تیس جنوری، مہا تما گاندھی کے قتل کا دن ہے۔ میں بطور طالب علم گاندھی کے بارے میں اتنا ہی جانتا تھا کہ وہ ہندو تھے اورمتحدہ ہندوستان چاہتے تھے لہٰذا یہ کافی ہے کہ میں، بطور مسلمان اور پاکستانی، گاندھی سے نفرت کروں۔ دلچسپ یہ رہا کہ کتابوں کی تلاش میں مجھے ایک فٹ پاتھ سے گاندھی کی جنسی زندگی کے بارے میں بھی ایک کتاب ملی جس کے بعد میری کراہت میں اضافہ ہو گیا جس کا اثر سنجے دت کی وہ فلم بھی زائل نہ کرسکی جس میں گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظرئیے کو گاندھی گیری کے نام سے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا تھامگر اس تمام کے باوجو دکیا آپ مجھے اجازت دیں گے کہ میں نے جو گاندھی، گاندھی لگا رکھی ہے انہیں گاندھی جی کہہ سکوں۔ خیال ہے کہ آپ میرے اس یوٹرن پر غصے میں بھر جائیں گے اور مجھے غدار قرار دے دیں گے مگر ایک لمحے کے لئے ٹھہرئیے اورفیصلہ کر لیجئے کہ آپ نے مطالعہ کرنا ہے۔ میں نے اپنی درسی کتب پڑھی ہیں، ان کی صداقت کو چیلنج کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے مگر تیس جنوری کچھ اور بتاتا ہے، چلیں، کچھ وقت مطالعے پر صرف کرتے ہیں۔
گوڈسے اور ان کے ساتھیوں نے گاندھی کو کیوں مارا۔ جب انھیں 12 جنوری سنہ 1948 کو معلوم ہوا کہ گاندھی 13 جنوری سے اپنی بھوک ہڑتال شروع کر رہے ہیں، بس تبھی انھوں نے گاندھی کو مارنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ گاندھی کے سب سے چھوٹے بیٹے دیوداس گاندھی کی پوتی اور مصنفہ سکنیا بھرت رام کہتی ہیں 'گوڈسے، آپٹے اور ان کے ساتھی گاندھی جی سے دو وجوہات کی وجہ سے بے حد غصہ تھے، پہلا گاندھی جی نے دلی میں 13 جنوری 1948 کو اپنی بھوک ہڑتال کیوں شروع کی؟ گاندھی جی نے بھوک ہڑتال اس لیے شروع کی تھی کیوں کہ دلی میں مسلمانوں کو مارا جا رہا تھا۔ ان کے اثاثے لوٹے جا رہے تھے، تشدد اور آگ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ساری کوششیں ناکام ہو رہی تھیں۔ 'آخر میں اس پرتشدد مشتعل ہجوم پر اخلاقی دبا¶ ڈالنے کے ارادے سے گاندھی نے 12 جنوری سنہ 1948 کو بھوک ہڑتال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے بیٹے دیوداس گاندھی نے جو اس وقت ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے، گاندھی کو بھوک ہڑتال پر نہ جانے کا مشورہ دیا تھا۔ دوسرا، جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تھی تب سرکاری اثاثے انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہوئے تھے۔ سرکاری خزانے میں موجود رقم بھی تقسیم کی گئی اور پاکستان کے حصے میں 75 کروڑ آئے۔ انڈین حکومت نے شروع میں پاکستان کو 25 کروڑ روپے دے دیے اور 55 کروڑ روپے بچ گئے۔ گاندھی چاہتے تھے کہ وہ رقم بھی پاکستان کو فوری طور پر دے دی جائے۔ گاندھی کے اس ردعمل کی وجہ سے گوڈسے اور ان کے ساتھیوں کو گاندھی پر غصہ تھا۔
گوڈسے اور اس کے ساتھیوں نے پہلی کوشش بیس جنوری کو کی تھی جب ان پر دیسی ساختہ بم سے حملہ کیا گیامگر وہ گاندھی جی کو مارنے میں ناکام رہے۔ یہ دھماکہ مدن لال پاہوا نے کیا تھا اور اسے گرفتار کر لیا گیا تھا اور گوڈسے وغیرہ دلی سے واپس ممبئی چلے گئے تھے مگر اس کے بعد وہ واپس آ گئے کیونکہ ان کو اطلاع ملی تھی کہ گاندھی جی ستائیس جنوری کو صوفی بختیار کاکی کی درگاہ پر جائیں گے۔ دراصل کاکی کی درگاہ کو مشتعل ہندووں نے نقصان پہنچایا تھاجس پر گاندھی جی بہت ناراض تھے۔ گاندھی جی کے اس دورے بارے معلوم ہونے پر گوڈسے اور ساتھیوں کا خون کھول اٹھا تھا۔ یوں تیس جنوری کو گوڈسے اور اس کے ساتھی دلی گھومنے نہیں آئے تھے۔ شام ہوتے ہوتے ان کے ساتھی جن میں مدن لعل پاہوا، وشنو کرکرے، گوپال گوڈسے شامل تھے، مرینا ہوٹل پہنچ گئے۔ یہ دستی بم، ٹائم بم اور پستول لے کر دلی آئے تھے۔ فریڈم ایٹ مڈنائٹ میں مصنف ڈمنک لوپیر اور لیری کولنز دعویٰ کرتے ہیں کہ مرینا ہوٹل کے کمرے میں گاندھی کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بناتے وقت کرکرے نے اپنے اور آپٹے کے لیے وسکی منگوائی۔ گوڈسے وسکی نہیں پیتے تھے، وہ کافی پسند کرتے تھے۔ وہ مرینا ہوٹل میں بار بار صرف کافی منگواتے رہتے تھے۔ گاندھی کے آخری دن کے ہر لمحے پر نظر رکھنے والے صحافی سٹیون مرفی لکھتے ہیں '20 جنوری کو ہونے والے حملے کے بعد برلا ہا¶س میں 30 پولیس والے تعینات تھے۔ نہرو اور پٹیل کی سکیورٹی بڑھانے کی درخواست کو گاندھی نے مان لیا تھا۔ لیکن جب ان پر گوڈسے نے گولی چلائی تب ان کے ساتھ سادہ لباس میں موجود رہنے والا پولیس والا اے پی بھاٹیا غیر حاضر تھا۔ اس دن ان کی کہیں اور ڈیوٹی لگا دی گئی تھی۔ ان کی جگہ گاندھی کی حفاظت کے لیے کوئی تعینات نہیں تھا۔ گاندھی کے ساتھ رہنے والے گروبچن سنگھ بھی نہیں تھے۔ 'ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا برلا ہا¶س کے اندر کوئی بھی آرام سے داخل ہو سکتا تھا۔ کیا اندر آنے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی تھی۔ بھاٹیا کی تیس جنوری کو کس نے اور کیوں ڈیوٹی کہیں اور لگا دی تھی۔ ان سوالوں کے جواب کسی نے نہیں دیے۔۔ ہاں، یہ بات ٹھیک ہے کہ 30 جنوری 1948 کو چاندنی چوک کے علاقے میں خاکروب اپنے مطالبات کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے اور پولیس کی بھاری نفری وہاں بھیج دی گئی تھی۔۔ تو کیا بھاٹیا بھی چاندنی چوک میں ہی تھے؟ یعنی گاندھی کو مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا۔۔ افسوس تو یہ ہے کہ گاندھی کے ساتھ صبح شام رہنے والی ذاتی ڈاکٹر سشیلا نیئر بھی اس دن نہیں تھیں۔ وہ پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ گاندھی کو گولی مارے جانے کے کچھ دیر بعد ڈی پی بھارگو اور ڈاکٹر جیوا جی مہتا وہاں پہنچ گئے تھے۔ ڈاکٹر میہتا نے گاندھی کو مردہ قرار دیا تھا۔ گاندھی کی سوانح حیات 'دی لائف آف مہاتما گاندھی' میں لوئی فشر لکھتے ہیں 'نہرو بھی فوراً برلا ہاس پہنچ گئے تھے۔ وہ گاندھی کے خون سے لت پت جسم سے لپٹ کر رو رہے تھے۔ پھر گاندھی کے سب سے چھوٹے بیٹے دیوداس گاندھی اور وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد بھی برلا ہاوس پہنچ گئے۔ 'بہرحال گاندھی کی قتل کی سازش میں دو مرکزی مجرمان اور دونوں دوستوں گوڈسے اور آپٹے کو پھانسی کی سزا دی گئی اور باقیوں کو عمر قید کی سزا ہوئی۔
میں نوائے وقت میں چھپنے والے اس کالم کی مکمل حمایت کرتا ہوں جس میں بتایا گیا ہے کہ گاندھی جی رام راج چاہتے تھے جبکہ قائداعظم محمد علی جناح اسلام کے نفاذ کے لئے ایک تجربہ گاہ چاہتے تھے مگر قائداعظم ہی اس وقت حکومت کے سربراہ تھے جنہوں نے گاندھی جی کے قتل کی مذمت کی تھی اور پاکستان کا قومی پرچم ایک دن کے لئے سرنگوں کر نے کے علاوہ تعطیل کا بھی اعلان کیا تھا۔ ہندووں اور مسلمانوں میں جو تعلقات ستر، اسی برس پہلے تھے ہندوستان میں کم و بیش آج بھی وہی ہیں۔ گاندھی کو قتل کرنے والی آر ایس ایس نظرئیے کی حامل بی جے پی اس وقت بھی وہاں حکمران ہے مگر گاندھی جی کا کردار کچھ مختلف تھا، وہ ہندووں کو ان مظالم سے روک رہے تھے، اس خوبصورت مقصد کے لئے بھوک ہڑتال کئے ہوئے تھے جب انہیں گولیاں ماری گئیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس سچ کو ہمارے ہاں ہضم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اگر میں یہ حوالہ دوں کہ میں نے اس کالم کا دوسرا اور تیسرا پیراگراف حقائق کو درست انداز میں رکھنے کے لئے بی بی سی اردو سے نقل کیا ہے تو جواب یہ بھی آ سکتا ہے کہ بی بی سی پاکستان کا دشمن خبررساں ادارہ ہے مگر ہمیں نفرت اور تعصب کی آگ سے باہر نکلنا ہو گا اور اگرآپ ایک سچے مسلمان اور پاکستانی ہیں تو آپ کو گاندھی جی کے اس موقف اورکردار کو سراہنا ہو گا جس کے باعث انتہا پسند ہندووں نے انہیں اس آزادی کے چھ ماہ پورے ہونے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جس آزادی کے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی جدوجہد کی تھی۔