فیصلہ ہوگیا، 8فروری کو انتخابات ہوں گے۔ ان میں مسلم لیگ نون پنجاب اورقومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن کے سامنے آئے گی۔ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی ہوگی جس کے پاس ممکنہ طور پر سندھ بھی ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی سطح پرایم کیو ایم، جے یو آئی اور اے این پی کے ساتھ ساتھ آئی پی پی کے پاس بھی سیٹیں ہوں گی۔ ایک فارمولہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے پاس سادہ اکثریت ہو اور تمام حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر دو تہائی اکثریت۔ دوسرا فارمولہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کے پاس سادہ اکثریت سے کچھ کم نشستیں ہوں جیسا کہ عمران خان کے پاس تھیں لیکن ا س پر دوسری جماعتوں کا کچھ شئیر بڑھانا ہوگا تاکہ کسی وقت کوئی آئینی ترمیم کرنا پڑے تو وہ کی جا سکے۔
مجھ سے کسی نے پوچھا کہ وزیر اعظم کون ہوگا۔ میں نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس لاہور کا ڈومیسائل ہوگا۔ مزید واضح اور دوٹوک پوچھتے ہو تو وہ میاں محمد شریف مرحوم کا بیٹا ہوگا۔ اس کے نام کے شروع میں میاں کے ساتھ ساتھ محمد اور آخر میں شریف لگتا ہوگا۔ اس کے مرکزی نام کا اختتام اردوکے حرف ز، پر ہوتا ہوگا۔ وہ اس سے پہلے بھی پاکستان کا وزیراعظم اور پنجاب کا وزیر اعلیٰ رہ چکا ہوگا۔ وہ ملک میں تعمیر و ترقی اور اچھی گورننس کا نقیب سمجھا جا رہا ہوگا۔
مجھ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا پی ٹی آئی ایوان میں موجود نہیں ہوگی تو میرا جواب تھا کیوں نہیں ہوگی تاہم ابھی اس پر فیصلہ ہونا باقی ہے کہ بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان ہوگا یا نہیں ہوگا۔ خانصاحب کے وفادار کسی نہ کسی طریقے تین سے چار درجن کی تعداد میں قومی اسمبلی میں پہنچ سکتے ہیں (جیسے مشرف دور میں نواز لیگ والے پہنچے تھے) مگر معاملہ کچھ یوں ہوگا کہ کئی لوگ ایسے ہوں گے جنہیں جیتنے کے بعد احساس ہوگا کہ یہ وہ قافلہ نہیں جو ان کی خوابوں کی منزل کی طرف لے جا رہا ہو لہٰذا اگر وہ چار سے پانچ درجن بھی جیت گئے تو کئی جیتنے کے بعد پریس کانفرنس کر دیں گے اور مجھے گمان ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے جیتنے سے پہلے وعدہ کر رکھا ہوگا کہ وہ جیتنے کے بعد پریس کانفرنس کریں گے، سو وہ اپنا وعدہ نبھائیں گے۔
سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ کیا اس مرتبہ بھی انتخابات میں دھاندلی ہوگی تو میرا جواب تھا کہ اگر عمران خان کو وزیر اعظم بنواتے ہوئے انتخابات میں دھاندلی نہیں ہوئی تھی تو اس مرتبہ کیسے ہوگی مگر کچھ زمینی حقائق ہوتے ہیں یعنی آپ کے پاس الیکٹ ایبلز ہی نہ ہوں، آپ کے پاس وہ تنظیمی ڈھانچہ ہی نہ ہو جو کسی حلقے میں لوگوں کو جوڑ کے رکھ سکتا ہو، آپ کے پاس وہ لیڈر ہی نہ ہو جو جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے ماحول بنا سکتا ہو جسے ہم انتخابی مہم کہتے ہیں۔ میرا اپنا اندازہ ہے کہ انتخابی مہم، کسی بھی الیکشن کو بنانے اور بگاڑنے میں ایک چوتھائی کردارادا کرتی ہے۔ سوال کرنے والے نے پوچھا، یہ تین چوتھائی کردارکس کا ہوتا ہے۔
