Friday, 27 December 2024
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Ahsan Bhoon Jawab Dein

    Ahsan Bhoon Jawab Dein

    بہت سارے لوگوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ اسٹیبشلمنٹ، نگران اور مسلم لیگ (ن) مل کر انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں۔ اول الذکرکے لئے یہ توجیہہ پیش کی جاتی ہے کہ وہ ملک میں معیشت کی بہتری کے لئے ایسا سیٹ اپ چاہتی ہے جو سیاسی نہ ہو، اس کے اشاروں پر چلے اور وسائل کا سیاسی کی بجائے قومی مفاد میں استعمال کرے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ جو سیاسی سیٹ اپ آئے گا وہ بہرحال اپنی کچھ ترجیحات رکھے گا جو مشکلات پیدا کریں گی لہٰذا ایک طویل عرصے کے لئے ایسا سیٹ اپ ہونا چاہیے جو انوار الحق کاکڑ اور محسن نقوی کے ذریعے چل رہا ہو۔

    نگرانوں بارے تو کچھ واضح کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ اگر ان کے اقتدار کا وقت ایک یا دو سال ہوجائے تو انہیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے اور مسلم لیگ (ن) کے بارے پروپیگنڈہ یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک سے خوفزدہ ہے، وہ مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی جس حد تک کٹ ٹو سائز، ہوسکتی ہے، ہو جائے، اس کے بعد انتخابات دیکھے جائیں گے مگر اس پورے بیانیئے میں اس وقت ایک بڑا ٹرن آیا جب پی ٹی آئی کے عمیر نیازی کی ایک رٹ درخواست پر الیکشن شیڈول سے صرف ایک روز پہلے، انتظامیہ سے لئے گئے ریٹرننگ افسران پر تحفظات پر، لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب نے پورے انتخابی عمل کو ہی روک دیا۔

    یہ بات درست ہے کہ اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ فوری نوٹس نہ لیتے تو انتخابات میں تاخیر یقینی تھی۔ مجھے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف وکیل رہنما نے کہا کہ اس وقت انتخابات میں تاخیر ہمارے مفاد میں ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ نگران جس قسم کے انتخابات کروانے جا رہے ہیں ان سے بہتر ہے کہ انتخابات ہی نہ ہوں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بہت سارے اخبارات سے سرخی لگائی کہ انتخابات کے التواء کا آخری دروازہ بھی بند ہوگیا جبکہ "نئی بات" کی شہ سرخی تھی کہ ایک اور دروازہ بند ہوا ہے جو کہ آخری ہرگز نہیں تھا۔

    منگل کاروز الیکشن اور الیکشن کمیشن کے حوالے سے ہنگامہ خیز تھا۔ پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے بعد پنجاب اور سندھ کی باروں کی طرف سے بھی ایک کے بعد ایک پریس ریلیز جاری ہو رہی تھی جس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے تھے۔ ان میں کم و بیش وہی باتیں تھیں جو اس سے پہلے پی ٹی آئی ان کے بارے کرتی رہی ہے۔

    ایک عام آدمی کی طرح کچھ صحافی بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے پیچھے وہ وکیل ہیں جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے بلکہ جو اس وقت پی ٹی آئی کو چلا رہے ہیں مگر میرے لئے لاہور بار کے صدر رانا انتظار کا یہ انکشاف حیرت انگیز تھا کہ وہ تمام چاروں بار جو حلقہ بندیوں پر تحفظات ظاہر کر رہی تھیں، اپنی پریس ریلیزوں میں جہلم اور حافظ آباد کی آبادی اور سیٹوں کا موازنہ پیش کر رہی تھیں، کہہ رہی تھیں کہ موجودہ الیکشن کمیشن کے تحت صاف اور شفاف انتخابات ہو ہی نہیں سکتے، سکندر سلطان راجا سے استعفے کا مطالبہ کر رہی تھیں، ان تمام میں وہ گروپ جیتا ہوا تھا جس کا تعلق حامد خان کے پروفیشنل گروپ سے نہیں بلکہ اس مخالف گروپ سے تھا جس کی حمایت نواز لیگ نے کی تھی۔

