میں نہرو پارک، سنت نگر کے رمضان بازار میں تھا اور وہاں مردوں اور خواتین کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ یہ قطار دو کلو چینی کے لئے تھی جو حکومت پینسٹھ روپے کلو کے نرخ پر فروخت کر رہی تھی۔ ایک منٹ ٹھہرئیے۔ یہ قطار دو کلو چینی کے لئے نہیں تھی کیونکہ چینی بازار میں وافر موجود ہے۔ اگر آپ امپورٹڈ کے نام پر چینی کا برادہ خریدنا چاہتے ہیں جس میں مٹھاس نہ ہونے کے برابر ہے تو وہ پچاسی روپے کلو کے ڈی سی ریٹ پر دستیاب ہے۔ یہ ڈی سی ریٹ بھی عجیب دھوکا اور فراڈ ہے۔ ہم کسی مہذب، عوام دوست اور قانون پسند ریاست کے شہری ہوتے تو ہر شہر کے ڈی سی پر اس کے جاری کئے ہوئے نرخوں پر ایک پرچا ہوا ہوتا مگر ہم بنانا ری پبلک میں رہتے ہیں جس میں حکمران اپنی انتظامی نااہلی اور کرپشن کی داد ہمارے ہی ٹیکسوں کے پیسوں سے سب سڈی دے کر واہ واہ کی صورت لیتے ہیں۔ قہقہہ لگائیے، ڈی سی ریٹ پر بڑا گوشت چار سو روپے اور چھوٹا گوشت ساڑھے آٹھ سو روپے کلو ملتا ہے۔ بات چینی کی ہو رہی ہے تو اس کا مارکیٹ ریٹ اس وقت ایک سو دس روپے کلو ہے اور وہ بھی دکاندار اعتبار والے بندے کو دیکھ بھال کے دیتا ہے ورنہ صاف انکار کر دیتا ہے۔ دراصل وہ خواتین کئی گھنٹوں سے ایک لمبی قطار میں دو کلو چینی کے لئے نہیں تھیں بلکہ چالیس روپے بچانے کے لئے تھیں۔
آہ! یہ چالیس روپے بھی کیا ہوتے ہیں کہ بہت سارے اپنے پاس دس، بیس کے نوٹ تک نہیں رکھتے اور کئی انہی ایک، دو چالیس روپوں سے پورے گھر کے پیٹ کا جہنم بھرنے کی سوچتے ہیں۔ شادمان کے رمضا ن بازار میں کئی لوگوں نے کہا کہ وہ انتظامات سے مطمئن ہیں، یہ سب دو کلو سستے آلو اورپیاز لینے کے لئے لائن میں لگے ہوئے تھے کیونکہ شادمان بازار میں چینی ختم ہوچکی تھ، ایک آدھ نے مزید کہا کہ ہر دور میں ایسے ہی بازار ہوتے ہیں۔ میں نے سن لیا مگر آصف جو وہاں سے جاتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا، مجھے کہنے لگا، آپ کو ان لوگوں کی باتوں سے وہ روایت ہونے والا واقعہ یاد نہیں آیا کہ ایک ملک میں بادشاہ نے پابندی لگا دی کہ اب ہر صبح شہر میں داخل ہونے سے پہلے دروازے پر ہر شخص کو ایک جوتا مارا جائے گا جس پر ہر صبح شہر میں داخل ہونےو الوں کی لمبی قطاریں لگ جاتیں اور کئی لوگ تو دوپہر یا شام تک جوتا کھاتے اور شہر میں داخل ہوتے۔ لوگ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے بادشاہ سلامت ہمیں جوتے کھانے سے کوئی تکلیف نہیں مگر اس میں وقت بہت صرف ہوتا ہے، آپ براہ مہربانی جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھا دیجئے۔
بات اِدھر ادُھر نکل گئی۔ بات چینی کی ہو رہی تھی جس کی قطاروں میں مردوں سے مرد اور عورتوں سے عورتیں یوں جڑی کھڑی تھیں کہ کورونا وائرس کو ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں جانے کے لئے چھوٹی موٹی چھلانگ لگانے کی بھی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ لیٹ کے بھی جاسکتا تھا اوردوسری طرف حکومت کل سے لاہور سمیت کئی شہروں میں بھرپور قسم کا لاک ڈاون کرنے جا رہی ہے۔ آج رات بارہ بجے سے بین الاضلاعی اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بھی بند کر دی جائے گی جس کے بعد اپنے پیاروں کے پاس عید منانے کے لئے وہی جا سکے گا جس کے پاس اپنی گاڑی ہو گی یا وہ ٹیکسی کا کئی گنا کرایہ افورڈ کر سکے گا۔ مجھے یہ حکمران بے وقوف نہیں لگتے کیونکہ بے وقوف نہ کبھی ارب پتی ہوتے ہیں اور نہ ہی کبھی اقتدار میں آتے ہیں تو پھر ان حکمرانوں کے ساتھ مسئلہ کیا ہے کہ لوگوں کے لئے مشکل در مشکل پیدا کر رہے ہیں۔ آج دفتروں وغیرہ میں چھٹیاں ہوں گی اور لوگ گھروں کو جانے کے بسوں کے اڈوں پر پہنچیں گے تو علم ہوگا کہ ایک بس میں ڈبل کرایہ دے کر آدھی سواریاں ہی بیٹھ سکتی ہیں۔ یہ بسیں تو عام عیدوں پر تمام پردیسیوں کوگھر نہیں پہنچا سکتی تھیں تو اب آدھی سیٹیں خالی رکھ کر تو مشکل در مشکل ہو گی۔ آج حکمرانوں کو لاری اڈوں سے بھی بددعائیں ملیں گی۔
