاں سندھی فلموں کی ڈیمانڈ تھی، بتایا گیا کہ انڈین فلموں کی ری میک کا سلسلہ بھی چل رہا تھا، فلم "ہم آپکے ہیں کون" اور " دل والے دلہنیا لے جائیں گے" کی ری میک بن چکی تھیں۔ پاکستان کا ذکر ہدایتکار کمال ناتھانی نے کیا جو فلم "پیار کر کے دیکھیں " ڈائریکٹ کر چکے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں پاکستانی سندھی فلموں کی مارکیٹ اوپن تھی، جے سی آنند اور ان کے بیٹے ستیش آنند اس کام کو لے کر چلنا چاہتے تھے وہ ٹی وی اور ہوم ویڈیو کے لیے پروڈکشن کے منصوبوں پر سوچ رہے تھے۔
ہو بہو یہی واردات پشتو اور بلوچی فلموں کے ساتھ ہوئی، تاج محل سینما منہدم ہوا اور ادھر بلوچی فلم ریلیز نہ ہو سکی، جو لوگ علاقائی فلموں کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کو تیار تھے، پیچھے ہٹ گئے، سندھی ٹی وی ڈرامہ اپنے میتھڈ، تیکنیک، تخلیق، اسکرپٹ اور ایکٹنگ کے حوالہ سے سندھی ادب سے جڑا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ فلم انڈسٹری کمزور ہوئی تو ردعمل میں سندھی ادب و تحقیق کو نئی جہتیں مل گئیں۔ پی ٹی وی کے تینوں ٹی وی ڈرامے جنگل، دیواریں اور تپش تو صرف حوالہ ہیں، مگر علاقائی زبانوں کی فلم انڈسٹری کا زوال سے دوچار ہونا کسی المیہ سے کم نہیں۔ یہ رویہ مادری زبانوں سے دوستی کا نہیں تھا۔