میرا صدیق الفاروق سے تعلق برسوں نہیں عشروں پرمحیط ہے۔ نوے کی دہائی میں جب میں روزنامہ دن، کا چیف رپورٹر ہوا کرتا تھا اور وہ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی۔ وہ ایک طویل عرصہ تک برادرم پرویز رشید کے ساتھ مل کر میڈیا کو ڈیل کرتے رہے اور اسی دوران انہیں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور متروکہ وقف املاک سمیت کچھ دیگر ذمے داریاں بھی ملیں۔ وہ اکثر ان تمام کامیابیوں کا ذکر کیا کرتے تھے جو ان کے دور میں ان محکموں کو ملیں، جن کے ذریعے عوام کو آسانیاں اور سہولتیں ملیں۔
ایک سیاسی کارکن کا یہی سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے کہ اسے جب کوئی حکومتی ذمے داری ملے تو وہ اسے عوام کے لئے استعمال کرے۔ بیٹے کی وفات لاہور میں ہی ہوئی، جب وہ لاہور سے گئے تو بہت زیادہ رابطہ فون پر ہی رہ گیا۔ میرے بہت سارے کالموں پر ان کا فون آجاتا تھا۔ وہ بہت دیر تک اس کے مختلف پہلووں پر مجھ سے ڈسکس کرتے رہتے۔ سچ تو یہ ہے کہ جب ان کا فون آتا تو میں ایک مینٹل ایکسرسائز، کے لئے تیار ہوجاتا۔ وہ اکثر حقائق کے وہ پہلو مجھے بتاتے جو انہوں نے خود دیکھے ہوتے۔
پرویز مشرف کے دور میں جب شیخ رشید اور چوہدری پرویز الٰہی جیسے ساتھ چھوڑ رہے تھے تو ان پر بھی اسی قسم کا دباو تھا جس قسم کا پرویز رشید پر۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت کی آمریت کوایسے لوگ درکار تھے جو پرویز مشرف کی حکمرانی کو اپنے علم اور فکرکے ذریعے جواز دیتے۔
مسئلہ تو تب پیدا ہوا جب صدیق الفاروق نے نیب کے ہاتھوں گرفتاری کے باوجود نواز شریف کاساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور پھر اس گرفتاری کو ایک برس سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا۔ معاملہ کسی طرح اس وقت کی کمزور عدلیہ تک پہنچا تو وہاں بھی حکومت کے پاس انہیں گرفتار رکھنے کا کوئی الزام اور کوئی جواز موجود نہیں تھا۔ انتہائی شرمناک مؤقف اختیار کیا گیا کہ نیب، صدیق الفاروق کو گرفتار کرنے کے بعد بھول گیا تھا۔
صدیق الفاروق ایک بہت اچھے سیاسی کارکن تھے اور میری نظر میں ایک اچھے سیاسی کارکن کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ موقع پرست اور غدار نہیں ہوتا۔ وہ ملک کی ترقی اور قوم کی خوشحالی کے لئے حریص ہوتا ہے۔ وہ ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیتا ہے اور صدیق الفاروق سو فیصد ایسے ہی تھے اور اب ہمارے درمیان ایسے لوگ کم ہی رہ گئے ہیں بلکہ سوشل میڈیا نے خاص طور پر نظریاتی کارکنوں کی بجائے جگت بازوں اور پھکڑ بازوں کو اہمیت دے دی ہے۔
ایک وقت تھا کہ سیاسی کارکنوں میں وہ آگے ہوا کرتے تھے جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے ڈھیر سارے پیسے اور لیڈر شپ کے ساتھ موو کرنے کے لئے بڑی بڑی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ اب آپ کے لائم لائیٹ میں آنے کے لئے دولت بہت بڑی سیڑھی نہیں رہ گئی مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ دولت کی جگہ جس شے نے لی ہے وہ نظریہ، دلیل اور قربانی نہیں بلکہ جھوٹ اور گالی ہے گویا ہم ایک دلدل سے نکل کر دوسری میں پھنس گئے ہیں اورشائد یہ پہلی سے زیادہ غلیظ اور بدبودار ہے۔
صدیق الفاروق کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ صحافت سے سیاست میں آنے والے نظریاتی لوگوں کے گروہ میں سے تھے۔ ان کے بارے میں کسی نے مشاہد حسین کی مثال دی تو میں نے اسے مکمل طور پر رد کیا۔ وہ گفتار ہی نہیں بلکہ کردار میں بھی مشاہد حسین سید کے بالکل الٹ تھے۔ کسی نے شکوہ کیا کہ انہیں مسلم لیگ نون کی قیادت بھول گئی۔ وہ طویل عرصے بیمار تھے اور یہ ان کی بیماری کا دوسرا بلکہ تیسرا سخت ترین دور تھا۔
