Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Agencian Ghalat Pakarti Hain?

Agencian Ghalat Pakarti Hain?

یہ پروپیگنڈہ بہت زیادہ ہے کہ ملکی سلامتی کی ذمہ دار ایجنسیاں ایسے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو اٹھا لیتی ہیں، غائب کر دیتی ہیں جو ملک دشمن تو ایک طرف سیاسی سرگرمیوں تک میں ملوث نہیں ہوتے۔ میں اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ ایجنسیاں کارروائی کرتی ہیں، لوگوں کو حراست میں بھی لیا جاتا ہے مگر کیا وہ معصوم اور بے گناہ بھی ہوتے ہیں اس پر میں ضرور بحث کرنا چاہتا ہوں اور محض مشاہدات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر نہ صرف یہ کالم لکھ رہا ہوں بلکہ بطور عامل صحافی اس کی صداقت کی پوری ذمے داری بھی لیتا ہوں، مقصد صرف یہ ہے کہ ملکی سلامتی کی ذمے دار ایجنسیوں کے بارے میں جھوٹ کا پردہ چاک کیا جا سکے۔

میں اپنے تجربات سے پہلے نو مئی کے واقعات پر جاؤں گا جن کے بارے پی ٹی آئی شور مچا رہی ہے کہ بے گناہوں کو پکڑ لیا گیا ہے اور ان لوگوں کو بھی جو وہاں سے محض گزر رہے تھے۔ اس شور وغوغا نے ہی مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ میرا سوال ہے پی ٹی آئی سے وابستہ ہزاروں لوگ ہیں، وہ سب کیوں نہیں گرفتار کئے گئے اور محض ایک سو سے کچھ زیادہ لوگوں کے کیسز ہی فوجی عدالتوں کو کیوں بھیجے گئے۔ جواب صاف اور واضح ہے کہ انہی کے خلاف کارروائی ہوئی جن کے خلاف جیو فینسنگ میں ناقابل تردید ثبوت ملے۔ میرے سامنے پی ٹی آئی کے سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ موجود ہیں جو عمران خان کا دم بھرتے تھے مگر وہ گرفتار نہیں ہیں۔

میں پی ٹی آئی کے خوبصورت آدمی سردار عظیم اللہ ایڈووکیٹ سے پوچھا، آپ کی سینکڑوں فون کالزجیو فینسنگ میں ٹریس ہوئیں اور لوکیشن زمان پارک بھی۔ آپ کو اے ٹی اے نے پکڑا بھی مگرپھر چھوڑ بھی دیا کیونکہ آپ کے خلاف کوئی ایسا براہ راست ثبوت نہیں ملا جس میں آپ کور کمانڈر ہاؤس کے جلاو ئگھیراؤ میں ملوث ہوتے۔ سردار عظیم اللہ وہ رہنما ہیں جنہوں نے ابھی حال ہی میں پی ٹی آئی کے لبرٹی میں جلسے کے لئے درخواست دی تھی مگر وہ انتظامیہ کی طرف سے مسترد کر دی گئی۔ سردار صاحب نے دلیل دی کہ وہ اس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں کہ انہیں چھوڑنا پڑا مگر میرا جواب تھا کہ اگر اس کمیونٹی کا دباؤ ہوتا تو آپ پکڑے ہی نہ جاتے۔

بہرحال، سازشی تھیوریاں مارکیٹ میں تیزی سے بکتی ہیں۔ سچ ابھی تسمے باند ھ رہا ہوتا ہے اور جھوٹ آدھی دنیا کا سفر طے کر چکا ہوتا ہے۔ ایجنسیوں کے نام کے تڑکے کے ساتھ آپ کوئی بھی سودا بیچ سکتے ہیں، کوئی بھی الزام لگا سکتے ہیں کہ کون سا کسی نے تصدیق یا تردید کرنی ہے۔ چلیں، اپنے تجربات کی طرف آتا ہوں، پرویز مشرف کے دور میں وہ لوگ نشانہ تھے جن کے تعلقات انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ تھے بالخصوص القاعدہ کے ساتھ۔ کسی پر شک بھی ہوتا تھا کہ اس کا تعلق طالبان کے ساتھ ہے تواس پر کارروائی ہوجاتی تھی۔

میں نے دنیا کے سب سے مطلوب شخص اسامہ بن لادن کے ساتھ افغانستان میں ملاقات کی تھی اور وہاں پر ایمن الظواہری کے ساتھ بہت سارے دیگر القاعدہ کے بہت سارے دیگر رہنمابھی موجود تھے۔ میری ملاقات رحیم اللہ یوسف زئی، سعود ساحر اور رؤف طاہر جیسے معتبر صحافیوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ میں نے وطن واپسی پر روزنامہ دن میں، جس کا میں اس وقت چیف رپورٹر بھی تھا، ایک کلر ایڈیشن بھی شائع کیا تھا جس میں میری اسامہ بن لادن کے ساتھ تصویر تھی، وہی مشہور زمانہ تصویر جس میں انہوں نے گود میں کلاشنکوف رکھی ہوئی ہے اور پیچھے سیاہ کپڑے پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔

