یہ بارہ اکتوبر 1999کی شام تھی جب ہمارے پاس یہ خبر آئی کہ وزیراعظم نواز شریف نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کر دیا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے اس موقعے کی ایک ماٹھی سی فوٹیج بھی دکھائی جس میں نواز شریف انہیں بیجز لگا رہے تھے۔ یہ حیران کن خبر تھی کیونکہ نواز شریف اسلام آباد سے باہر ایک دورے پر تھے اور ایسا کچھ شیڈول میں نہیں تھا۔ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف مقرر کرنے کا مطلب یہ تھا کہ پرویز مشرف اس عہدے سے فارغ کر دئیے گئے ہیں جو ا س بیرون ملک دورے سے واپس وطن پہنچ رہے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ وزیراعظم نواز شریف کو یہ رپورٹ کس نے دی تھی کہ پرویز مشرف ان کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں جس پر اس ردعمل کا اظہار کیا گیا۔
میں اس وقت روزنامہدن، لاہور کا چیف رپورٹر تھا اور ہم اپنے دفتر کی کھلی ڈلی چھت پر اکتوبر کی شام انجوائے کر تے ہوئے تبصرے کر رہے تھے، یہ بات برملا کہی جا رہی تھی کہ وزیراعظم نے یہ فیصلہ فوری بغیر مشاورت کے کیا ہے جس کے سخت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ دلیل یہ دی جا رہی تھی کہ جنرل ضیاء الدین بٹ بہت ہی مرنجان مرنج آدمی ہیں اور آرمی چیف کے لئے ضروری خوبیوں اور صلاحیتوں سے یکسر محروم ہیں۔ یہ بھی اسی وقت کہا گیا تھا کہ فوج کی سربراہی اسی کو دی جاسکتی ہے جس نے کبھی کسی کور کی سربراہی کی ہو۔ یہ درست تھا کہ نواز شریف دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم تھے مگر یہ بات بھی درست تھی کہ جمہوریت اس وقت بھی اتنی مضبوط نہیں تھی کہ ایک وزیراعظم کی بغیر میرٹ کے آرمی چیف کی تقرری کے جھٹکے کو برداشت کر سکتی اور پھر یہی ہوا کہ تھوڑی دیر میں پی ٹی وی سے آنے والی حکومتی اطلاعات بند ہوگئیں۔ اس وقت الیکٹرانک کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی نہیں ہوتا تھا لہٰذا خبریں پہلے اخبارات تک ہی آتی تھیں اور پھر عوام تک پہنچتی تھیں۔ ہمارے کراچی اوراسلام آباد کے رپورٹروں نے فوج کی نقل و حرکت کے بارے بتانا شروع کر دیا تھا۔
میں نے ڈیلی ڈان میں بڑے بھائیوں کی طرح محترم اشرف ممتاز سے رابطہ کیا اور ہم موٹرسائیکل پرگورنر ہاؤس اور جی او آر کی طرف صورتحال دیکھنے کے لئے چلے گئے۔ اس وقت جی او آر کے ارد گرد اس چاردیواری نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہم جی او آر میں ایک طرف سے داخل ہوئے اور پورا گھوم کر دوسری طرف گورنر ہاؤس کی جانب جا نکلے۔ گورنر ہاؤس کے قریب فوجی موجود تھے اور ہمیں ڈیوس روڈ کی طرف بھیج دیا گیا۔ جی او آر سنسان اور ویران تھا اور ہم ہنستے ہوئے تبصرہ کررہے تھے کہ یہاں وہ مخلوق رہتی ہے جسے جمہوریت یا مارشل لا سے کوئی فرق نہیں پڑتا، حکمران کوئی بھی ہو اس نے سسٹم بیوروکریٹوں کے ذریعے ہی چلانا ہے۔ یہ وہ بیل ہیں جنہیں کوئی بھی ہانک لے جائے، انہیں مالک سے کوئی غرض نہیں، اپنے اپنے چارے سے غرض ہے۔ رات گزرتی جار ہی تھی اور کہا جا رہا تھا کہ ابھی کچھ ہی دیر میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے باقاعدہ اعلامیہ جاری ہو گا۔
ا س اعلامئے کو جاری ہونے میں اتنی دیر ہو گئی کہ کاپی جانے کا وقت ہو گیا۔ ا س وقت تک واضح ہو چکا تھا کہ ملک میں ایک بار پھر مارشل لا لگ چکا ہے اور اس کی وجہ میاں نواز شریف کی طرف سے آرمی چیف کی تبدیلی ہے۔ ہمیں اس وقت جمہوریت کا بخار چڑھا ہوا تھا اور کہہ رہے تھے کہ یہ وزیراعظم کا آئینی اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے فوج کا سربراہ مقرر کر دے۔ آج دو عشروں کے بعد جب میں سوچتا ہوں تو پورے دیانتداری سے کہتا ہوں کہ کسی آئینی اور جمہوری نظام میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا، یہ مطلق العنانیت صرف آمریت اور بادشاہت میں ہی ہوتی ہے۔ آج اکیس برس بعد ایک اور بارہ اکتوبر کی شام میں جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو یوٹیوب اور سوشل میڈیا پہلے جیسی بہت ساری غیر تصدیق شدہ خبروں سے بھرا پڑا ہے۔ ایسی خبریں جن کے بارے میں شیخ رشید کے بھی بات کرتے ہوئے پر جل رہے ہیں جو خود کو بڑے زعم کے ساتھ اسٹیلشمنٹ کا نمائندہ کہا کرتے ہیں۔