بات پھر ادھر ادھر نکل گئی کہ بات چینی کی ہو رہی تھی۔ حکمران چینی مافیا کی بات کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ چینی کے مہنگے ہونے میں ان کا اپنا کتنا ہاتھ ہے۔ جب شوگرملیں گنا خرید رہی تھیں تو اس وقت بلند و بانگ دعوے کئے جا رہے تھے کہ ہم نے کسان کو یہ پہلی بار یہ موقع دیا ہے کہ وہ من پسند ریٹ پر گنا فروخت کرے اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسان نے سو فیصد تک مہنگا گنا فروخت کیا۔ جب شوگر ملوں نے مہنگا گنا خریدا تو آپ کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ چینی کنٹرول ریٹ پر فروخت کریں گی۔ یہاں سٹے باز میدان میں آئے اور انہوں نے اونچے نرخوں پر اگلے سیزن کے مہنگے ریٹ پرجعلی سودے کئے۔ جب کوئی سودا پچیس سے پچاس فیصد زائد پر بغیر فزیکل ڈیلیوری ہو گیا، کاغذ ہاتھ میں آ گیا تو اس کے بعد پھر وہ بلیک ہوا۔ یہاں حکومت کی نااہلی ہے کہ وہ سٹے بازوں اورمڈل مینوں کے کھیل کو نہ روک سکی بلکہ اطلاعات ہیں کہ حکومتی شخصیات نے بھی اس میں اربوں کمانے کی سوچی۔ جب شہباز شریف دور کی پچپن روپے کلو والی چینی ایک سو دس روپے کلو پر جا پہنچی تو حکمرانوں نے ہمارے ہی ٹیکسوں سے سب سڈی دے کروہی چینی رمضان بازاروں میں پینسٹھ روپے دے کر اپنی واہ واہ کروا لی۔ یہ حکمرانوں کی دنیا کے اربوں کھربوں کے ساتھ جنت کمانے کی سادہ سی کہانی ہے۔
کہتے ہیں کہ ڈی سی ریٹ والی چینی میں مٹھاس ہی نہیں ہے تو مجھے سعدی کی حکایات والا بادشاہ یاد آ گیا جو شکار کھیلنے گیااور ساتھیوں سے جدا ہوکر ایک باغ میں جا پہنچا۔ وہ باغ انارکا تھا جس میں دور دور تک لگے ہوئے پودے موٹے موٹے اناروں سے لدے ہوئے تھے۔ باغ کا مالک ایک بوڑھا اور جہاندیدیہ شخص تھا۔ اس نے امیروکبیر نظر آنے والے اجنبی کا استقبال کیااور اس کی تواضع کے لئے سامنے لگے پودے سے ایک انار توڑا، اسے نچوڑاتو ایک بڑا گلاس رس سے بھر گیا۔ بادشاہ بہت حیران ہوا اور سوچا کہ یہ اتنا ا چھا باغ ہے کیوں نہ اسے حکومتی تحویل میں لے لیا جائے یا اس پر ڈھیر سارا ٹیکس عائد کیاجائے۔ یہی سوچتے سوچتے اس نے گلاس ختم کیا تو بوڑھے مالک نے مسکرا کر پوچھا۔ کیا ایک اور گلاس پیش کروں۔ بادشاہ کے ہاں کہنے پر اس نے اسی درخت سے ایک اور انار توڑا مگر اس کے نچوڑنے پر آدھا گلاس بھی نہ بھرا، دوسرا توڑا اور پھر تیسرا۔ بادشاہ پھر حیران ہوا او ربولا پہلے ایک ہی انار سے گلاس بھر گیا اور اب تین، تین توڑنے پڑے، یہ کیا ماجرا ہے۔ بوڑھے جہاندیدہ شخص کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں اور بولا، یوں لگتا ہے کہ ہمارے بادشاہ کی نیت میں فتور آ گیا ہے، ہمارے اناروں کے رس کی برکت اڑ گئی ہے۔
تو اے میرے پیارے بادشاہ! میں نے دیکھا نہر و پارک کے رمضان بازار میں محض چالیس روپے بچانے کے لئے اچھے اچھے گھروں کی پڑھی لکھی خواتین لائنوں میں لگی ہوئی تھیں اور وہ دہائی دے رہی تھیں کہ ان کے باپوں اور شوہروں کے رزق سے برکت اڑ گئی ہے۔ وہ چالیس روپے بچانے کے لئے گھنٹوں لائن میں لگی رہیں مگر ان میں سے بہت ساروں کو سستی چینی نہیں ملی کہ وہ ختم ہو چکی تھی۔