نائن الیون کے بعد جب کابل پر اتحادی افواج نے قبضہ کیا تو اس ملاقات کی ویڈیو ٹیپ سی این این کو مل گئے جسے انہوں نے روٹس آف ہیٹرڈ، کے نام سے اپنی طویل ڈاکومنٹری میں چلایا تھا۔ میں ملاقات کرنے والوں میں سب سے کم عمر تھا اور سب سے پرجوش۔ ویڈیو میں سب سے زیادہ میرے ہی سوالات اور ان کے جوابات شامل تھے مگر کیا آپ یقین کریں گے کہ پرویز مشرف کا پورا دور گزرا اور پھر آصف زرداری کا بھی۔ مجھے کسی ایجنسی نے اٹھانا تو درکنار سوال و جواب تک نہیں کئے۔ سب حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ چھوٹے چھوٹے مقامی رہنماؤں سے تعلق پر لوگ گرفتار ہو رہے ہیں مگر تمہیں کسی نے پوچھا تک نہیں، میں نے ہمیشہ جواب دیا کہ سب کو علم ہے کہ یہ دہشت گرد نہیں ہے، یہ ایک صحافی ہے۔

میری زندگی کا دوسرا اہم واقعہ بطور ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز پاکستان ریلویز تقریبا ًدو برس کام کرنے کا ہے۔ میں نے اس روز اپنی ذمے داریوں سے استعفیٰ دے دیا جس روز شیخ رشید احمد نے بطور وزیر ریلویز اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ عمران خان کا یہ دور بدترین انتقامی کارروائیوں کاتھا۔ مجھے علم ہے کہ شیخ صاحب نے ڈائریکٹوریٹ آف پبلک ریلیشنز پاکستان ریلویز کادو مرتبہ سپیشل آڈٹ کروایا اور چیک کروایا کہ کس جگہ کرپشن کے الزام میں کس کو پکڑا جا سکتا ہے۔ پاکستان ریلویز ہر برس کروڑوں کے اشتہارات (زیادہ تر ٹینڈرز) اخبارات کو اسی ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے جاری کرتی ہے۔

دلچسپ یہ رہا کہ نیب تک سے فون آیا کہ خواجہ سعد رفیق کی دور کی کارکردگی پر مختلف شہروں میں جو بڑے بڑے بل بورڈز لگائے گئے، وضاحت کریں کہ اس کی کروڑوں روپے کہاں سے آئے۔ میرا سٹاف میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میں نے تنخواہ کے چیک کے سوا وہاں سے ایک روپیہ تک نہیں لیا حالانکہ مجھے آفر تھی کہ بعض دو نمبر اخبارات کو اشتہارات جاری کروں اور پیمنٹ میں سے آدھی رقم میری ہوگی۔

میں اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کچھ بھی ایسا نہ ملا کہ مجھے سے سوال تک پوچھا جا سکتا۔ بل بورڈز بارے ڈائریکٹوریٹ نے ہی بتا دیا کہ یہ ریلوے کی اپنی زمینوں پر لگے اور جتنی سکن بنیں وہ ریلوے کی کمپنیوں نے سپانسر کیں جس کی وہ مجاز تھیں اور ان کا خرچ بھی دو، چار لاکھ روپے ہی تھا۔ سو میرے خلاف نہ کوئی انکوائری تھی، نہ مقدمہ تھا اور نہ ہی کوئی ایجنسی میرے پیچھے تھی۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ایجنسیوں اور اداروں سے غلطی نہیں ہوتی کہ میرے سامنے سانحہ ساہیوال بھی موجود ہے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ نوے سے ننانوے فیصد تک واقعات میں واقعی آپ نے کچھ ایسا کیا ہوتا ہے کہ آپ کے پیچھے پولیس لگتی ہے۔ بڑے سیاسی رہنماؤں پر درج انتقامی مقدمات سے ہٹ کریہ ضرور ہوتا ہے کہ آپ نے چونی کا ہیر پھیر کیا ہوتا ہے اور آپ پر روپے کا الزام لگا دیا جاتاہے۔

دوسرے جب ہمارے سامنے یہ اعداد و شمار آتے ہیں کہ صرف بلوچستان کی علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیموں نے ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر رکھا ہے تو ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو آئینی، انسانی، بنیادی حقوق کا شور مچایا جاتاہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا یہ حقوق صرف مارنے والوں کے ہوتے ہیں، مرنے والوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے جن کا کوئی ریاست تحفظ کر ے؟