ہماری سیاست کا المیہ یہی ہے کہ وہ بہت تیز رفتار ہے۔ اس میں جو بھی تھوڑا سا پیچھے رہتا ہے وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس میں آگے آنے والوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ نواز شریف جیسا وضع دار شخص بھی اگر بہت سارے ساتھیوں کو یاد نہ رکھ سکے تو باقیوں کا کیا حال ہوگا۔ وہ جس ٹیم میں تھے شائد اس کے ساتھ ان کے کچھ نظریاتی اختلافات بھی ہوئے جیسے دائیں اور بائیں بازو کے۔ صدیق الفاروق کی سوچ سیکولر نہیں تھی، اسلامی تھی۔ میری جب بھی ان سے بات ہوتی تو اختتام اسی پر ہوتا کہ میں جب اسلام آباد آیا تو ان کی طرف ضرور چکر لگے گا اور پھر اگلے بار فون پر بھی اسی کو دہرا لیا جاتا۔
سچ تویہ ہے کہ مسلم لیگ نون ہویا پیپلزپارٹی، اس کے پاس صدیق الفاروق جیسے بہت سارے نظریاتی کارکن موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کا نام میں نے اس لئے نہیں لیا کیونکہ مجھے اس کے نظرئیے کا ہی علم نہیں ہے۔ نظریاتی سیاسی کارکنوں میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اوراے این پی جیسی جماعتیں بھی بہت رِچ، ہیں مگر دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظریات کا کچھ متنجن سا بن گیا ہے۔ کسی کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس پارٹی کا نظریہ کیا ہے۔
ہمارے نظریات کو مارشل لاؤں نے بھی متاثر کیا ہے اور سیاسی جماعتوں کی مجبوریوں نے بھی۔ جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نون نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دیا مگر اب وہی فوج کے ساتھ اچھے تعلقات کار کی حامی ہے لیکن اگر یہ کوئی یوٹرن ہے تو ا س سے بڑا نہیں ہے کہ جوآرمی چیف کو باپ کہا کرتے تھے انہوں نے نو مئی برپا کر دیا۔ ویسے میرا اور صدیق الفاروق مرحوم کا اس پر اتفاق ہوا کرتا تھا کہ مسلم لیگ نون کا نظریہ تصادم نہیں بلکہ ترقی کا ہے کہ مسلم لیگ نون کا مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا ورکر فوج سے لڑنے والا نہیں ہے۔ یہ اپنی فوج سے محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کی حکومت میٹروز اورموٹرویز کے ساتھ ساتھ جناح، چلڈرن، پی آئی سی اور پی کے ایل آئی جیسے ہسپتال بناتی رہے۔
مسلم لیگ نون کا ورکر خود کو نہ سوشل میڈیا دانشور ظاہر کرتا ہے اور نہ ہی کوئی انقلابی۔ وہ تعمیر، ترقی اوراصلاحات کی بات کرتا ہے، ہاں، اسے اس روئیے کا ضرور گلہ اور شکوہ ہے جو صدیق الفاروق کے حوالے سے بھی بیان کیا جا رہا ہے کہ جب پارٹی کی حکومت آتی ہے تو بڑے بڑے وزیروں کو کارکنوں کے لئے میرٹ یاد آ جاتا ہے مگر اپنی فیملی اور مصاحبوں کے لئے وہ سب کچھ جائز سمجھتے ہیں۔
اس سے انکار نہیں کہ مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں بہت کام کر رہی ہیں مگر اس سے بھی انکار نہیں کہ کارکنوں کی کہیں پر بھی شنوائی نہیں ہے۔ ضلعی سطح کے بہت سارے کارکن بلدیاتی نظام میں بھی اکاموڈیٹ ہو سکتے ہیں مگر اس پر بھی کام ہوتا نظر نہیں آ رہاسو جب متحرک، نظریاتی اور ایماندار کارکن قیادت کی توجہ سے باہر ہوتے ہیں تو عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھنے والے بہت سارے صدیق الفاروق شکوہ کئے بغیر گھر بیٹھ جاتے ہیں، بیمار ہوجاتے ہیں اور آخر کار مر جاتے ہیں۔