    یہ ایک حیرت انگیز بات تھی کہ نواز لیگ کے حمایت یافتہ گروپ بغیر کوئی اجلاس منعقد کئے صرف پریس ریلیزوں کے ذریعے پورے انتخابی عمل پر خود کش حملے کر رہے تھے اور دوسری حیرت انگیز بات یہ تھی کہ حافظ آباد کا ذکر ہو رہا تھا۔ حافظ آباد، مسلم لیگ (ن) کے قانونی بازو کے سربراہ اعظم نذیر تارڑ، پرجوش رہنما عطا اللہ تارڑ کے ساتھ ساتھ طاقتور ترین وکیل رہنما احسن بھُون کا ضلع ہے۔ میرے سامنے سوال یہ تھا کہ حافظ آباد کاہی ذکر کیوں۔

    رانا انتظار، وکلاء سیاست کے باعث کسی کا بھی نام لینے کے لئے تیار نہیں تھے اور دوسرے دھڑے کے رہنما فرہاد علی شاہ اس پورے معاملے سے ہی لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے، میرے خیال میں ان کا اپنے دھڑے کا ساتھ دیتے ہوئے یہی موقف بنتا تھا مگر بہرحال کئی بتانے والے موجود تھے اور وہ بتا رہے تھے کہ جناب احسن بھون، الیکشن کمیشن آف پاکستان سے اپنے ضلعے کے لئے قومی اسمبلی کی ایک اضافی سیٹ پیدا کروانا چاہتے تھے تاکہ وہ وہاں سے قومی انتخابی سیاست میں آسکیں۔

    کہنے والے تو کہتے ہیں کہ احسن بھون مستقبل قریب میں اعظم نذیر تارڑ کی جگہ پر آنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے انہوں نے مشکل وقت میں میاں نواز شریف کا ساتھ بھی بہت دیا ہے۔ میں نے اپنی ٹیم سے کہا کہ وہ جناب احسن بھون سے رابطہ کرے اور ان سے درخواست کی جائے کہ وہ میرے پروگرام میں اپنا موقف دے دیں۔ یہ بطور صحافی میری ذمہ داری تھی کہ اگر میں سوا ل اٹھاتا ہوں تو اس کا جواب بھی لوں۔ میری نظر میں ان کا موقف اہم تھا مگر انہوں نے اسے اہم نہیں سمجھا، یہ ان کی مرضی تھی۔

    میں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری راجا ذوالقرنین سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر کوئی یہ بات کر رہا ہے نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں 180 ایچ ماڈل ٹاون میں جا کر وہاں کی رونقیں دیکھوں کہ رش کا کیا عالم ہے۔ لوگ کس طرح مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ لینے کے لئے پاگل ہو رہے ہیں کیونکہ یہ ٹکٹ کامیابی کی ضمانت ہے لہٰذا مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلزپارٹی ہو یا جے یو آئی (ف) ان میں سے کوئی بھی جماعت انتخابات کا التواء نہیں چاہتی۔ بھلا جس کو نظر آ رہا ہو کہ وہ جیت رہا ہے وہ انتخابات کا التواء کیوں چاہے گا۔

    میں نے پی ٹی آئی کے سردار عظیم اللہ سے بھی پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو ڈیڑھ برس سے انتخابات کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم پر انتخابات میں تاخیر کے لئے سازش کا الزام کیسے لگا یا جا سکتا ہے۔ انہوں نے عمیر نیازی کی رٹ درخواست پر بھی وضاحت کی کہ وہ انتخابات کے التواء کے لئے ہرگز نہ تھی بلکہ صرف اس لئے تھی ریٹرننگ افسران اس انتظامیہ سے نہ لئے جائیں جو نگرانوں کے زیراثر ہے اور ان کے مطابق نگران مکمل طور پر جانبدار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ سے لئے ہوئے آر اوز زیادہ شفاف انتخابا ت کروا سکتے ہیں۔

    اب یہاں صورتحال عجیب وغریب بنتی ہے اور سوال ابھرتا ہے کہ پاکستان بار، سپریم کورٹ بار، پنجاب بار اور سندھ بار، چاروں کی چاروں، جو اچانک ہی الیکشن کمشنر کے خلاف متحرک ہوئیں وہ سب کی سب ایک خاص گروپ سے تعلق رکھتی تھیں۔ ا نہوں نے یکے بعد دیگرے پریس ریلیزیں جاری کیں۔ افسوس کامقام یہ ہے کہ اس پر اجلاس بھی نہیں ہوئے اور یہ محض ایک، دو عہدیداروں کی رائے تھی۔ کیا یہ سمجھاجائے کہ قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ پیدا کروانے کے لئے پورے انتخابی عمل کو متنازعہ بنایا گیا، انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات پیدا کئے گئے؟ واقعی؟