ہم حالات حاضرہ اور سیاست کے تجزیہ کار نجومی نہیں ہوتے مگر پیش آنے والے واقعات سے آنے والے حالات کا اندازہ ضرور لگا لیتے ہیں جیسے وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی پریشانی بتا رہی ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے، معاملات اتنے آسان اور ہموار نہیں ہیں جتنے اس سے پہلے تھے حالانکہ حکومت کے پاس اس وقت بھی اپنے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو جتوانے کے لئے 181 ووٹ موجود ہیں جو اپوزیشن کے مجموعی ووٹوں سے اکیس زیادہ ہیں۔ جناب حفیظ شیخ کے بارے میں یہ غلط فہمی ہرگز نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ صرف پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں بلکہ وہ حقیقت میں پی ٹی آئی کے اتحادیوں کے امیدوار ہیں جو اتحادی اس سے پہلے جادوئی طریقے سے اپنے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنوا چکے ہیں۔ یہ اطلاعات موجود ہیں کہ حکومتی ارکان اسمبلی پر خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے۔ وزیراعظم ارکان اسمبلی کی جائز و ناجائز ماننے کے لئے ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود حکمران اتنے پریشان ہیں کہ وہ ووٹروں کے دئیے ہوئے ووٹ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں حکومتی ارکان نے اپنے ووٹ غیر حکومتی امیدواروں کو نہیں دے دئیے۔ یقین کیجئے، سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا مگر حکمرانوں کی بوکھلاہٹ نے سب کچھ مشکوک کر دیا ہے۔
ہم بہت سار ے صحافی اپوزیشن کی ایک بڑی سیاسی رہنما کے پاس اظہار افسوس کے لئے موجود تھے اور وہ کہہ رہی تھیں کہ اب ایک پیج والی صورتحال نہیں رہی۔ میری اختلافی رائے یہ تھی کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ پلاننگ کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ ہم اچھی طرح اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اگلے پانچ سے دس سال تک اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کون، کیا اورکیسی رہے گی اور یہ بھی کہ ان پانچ سے دس برسوں میں اگلے پانچ سے دس برسوں کی منصوبہ بندی کر لی جائے گی مگر مذکورہ رہنما کاجواب تھا کہ تدبیر کند بندہ تقدیر کند خندہ، انہوں نے ایک دو اعلیٰ ججوں کے باقاعدہ نام لئے اور کہا کہ ان لوگوں کا آنا بھی منصوبہ بندی میں شامل نہیں تھا مگر اب یہ آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں لہٰذا زمین والوں کے اپنے پلان ہوتے ہیں اورآسمان والے کے اپنے۔ جناب عمران خان اور اتحادیوں کی پریشانی ظاہر کر رہی ہے کہ کچھ ان کے منصوبوں کے خلاف ہے اگرچہ تادم تحریر واضح امکانات ہیں کہ جناب حفیظ شیخ سینیٹ کا الیکشن جیت جائیں گے کہ اگر وہ ہار گئے تو یہ ضمیر کی روشنی میں خفیہ ووٹوں کے ذریعے جناب عمران خان پر براہ راست عدم اعتماد ہو گاکہ اگر محض یوسف رضا گیلانی کےلئے اگر حکومت کے اکیس سے زائد ارکان اپنی وفاداریاں تبدیل کرسکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہواکہ کسی من پسند وزیراعظم کے لئے ان سے بھی کہیں زیادہ ارکان منحرف ہوسکتے ہیں لہٰذا اس خطرے کا ہر قیمت پر راستہ روکا جانا ضروری ہے۔ دوسرے سینیٹ میں پی ٹی آئی اوراتحادیوں کی اکثریت لانے کے لئے منصوبہ بندی آج سے تین برس پہلے شروع ہو گئی تھی اوراس کی بنیاد سینیٹ کے پچھلے انتخابات سے پہلے رکھ دی گئی تھی جب جناب آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان نے مقتدر حلقوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے پہلے بلوچستان حکومت ختم کروائی تھی اوراس کے بعد سینیٹ الیکشن میں گھاٹے کا سودا کیا تھا۔ میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ اگر حفیظ شیخ ہار جاتے ہیں تو برسوں کی یہ محنت اورمنصوبہ بندی اکارت چلی جائے گی۔
