برس، سوا برس ہو گیا، کورونا کا شور مچا ہوا ہے اور ہر حکومت اپنے شہریوں کو بچانے کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔ بریک تھرو اس وقت ہوا جب عالمی سطح پر تحقیق کے نتیجے میں ویکسین تیار کر لی گئی اور اس برس دو فروری پہلے پاکستانی کوکورونا ویکسین کی پہلی ڈوز دی گئی، نہیں نہیں، ہماری حکومت نے وہ ویکسین خریدی نہیں بلکہ دنیا کے غریب ممالک کو جو خیرات کے طور پر دی جارہی تھی وہی ہمیں مل رہی ہے۔ میں نے اس ماہ کے آغاز میں حکومت کے کچھ بڑوں کے فخریہ بیانات دیکھے کہ ملک بھر میں دس لاکھ افراد کو ویکسین کی ڈوزلگا دی گئی ہے۔ ابھی اپریل کا تیسرا عشرہ شروع ہوا تو یہ تعدادبڑھ کر ایک اعشاریہ تین ملین یعنی تیرہ لاکھ ہو گئی۔ میں نے جمع تفریق کی تو علم ہوا کہ ملک میں پانچ لاکھ بندہ فی مہینہ ویکسی نیشن ہو رہی ہے، مزید حساب کتاب لگایا کہ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور اگر ہم اسی رفتار سے ویکسی نیشن کرتے رہے تو انشا¾ اللہ تعالیٰ ساڑھے چھتیس برس کی قلیل مدت میں، یعنی2057 تک ہر پاکستانی کو ویکسین لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
میرے ایک دوست نے نشاندہی کی کہ تمہارا حساب کتاب موجودہ آبادی تک تو ٹھیک ہے مگر اگلے چھتیس برس میں ملک کی آبادی میں ایک بڑا اضافہ ہوجائے گا اور تمہیں وہ بھی سامنے رکھنا چاہئے، دوبارہ جمع تفریق پر اندازہ ہوا کہ اگر چھتیس برس میں نئے پیدا ہونے والوں کو بھی اسی رفتار سے ویکسین لگانی پڑی تو انشاءاللہ ہم مزید اٹھارہ برس یعنی 2075 تک تمام آبادی کو کورونا سے محفوظ کر لیں گے۔ میں جناب وزیراعظم کی اس بات پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ قوموں کی زندگیوں میں چند برسوں میں تبدیلیاں نہیں آتیں اور یہ بھی کہ کسی بھی بڑی تبدیلی کے لئے پانچ برس کی مدت بہت کم ہے لہذا میرا اندازہ یہ بھی ہے کہ آبادی میں اضافے کو فی الوقت نظرانداز کرتے ہوئے ا جب ہم موجودہ آبادی پر ساڑھے چھتیس برس میں ویکسی نیشن کر کے اس پروگرام کو کلوز کر رہے ہوں گے تو ہمارے محبوب وزیراعظم اس وقت تک مزید سات مرتبہ منتخب ہوچکے ہوں گے اور ان کی عمر ایک سو پانچ برس کے لگ بھگ ہو گی، انشاءاللہ۔
میرے بہت سارے دوست اتنے ہی کمینے ہیں جتنے اچھے دوست کمینے ہوسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ خان صاحب کی نہ گھبرانے کا قول زریں نظرانداز کرتے گھبرا جاتے ہیں۔ وہ گوگل کرتے ہیں تو عالمی اداروں کی رپورٹیں سامنے آجاتی ہیں کہ جن کے مطابق ہم اپنے شہریوں کی ویکسی نیشن میں 123ممالک کی درجہ بندی میں 120 ویں نمبر پرہیں۔ میں یہ سوچ کر فخر محسوس کرتا ہوں کہ ہم ابھی تک تین ممالک سے آگے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ ہم اپنے خطے میں انڈیااور بنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ قحط زدہ افریقی ممالک روانڈا، گھانا اور نائیجریا سے بھی پیچھے ہیں۔ یہ موازنہ بھی کمینگی ہے کہ امریکا212 ملین، چین 195 ملین اور انڈیا 127 ملین شہریوں کی ویکسی نیشن کر چکا ہے جبکہ ہمارے ہاں فرسٹ ڈوز لینے والے ڈیڑھ ملین بھی نہیں ہے، یہ سو میں سے ایک فرد بھی نہیں بنتا بلکہ آدھا فرد، آدھے سے تھوڑا سا زیادہ فرد۔
