یہ لگ بھگ دس برس پرانی بات ہے جب لاہور کے فلیٹیز ہوٹل میں خطاب کرتے ہوئے مجھے بلوچستان کے ایک بیٹے نے متاثر کیا۔ وہ حیرت انگیز طور پر بلوچستان کی پسماندگی کے لئے پنجاب کو مطعون نہیں کر رہے تھے ورنہ میں نے آج تک چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی اکثریت کو پنجاب کے خلاف ہی بولتے دیکھا ہے۔
ان کی تقریر میں دواہم ترین قومی ضروریات کے گرد گھوم تھی، قومی یکجہتی کا احیا اور بلوچستان کی ترقی، وہ اپنے صوبے میں تعمیر و ترقی اور میگا پراجیکٹس کے وکیل تھے۔ میں ان دنوں روزنامہ پاکستان، کے صفحہ دو پر کالم لکھا کرتا تھا۔ ان کی باتیں یوں دل کو چھو رہی تھیں کہ میں نے اگلے روز اس پر ایک طویل کالم لکھا۔ اس کالم کے جواب میں مجھے انہوں نے فون کال کی اور ہم نے پنجاب، بلوچستان تعلقات پر بہت ساری باتیں کیں، میرا نمبر انہوں نے غالباً محترم مجیب الرحمان شامی سے لیا تھا۔
مجھے وہ لوگ ہمیشہ پسند آتے ہیں جو رجائیت پسند ہوتے ہیں۔ اپنے وطن اور ہم وطنوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے روئیوں میں انتہا پسند نہیں ہوتے۔ گذشتہ روز جب شہباز شریف اور راجہ ریاض میں وزیراعظم کے نام پر اتفاق ہوا تو مجھے علم ہوا کہ اس شخصیت کے استعمال میں آج بھی وہی فون نمبر ہے جس نمبر پر کبھی بحث و مباحثہ ہوتا تھا، جی ہاں، میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی بات کر رہا ہوں جو ملکی تاریخ کے اہم ترین موڑ پربلوچستان جیسے کم ترقی یافتہ اور پسماندہ صوبے سے طاقتور ترین نگران وزیراعظم کے طورپر منتخب کر لئے گئے ہیں۔
میں نے دیکھا، سوشل میڈیا پر بہت سارے لوگ ہیں جو انوارالحق کاکڑ کی ذات میں خامیاں تلاش کر رہے ہیں، مان لیجئے، آپ نگران وزیراعظم کے طور پر اپنے وقت کے ولی اللہ کو بھی لے آتے تو کچھ لوگوں نے اسے کافر قرار دے دینا تھا سو فیصلے اس روگ سے بالاتر ہو کے کرنے چاہئیں کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یہ دلچسپ ہے کہ پی ٹی آئی میں واپس جانے کے لئے بے قرار سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے شہباز شریف اور راجا ریاض کی چوائس کوسچا پاکستانی، اور انتہائی پڑھا لکھا معتدل شخص قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے لئے کوئی اچھی خبر آئی ہے۔
اسی طرح پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار نے ان کی تقرری کو خوش آمدید کہا ہے۔ ارسلان بیٹا اسے غداری سے جوڑ دو، والے ارسلان خالد بھی اسے گڈ چوائس، کہتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات جمعے کی سہ پہر سے ہی کہی جا رہی تھی کہ شہباز شریف، نگران وزیراعظم کے چناو پر، سرپرائز دے سکتے ہیں۔ حکومتی اتحاد کی یہ بڑی کامیابی رہی کہ اس نے نگران وزیراعظم کا نام آخر تک چھپائے رکھا ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ ابھی نام آئے اور ابھی اس پر اتفاق ہوجائے۔
مسلم لیگ نون کی طرف سے سب سے پہلے اسحق ڈار کا نام مارکیٹ میں دیا گیا اور ردعمل چیک کیا گیا مگر جب حفیظ شیخ کا نام سامنے آیا تو بہت ساروں کا خیال تھا کہ اس سے طاقتور نام نہیں ہوسکتا کیونکہ اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا، اگلی قسط کی وصولی اور اگلی حکومت کے لئے ایک نئے طویل المدتی معاہدے کی راہ ہموار کرنا ہے لیکن جب جلیل عباس جیلانی کا نام آیا تو حفیظ شیخ پیچھے رہ گئے۔ ان کی امریکا میں پرویز مشرف دور میں تعیناتی سمیت اہم ترین وزرائے اعظموں کے ساتھ کرنے کو ہائی لائیٹ کیا گیا۔ سب سے آخر میں صادق سنجرانی کا نام مارکیٹ میں لانچ ہوا۔