میں ذاتی طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان کی سینیٹ الیکشن بارے رائے کو بھی اپوزیشن کے حق میں نہیں سمجھتا بلکہ یہ اسی قسم کا فیصلہ ہے جس قسم کا فیصلہ بری، بحری اور ہوائی افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے آیا تھا۔ بظاہر لگتا تھا کہ سپریم کورٹ نے ایک غیر آئینی عمل کاراستہ روکا ہے مگر درحقیقت اسی کے ذریعے مدت ملازمت میں توسیع کو باقاعدہ آئینی حیثیت ملی تھی۔ اب بھی یوں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی بالادستی کے اصول کو برقرار رکھا ہے مگردوسری طرف نئی اوراہم بات یہ ہے کہ ووٹ کی خفیہ حیثیت دائمی نہیں رہی۔ یہاں الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنے موقف پر ڈٹ نہ جاتا توراستہ فوری طور پر نکل آتا۔ الیکشن کمیشن کا ردعمل غیر متوقع تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان ایک معروف اورسینئر اینکر کی ٹوئیٹس بتاتی ہیں کہ جناب عمران خان کے ویژن پرعمل نہ ہونے کی صورت میں سوچاتویہا ں تک جا رہاہے کہ چیف الیکشن کمشنرکے خلاف اگلے مرحلے میں توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے مگر چیف الیکشن کمشنر بھی جہاں دیدہ اورتجربہ کار بیوروکریٹ رہے ہیں اور وہ ایسے معاملات سے نمٹنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ سکندر سلطان راجاکو گذشتہ برس جنوری میں ان کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا اور فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے اپوزیشن ان کے بارے بھی کچھ اچھی رائے نہیں رکھتی تھی کہ اپوزیشن جماعتوں کی نظرمیں اس کیس کو جہاں پہلے غیر ضروری طور پر لٹکایاجا رہا تھا، اب بھی لٹکایاجا رہا ہے جبکہ یہ وہ کیس ہے جو حکمران جماعت کا قصہ تمام کر سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے آزاداوغیر جانبدار ہونے کے دو ثبوت ملے ہیں، اول یہ کہ اس نے سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ کو ظاہر کرنے کے حوالے سے تمام تر دباو کے باوجود آئین سے ہٹ کر رائے دینے سے انکار کر دیا اور دوسرے این اے 75 کے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات پرجو نوٹس لیا اور فیصلہ دیا گیا ہے وہ بھی آئین اور جمہوریت پسندوں کے لئے خوش اورحیران کر دینے والا ہے ورنہ ہم نے بطور صحافی عام انتخابات میں بھی نتائج کی ترسیل رکتے اور ووٹوں کے تھیلوں کو اگلے دن تک ریٹرننگ افسران کے پاس پہنچتے ہوئے دیکھا ہے۔ لاہور میں جناب عمران خان کے حلقہ انتخاب میں سو فیصد یہی کچھ ہوا تھا جو ڈسکہ میں ہوا ہے مگر تب نہ صرف نتائج ڈیکلئیر ہوئے تھے بلکہ انہی نتائج کی بنیاد پرجناب عمران خان وزیراعظم بھی بن گئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ دھاندلی میں مدد کرنے والے انتظامی اور پولیس افسران کو عبرت کا نشان بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے جو سرکار کے جوتے چاٹنے والے بہت سارے سرکاری افسران کے لئے ایک کھلاڈلا پیغام ہے کہ وہ حکمرانوں کے نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کے ملازم ہیں اور انہی کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اورمراعات لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے غائب ہوجانے والے بیس پریذائیڈنگ افسران کے موبائل فونز کا ڈیٹا بھی طلب کر لیا ہے کیونکہ ان کی اکثریت دھند میں راستہ بھولنے کے ساتھ ساتھ بیٹری ختم ہونے کے عذر پیش کر رہی ہے۔ یہ ڈیٹا ظاہر کرے گا کہ یہ پریذائیڈنگ افسران کن کے ساتھ کالز یا میسیجز پر رابطے پر تھے اور سگنلز کے استعمال سے یہ بھی علم ہوگاکہ کس علاقے میں تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان میں سے کچھ اساتذہ ہیں تو انہیں فوری طور پر پڑھانے کی ذمے داری سے الگ کرنا چاہئے کیونکہ بزدل اور بددیانت لوگ ایک بہادر اوردیانتدار نسل تیار نہیں کر سکتے۔
تدبیر کند بندہ، تقدیر کند خندہ کے مصداق صورتحال یہ بن رہی ہے کہ اگلے عام انتخابات2023 میں ہوں گے اور اس وقت چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کے عہدوں پر جو لوگ ہوں گے وہ جناب عمران خان اور ان کے اتحادیوں کے لئے ایک ڈراونا خواب ثابت ہوسکتے ہیں اور ان کی اگلے دس، پندرہ برسوں کی منصوبہ بندی کوفئیر اینڈ فری انتخابات کی صورت میں تباہ کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ 17 ستمبر2023 کو چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے اور 24 اکتوبر2025 تک ذمہ داریاں سرانجام دیں گے جبکہ چیف الیکشن کمشنر 26 جنوری 2025 کی شام تک عہدے پر موجود ہوں گے۔ واللہ اعلم باالصواب۔