بارہ اکتوبر کی شام کو میاں نواز شریف نے جو فیصلہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ کسی بھی ادارے میں کسی بھی وزیراعظم کو اپنی کٹھ پتلی بٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے چاہے وہ دوتہائی اکثریت سے الیکٹڈ ہو یا اس پر سلیکٹڈ ہونے کی تہمت ہو مگر دوسری طرف حق بات یہ ہے کہ ادارے بھی کسی نہ کسی قانون اور ضابطے کے پابند ہیں۔ آئین اور جمہوریت، میرٹ اور مشاورت پر زور دیتے ہیں۔ یہ بہتر ہے کہ کسی بھی ادارے میں تقرری کے لئے میرٹ پر تین اہل افراد کے نام اپائنٹنگ اتھارٹی کو بھیجے جائیں اور وہ ان میں سے چناؤ کرے اور اگر مسترد کرے تواس کی ٹھوس وجوہات دے۔ اسی کو اختیارات کا توازن کہتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے اس روز دوسرا غلط فیصلہ رات گئے کیا تھا جب ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اسمبلیاں توڑنے اور ملک میں نئے عام انتخابات کے انعقاد کی سمری پر دستخط کر دیں۔
میں اصولی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ کوئی بھی فیصلہ دباو ئپر نہیں ہونا چاہئے مگر میں اس با ت کا بھی قائل ہوں کہ آپ کی بھینس کو آپ کی عقل سے بڑا نہیں ہونا چاہئے۔ میاں نواز شریف کی اس رات دکھائی جانے والی ہٹ دھرمی نے ان کے اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی ایک مشکل میں دھکیل دیا اور پاکستان کی تاریخ میں ایک اور مارشل لا کا اضافہ ہو گیا۔ ہم اس مارشل لا سے بچ سکتے تھے جس نے شریف فیملی کو سب سے زیادہ متاثر کیا، پریشان کیا۔ سیانے کہتے ہیں کہ جو درخت طوفان میں جھکنا نہیں جانتا وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مذاکرات سے راستہ اعلیٰ دماغ نکالتے ہیں جبکہ خود سر اور گھمنڈی اڑ جاتے ہیں۔ ہر مرتبہ آگے بڑھنا ہی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات صلح کرلینا بھی کامیابی ہوتی ہے، فتح مبین تک کہلاتی ہے۔ ہر مرتبہ آگے بڑھ کے مقابلہ نہیں کیا جاتا بلکہ بعض اوقات خندق کھود کر بھی جنگ ٹالی جاتی ہے۔
میں نے ہمیشہ میاں نواز شریف کی تعریف کی ہے، ان کی مہذب شخصیت اور ان کے دور میں ہونے والی ترقی کو سراہا ہے مگر کہنے دیجئے کہ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے اور تینوں مرتبہ ہٹائے گئے حالانکہ ایک سمجھدار انسان ایک ہی تجربے سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں پھیلی ہوئی اطلاعات کے مطابق عمران خان بھی اپنے عہدے اور طاقت کے زعم میں نواز شریف بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد ڈیلیور نہیں کر سکے۔ ان کے دور میں ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ انتظامی امور کا بھی بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔
مجھے یہ بھی کہنے میں عار نہیں کہ وہ ایک بہترین کرکٹر ہونے کے باوجود ملک کے مقبول ترین کھیل کرکٹ کو تباہ کر رہے ہیں مگر، بہرحال، یہ اس وقت موضوع نہیں ہے۔ میں اتنے برس کے بعد پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش نواز شریف سمجھوتہ کرنا جانتے، انہیں ذاتی اور سیاسی سطح پر افراد کی پہچان ہوتی، وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا جانتے، وہ اپنے اندر سے بادشاہت نکالتے مگر وہ آج بھی ویسے ہی جیسے اکیس برس پہلے تھے،۔ کاش وہ بدل جاتے، کاش وہ سمجھ لیتے، کاش وہ سیکھ لیتے تو پاکستان کو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