میں نے بیان کیا کہ انتخابی مہم کے ایک چوتھائی کے علاوہ ایک چوتھائی اس تاثر کا کہ کون جیت رہا ہے، کون اقتدار میں آ رہا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ انتخابی مہم بھی اسی کی بنتی ہے جس کے بارے میں گمان ہو کہ یہ جیت رہا ہے۔ ایک چوتھائی کردار خود امیدوار کا ہوتا ہے، اس کی دولت کا ہوتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ پارٹی کی بہت لہر ہوتی ہے مگر امیدوار ماٹھا ہوتا ہے۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ جب کسی کی ہوا چل رہی ہو تو اس کے کھمبے بھی جیت جاتے ہیں مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ الیکٹ ایبلز بہت اہم ہوتے ہیں۔ اگر الیکٹ ایبلز اہم نہ ہوتے تو بھلا دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں جوق در جوق الیکٹ ایبلز اٹھوائے جاتے، بنی گالہ پہنچائے جاتے۔
سننے والے سن رہے ہیں کہ آصف زرداری کہہ رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بننے دیں گے اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ سولہ ماہ میں حکومت کی کارکردگی بہت ماٹھی رہی ہے۔ یہ ہوتا ہے میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھو۔ یعنی آپ کے بیٹے وزیر خارجہ ہوں، آدھی وزارتیں آپ کے پا س ہوں تو آپ اقتدار کا میٹھا ہپ ہپ کریں مگر جب کابینہ کی مشترکہ ذمہ داری کا اصول آئے تو آپ تھو تھو کر دیں۔ ایسے تو نہیں ہوتا۔ میرا سننے والوں کو سنانا ہے کہ آصف زرداری کا وزیر اعظم بنوانے اور نہ بنوانے کے معاملے میں ایک ٹکے کا اختیار نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جن کے پاس اختیار ہے وہ اب بھی نواز شریف کے ساتھ کمفرٹ ایبل نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف زیادہ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ نبھا سکتے ہیں مگر شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کے نام پر اڑے ہوئے ہیں لہٰذا ابھی تک معاملہ ففٹی ففٹی ہے مگر طے شدہ یہی ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد شریف مرحوم کا ہی کوئی بیٹا ہوگا، اب یہ بڑا ہوگا یا چھوٹا، اس کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔
مجھے کہنے دیجئے کہ اگر مسلم لیگ نون نواز شریف کے نام پر ڈٹ گئی تو سیاسی ستارے بتاتے ہیں کہ اس پارٹی کے پاس قومی اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کے لئے پوری نشستیں نہیں ہوں گی مگر حلیفوں کے ساتھ مل کر آسانی سے حکومت بنا لے گی لیکن اگر شہباز شریف کا نام فائنل ہوگیا (چاہے ضدو ضدی اور اندر کھاتے ہی سہی) تو پھر مسلم لیگ نون کے پاس سادہ اکثریت موجود ہوگی اور دو تہائی اکثریت حلیفوں کے ذریعے ممکن ہوگی لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ہوں یا شہبا زشریف، اس مرتبہ معیشت کا پہیہ چلے گا۔ جی ڈی پی گروتھ میں اضافہ ہوگا۔ سٹاک ایکسچینج جو پہلے ہی اوپر جا رہی ہے مزید اوپر جائے گی۔ مہنگائی کی شرح میں کمی ہوگی۔ روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ اگر نواز شریف گوجرانوالہ کے جلسے میں نام لینے کے بعد اور آصف زرداری اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا بیان دینے کے واپس آ سکتے ہیں تو پھر کپتان کی واپسی کے بارے منفی رائے کیوں ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگر آپ یہ بات نو مئی سے پہلے کرتے تو میں آپ کے ساتھ امکان میں چلا جاتا ہے کہ واپسی ہوسکتی ہے لیکن نومئی کے واقعات کے بعد کم از کم ان انتخابات میں تو واپسی بارے سوچیں بھی مت، یہاں دو فریقوں میں سے کسی ایک نے ہی باقی رہنا ہے، باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔ دوسرے لاڈلا بننے میں بہت وقت لگتا ہے، اس کے لئے بہت سارے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن راندہ درگاہ ہونے کے ہونے کے لئے ایک انکار ہی کافی ہے۔ صوبے دار کا گدھا ہر کسی کو لات مارتا پھرے، قبول ہے، اگر وہ بم کو لات مار دے تو قصور کس کا ہے؟