صادق سنجرانی کے بارے بھی رائے یہی تھی کہ وہ اگر اچانک نمودار ہو کے، سینیٹ میں اکثریتی ووٹوں کو شکست دیتے ہوئے، چئیرمین سنیٹ منتخب ہوسکتے ہیں تو اس باصلاحیت، شخص کا راستہ کیسے روکا جا سکتا ہے مگرسوال یہ اٹھا کہ اگر صدر علوی نے مدت پوری ہونے پر عہدہ چھوڑ دیا تواگلے صدر کے انتخاب تک، جویقینی طور پر نئی اسمبلیوں کے چناو کے بعد ہی ہوگا اور نئی مردم شماری کی شرط عائد ہونے کے بعد اس میں تین، چار ماہ کی تاخیر تو یقینی کہی جا رہی ہے، عبوری صدر کون ہوگا۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے صدر عارف علوی کو مدت پوری ہونے کے باوجود اگلے صدر کے انتخاب تک ایوان صدر میں رہنے کی راہ دکھانے کی وجہ ہی صادق سنجرانی کے نام پر سنجیدگی سے غور تھا، سمجھا جا رہا تھا کہ اگر اس دوران صدر علوی نے ایوان صدر چھوڑ دیا تو ایک نیا آئینی بحران پیدا ہوجائے گا۔
واقفان حال جانتے ہیں کہ سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کے درمیان ایک بحث یہ تھی کہ نگران وزیراعظم سیاسی ہوگا یا غیرسیاسی اور دوسری بحث یہ کہ نگران حکومت کی مدت کیا ہوگی، تین سے چھ ماہ یا نو ماہ سے ایک سال۔ سیاسی حلقے حامی تھے کہ نگران وزیراعظم ایک سیاستدان ہونا چاہیے
کیونکہ ایک سیاستدان کسی ریٹائرڈ جج یا بیوروکریٹ سے مختلف انداز میں سوچتاہے۔ وہ زیادہ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ دوسرے سیاسی حلقوں کا مطالبہ تھا (یا ہے) کہ نگران حکومت کی مدت تین سے چھ ماہ کے درمیان ہی رہنی چاہئے اور وہ اس کی دلیل دیتے ہیں کہ ایک منتخب حکومت پانچ برس کے لئے آ کے معاشی خوشحالی کے لئے زیادہ بہتر اورموثر اقدامات کرسکتی ہے۔ جیسا میں نے اپنے کالم کے آغازمیں کہا کہ انوار الحق کاکڑ روایتی نہیں بلکہ آوٹ آف دی باکس سوچنے والی شخصیت ہیں۔ وہ نہ تو بالکل نوجوان ہیں کہ مہم جوئی کریں اور نہ ہی ایسے بوڑھے ہیں کہ جامد، اٹل اور اکھڑ ہوں، وہ منصف مزاج ہیں، وہ جدت کے خوگر ہیں، وہ مفاہمت پسند ہیں۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان کی خوشحالی میں اب بلوچستان نے اہم ترین کردارادا کرنا ہے۔
یہ بات کہی جا چکی کہ ریکوڈک سے تانبے کے ذخائر نکلنے کے بعد پاکستان دنیا بھر میں ایسی معدنیات نکالنے والا پہلا ملک بن جائے گا اور اس کے لئے پاک فوج نے زراعت اور آئی ٹی کے ساتھ ساتھ کان کنی میں بھی فعال کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ا س تناظر میں انوار الحق کاکڑ اپنے چھ ماہ سے ایک برس تک کے ممکنہ دور میں بلوچستان اور پاکستان کی ترقی کے نقیب ہوسکتے ہیں۔ وہ اس وقت وزیراعظم بن رہے ہیں جب گذشتہ دور میں قتل کر دئیے جانے والے سی پیک کے دوسرے مرحلے کا اس طرح آغاز ہو رہا ہے اس میں انڈیا، ترکی، ایران اور سعودی عرب تک کو شامل ہونے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کی گاڑی چار سے پانچ برس کے بعد ایک مرتبہ پھر پہلے سے تیسرے اور پھر چوتھے گئیر میں جانے والی ہے۔
شہبازشریف ایوان وزیراعظم نے ایوان وزیراعظم سے رخصت ہوتے ہوئے خود کو اسٹیبلشمنٹ کی تیس برس سے چوائس ہونے پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ حکومت اور فوج مل کر جس انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں اس میں شہباز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ بھی واپس لوٹ سکتے ہیں، جی ہاں، وہی دو تہائی اکثریت جو عمران خان کے لئے سوچی جا رہی تھی تاکہ ان کے لئے صدارتی نظام لایا جا سکے۔