ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب سیلاب کہانی، میرے سامنے کھلی پڑی ہے۔ یہ پچھلے برس آنے والے سیلاب کے بارے ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کرداراور گفتار دونوں کے غازی ہیں یعنی غریب لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے بلاسود قرضوں کا ایک ایسا نظام وضع کردیا کہ جسے نہ صرف عالمی سطح پر کام کرنے والے ادارے سراہ رہے ہیں بلکہ نوبل پرائز تک کے لئے نامزدگی ملی۔ اگر آپ کو نوبل انعام مل جاتا تو کہا جا سکتا تھا کہ آپ پاکستان سے اس انعام کو لینے والی پہلی غیر متنازع شخصیت ہوتے۔ اگر کسی نے ڈاکٹر صاحب کو خطاب کرتے ہوئے سنا ہو تو بتائے گا کہ ایک ایک لفظ سے خلوص کیسے نچڑتا ہے۔
مجھے سیلاب کہانی، ڈاکٹر صاحب کی محبتوں کے ساتھ موصول ہوئی ہے اوراس کتاب میں جہاں سیلاب سے متاثر ہونے والوں اور ان کی مد د کرنے والوں کی کہانیاں ہیں وہاں ایک سیلاب جیسی آفت کامقابلہ کرنے کے لئے ایک مکمل ایکشن پلان بھی موجود ہے مگر میں اس کتاب کو پڑھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ کیا ہمارے حکمرانوں کے پاس ان باتوں پر غور اور عمل کرنے کے لئے وقت موجود ہے۔
جب بھی سیلاب آتا ہے شہباز شریف ہر مصروفیت تیاگ دیتے ہیں۔ شہرشہر اور قصبے قصبے جاتے ہیں۔ اجڑے ہوئے لوگوں کی مالی امداد کو یقینی بناتے ہیں۔ ان کے آنسو پونچھتے، ان کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔ مجھے آج سے دس برس پہلے کا ایک سفر یاد آ گیا جو میں سیلاب آنے پر ہی شہباز شریف کے ساتھ کیا تھا۔ ہم مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے وزیر آباد پہنچے تھے جہاں وزیراعظم نواز شریف بھی آئے تھے اور سیلاب کے نقصانات کو روکنے کے لئے ایک بڑی پالیسی کا اعلان ہوا تھا مگر یہی دور لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کے خاتمے کا بھی تھا، انفراسٹرکچر کی تعمیر بھی ہونی تھی سو سیلاب کے بعد توجہ دوسری طرف ہوگئی۔
گذشتہ برس پھر سیلاب آ گیا اور لوگوں کے گھر، فصلیں، ڈھور ڈنگر بہا کے لے گیا۔ آپ اگر سیلاب کہانی پڑھیں گے تو آپ کو اس کے ایک ایک لفظ میں سیلاب زدگان کے لئے کچھ کردینے کا جنون ملے گا، ہی جنون جو ہمیں بے روزگاروں کے لئے ملتا ہے کہ وہ اپنے پاوں پر کھڑے ہوجائیں، جو طالب علموں کے لئے ملتا ہے کہ وہ پاکستان کے لئے اثاثہ بن جائیں، جو خواجہ سراؤں کے لئے ملتا ہے کہ وہ معاشرے کے کار آمد اور باعزت شہری بن جائیں۔
ڈاکٹر فاروق عادل محض ایک صحافی نہیں ہیں، وہ درد دل رکھنے، محبت کرنے والے بہت ملنسار، نیک اور ایماندار انسان ہیں۔ آپ کہیں گے کہ صحافی ہونا کیوں زیادہ اہم نہیں تو جواب ہے کہ کسی کا کوئی بہت بڑا جج، جرنیل، بیوروکریٹ اور صنعتکار ہونا بھی اہم نہیں اگر وہ اچھا انسان نہیں۔
میری ان سے برسوں پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ ایوان صدر کے ترجمان تھے اور میں جناب رؤف طاہر مرحوم کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر گیا تھا۔ فاروق عادل ان شخصیات میں سے ہیں جن کی فالوئنگ، دیر سے ہونے پر مجھے دلی دکھ ہوتا ہے کہ کتنے برس ان کی خوبصورت اور باکمال دوستی کے بغیر گزر گئے گویا ضائع ہو گئے۔ فاروق بھائی لاہور تشریف لائے اور ان سے اردو ڈائجسٹ کے دفتر میں ملاقات بھی طے ہوئی مگر اس روز ہونے والی موسلادھار بارش نے جہاں کوئی تیس چالیس برس کا ریکارڈ توڑا وہاں اس ملاقات کو بھی ملتوی کروا دیا۔