کمینے دوست کہتے ہیں کہ تمہارا حساب کتاب ٹھیک نہیں ہے۔ تم اس وقت اس آبادی کو ویکسین لگانے کی بات کر رہے ہو جو زندہ ہے مگر دوسری طرف کورونا کے ذریعے فیملی پلاننگ بھی جاری ہے اورجس رفتار سے جنازے اٹھ رہے ہیں عین ممکن ہے کہ ویکسی نیشن کے لئے کچھ عرصے بعد آدھی آبادی رہ جائے اورویکسی نیشن کی مدت چھتیس برس سے کم ہو کر اٹھارہ برس اور چار ماہ۔ کمینوں کا کہنا ہے کہ ملک کی آبادی کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جو رب کے پاس واپس جا رہا ہے اسے جانے دیا جائے کہ ہمارا تو ایمان ہی یہ ہے کہ ہم سب اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہماری حکومت اس قومی اور دینی فریضے کو بہت بہتر طور پر نبھانے کی کوشش کر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت پنجاب نے مبینہ طور پر کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کے کہنے پراس انجکشن کی خریداری روک دی ہے جو کورونا میں پھیپھڑے تباہ ہونے کی جادوئی روک تھام کرتا ہے۔ اس انجکشن کا نام ریمیڈئیسوئیر ہے جس کا میں ایک پہلے کالم میں بھی تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں مگر اب صورتحال ڈاکٹر فرزین کی اطلاع کے ساتھ یہ ہے کورونا میں بلڈ کلاٹ روکنے والا انجکشن کلیگزین بھی مارکیٹ سے غائب ہو گیا ہے، یہ بات مجھے اس سے پہلے ینگ نرسز ایسوسی ایشن پنجاب کی جنرل سیکرٹری مقدس تسنیم بھی بتا چکی ہیں۔ ڈاکٹر فیصل بتا رہے تھے کہ وہ اس انجکشن کو ڈھونڈنے کے لئے میو، جناح، سروسز سمیت تمام ہسپتالوں کے باہر بڑے بڑے میڈیکل سٹوروں کے چکرلگاتے رہے مگر نہیں ملا۔ کورونا میں موت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بلڈ کلاٹس بن جاتے ہیں بلکہ نئی ساوتھ افریقن قسم میں یہ خطرہ بہت زیادہ بیان کیا جا رہا ہے۔ تیسرے مشہور و معروف انجکشن ایکٹرما، بھی دھڑلے سے بلیک ہو رہا ہے جو کورونا کے لئے اہم بیان کیا جاتا ہے، محترم شیخ رشید احمدنے یہ انجکشن بڑی سفارش کے بعد ڈھونڈا اور لگوایا تھا۔ ایکٹرما دستیاب ہے، ممکن ہے کہ آپ کو دو لاکھ روپوں میں کسی سفارش یا تعلق کی بنیاد پر مل جائے ورنہ مانگنے والے اس کے اڑھائی اور تین لاکھ روپے بھی مانگ رہے ہیں۔ میں ابھی ہسپتالوں میں بیڈز، آکسیجن ایکوپیمنٹس اور وینٹی لیٹرز کی بات نہیں کر رہا اور نہ ہی اس امر کو دہرا رہا ہوں کہ جب ہم کورونا کے خلاف ایک بڑی جنگ لڑ رہے ہیں تو حکومت پنجاب نے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی بھرتی پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے۔ جب جنگ لگتی ہے تو اس وقت عام شہریوں کو بھی اسلحہ پکڑا کر میدان میں کھڑا کر دیا جاتا ہے مگر کورونا کے خلاف جنگ میں ان فوجیوں یعنی ان ڈاکٹروں کو جو باقاعدہ تربیت یافتہ ہیں اور بہت سارے تجربے اور دیگر بنیادوں پر مفت خدمات فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔
میرا خیال ہے کہ مجھے اپنے اوپر دئیے گئے اعداد و شمار پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ادویات نہ ملنے کے بعد اتنے پاکستانی باقی ہی نہیں رہ جائیں گے کہ انہیں کروڑوں کی تعداد میں ویکسی نیشن کی ڈوز زدرکار ہوں۔ تادم تحریر ہم خیراتی ویکسین پر گزارہ کر رہے ہیں ا ور ایک جہاز کروڑوں پاکستانیوں کے لئے دس لاکھ ڈوز لے کر پہنچنے والا ہے جو ہمارے ملک کی پہلی خریداری ہوگی۔ میں اپنے اس کالم کے ذریعے کمینے دوستوں کو دو باتیں بتانا چاہتا ہوں، پہلی یہ کہ آپ نے مرنے تک گھبرانا نہیں ہے اور دوسری اگرودا نہ ملنے سے مر گئے تو سکون صرف قبر میں ہی ہے۔