تاہم یہ خسارہ کچھ معمولی کم ہوا کہ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی طرف سے ان کی بہت ہی خوبصورت سرورق کے ساتھ تاریخِ پاکستان کے گمشدہ اوراق پر مبنی ان کی تصنیف ہم نے جو بھلا دیا، مل گئی۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی وہ تحاریر ہیں جو وطن عزیز کی تاریخ کا چہرہ دھوتی ہیں۔ فاروق عادل کی بطور صحافی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نظریہ بھی رکھتے ہیں اور غیر جانبدار بھی ہیں۔ ایک عامل اورلکھاری صحافی ہی جان سکتا ہے کہ ان دونوں میں توازن رکھنا کتنا بڑا مشکل کام ہے۔ ہماری لکھی ہوئی ہر تاریخ میں حق وہی ہے جو ہمارے حق میں ہے۔
ڈاکٹرفاروق عادل نے بہت کچھ بھولا ہوا یاد دلایا، تاریخ کے کئی اسراروں پر سے پردے اٹھائے اور کئی رازوں پر پڑی دھول صاف کی ہے۔ میں کتاب کے موضوعات میں اس لئے نہیں جانا چاہتا کہ پھرکچھ اور نہیں لکھا جا سکے گا۔ بی بی سی کے لئے لکھی ہوئی ان کی تاریخی اور تحقیقی تحاریر میں اپنے وطن سے عشق کرنے والے ہر طالب علم کے لئے کئی سحر موجودد ہیں، د و کا میں ذکر کر دیتا ہوں، ایک ہے سچ کا سحر اور دوسرا ان کی بے ساختہ تحریر کا سحر۔ اگر آپ کا اسلام، پاکستان اور تاریخ سے تھوڑا سا بھی جذباتی تعلق ہے تو یہ کتاب آپ ہی کے لئے ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں قلم فاؤنڈیشن کی طرف سے بریگیڈئیر ریٹائرڈ صولت مرزا کی خود نوشت پیچ و تاب زندگی، کو بھی قیمتی تحفہ سمجھتا ہوں اور اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
حسین مجروح ادب کا استعارہ ہیں بے ادبی کے اس دور میں۔ اس فقرے کو سیدھا لکھنا تھا مگر مجھے توہین محسوس ہوئی کہ ان کے ساتھ بے ادبی کا لفظ بغیر کسی رکاوٹ اور فاصلے کے لکھوں۔ ان کی ذاتی تخلیقات کے ساتھ ساتھ طلوع افکار سے ادب لطیف تک اور اب سائباں کی ادارت اپنی جگہ ادب کی ایک تاریخ ہے جس پر مقالے ہوسکتے ہیں۔ ان کی طرف سے سائباں، کا تازہ شمارہ موصول ہوا۔ انہوں نے اپنے اداریے میں ہی تخلیقی دانش کے بانجھ پن کو اپنا موضوع بنایا ہے اوراصل دکھ تو یہ ہے کہ ادب صرف معاشرے سے ہی رخصت نہیں ہوا بلکہ اہل ادب سے بھی ناراض ہوگیا ہے۔ ادیبوں اور شاعروں میں معاصرانہ کشمکش ہمیشہ سے رہی ہے مگر جس طرح ایک دوسرے کی پتلونیں وہ آج اتارتے ہیں، وہ باعث شرم ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے شاعر اور ادیب ادب سے اس طرح عاری ہو گئے تو ہم اپنے گلی محلے کے نوجوانوں سے کیا توقعات رکھیں۔ حسین مجروح اپنے دور کے خسارے اور گھاٹے سے بخوبی واقف ہیں، کہتے ہیں، کیا ادارے کیا گروہی کوچہ گرد، یوں دست و گریباں ہیں کہ اختلاف وعناد کی درمیان لکیر ہی کالعدم ہوچلی۔ بس ایک بے سمت غبار ہے جو دیدہ و دل میں مرچیں بھرے دیتا ہے اورمصر ہے وہ ناگزیر ہی نہیں تریاق صفت بھی ہے۔۔
لیکن صاحبو! اس زوال آفرینی کا کیا کیا جائے کہ اہل و فکر ونظر کی غالب اکثریت (جن میں ہم عصر ادیب بھی حسب توفیق و عصبیت پیش پیش ہیں) سیاسی فرقہ پرستوں کا روپ دھار چکے اور اپنی من پسند جماعت وہ قیادت کا پھریرا بہر قیمت لہرانے کے مدعی نیز اپنے مخالف گروہ اور اس کے فدائین میں بصد حیلہ کیڑے نکالنے بلکہ (ان کا بس چلے تو) تہ تیغ کرنے کے بھی درپے ہیں،۔ بس میرے اس تھوڑے نقل کئے کو بہت جانیے اور اس دکھ کو بھی سمجھئے جس کی طرف اشارہ ہے۔
میں نے یہ کالم لکھا تو خود پر فخر ہوا کہ میری کن جواہرسے یاد اللہ ہے اور میں کن نگینوں کے فدائیوں میں ہوں۔