عورت مارچ بہت برسوں سے ہمارے میڈیا کا ہاٹ ٹاپک ہے۔ یہ مارچ عورتوں کے حقوق کے بین الاقوامی دن پر کئے جاتے ہیں۔ عوامی رائے عامہ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں عورت مارچ کی حمایت کم اور مخالفت زیادہ نظر آتی ہے اوراس مخالفت کو پیدا کرنے میں بڑا کردار عورت مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ ان مردوں کا ہے جو سماجی روایات اور مذہبی احکامات کے خلاف بینرز اور پلے کارڈ لے کر آتے ہیں، مردوں کے گلے میں رسی ڈال کے کتے کی طرح گھسیٹنے جیسے ڈرامے کئے جاتے ہیں، اپنا کھانا خود گرم کرو سے اپنا بستر خود گرم کرو تک کی متنازع باتیں کی جاتی ہیں۔ اس پر تحقیق کر لیجئے، یہ درست ہے کہ اس مارچ کے شرکا کی بھاری اکثریت مذہب کو ٹارگٹ کرتی ہے اور پھر اس کا ردعمل آتا ہے۔
کیا یہ درست نہیں ہوگا کہ ہم حقوق نسواں کے عالمی دن اور یہاں ہونے والے عورت مارچ کو الگ الگ ڈسکس کریں۔ اگر بات صرف عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کی جائے توکیا اس سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ اب بھی بہنوں اوربیٹیوں کو جائیدادوں میں حصے نہیں دئیے جاتے حالانکہ ان کے حصے ان کے بھائیوں اور بیٹوں کے مقابلے میں آدھے ہوتے ہیں۔ اب یہ شہروں میں بہت کم رہ گیا مگر دیہات میں اب بھی لڑکیوں کی خوراک اور تعلیم کولڑکوں کے مقابلے میں کم اہمیت ملتی ہے، ہم ظلم، زیادتی کی طرف چلے جائیں اب بھی ونی، سوارا، قرآن سے شادی جیسی رسومات کی خبریں آجاتی ہیں۔
جہیز کے مسئلے پر بچیوں کی شادی میں تاخیر بھی ایک عمومی مسئلہ ہے تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب سے نکلتے ہی خیبرپختونخوا میں ولور کا مسئلہ آجاتا ہے جس میں لڑکوں کو لڑکی کی پرورش اور تعلیم کا خرچ دینا پڑتا ہے جو کئی ملین میں پہنچ چکا ہے۔ جس طرح پنجاب میں بچیوں کے والدین کے پاس پیسے نہیں ہوتے کہ وہ بھاری جہیز دے سکیں اسی طرح کے پی کے نوجوانوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنی دُلہن لا سکیں۔ میری نظر میں یہ بھی عورت کی عزت نہیں ہے کہ اس کو دی گئی خوراک، لباس اور تعلیم کی قیمت لڑکے سے لی جائے، اسے قیمت کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے سو عورتوں کے حقوق کا عالمی دن منانا ہرگز غلط نہیں ہے۔
اب اس معاملے کے ایک اور پہلو کی طرف بڑھتے ہیں۔ جہاں لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے وہاں میرٹ کی سختی کی وجہ سے ہماری بچیاں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ بہت برس پہلے جب میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری لی تھی تو اس وقت بھی ہماری ایم اے کی کلاس میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں دوگنا تھی۔ مجھے آج سے دس بار ہ برس پہلے پنجاب حکومت کا ایک فیصلہ یاد ہے جس نے ایم بی بی ایس میں لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظرلڑکوں اور لڑکیوں کے لئے ففٹی ففٹی کا کوٹہ کر دیا تھا مگر اس کا شدید ردعمل ہوا۔
میں نے خود اس پر پروگرام کیا اور حکومت نے اس فیصلے کو واپس لیا مگر سچی بات یہ ہے کہ جس طرح لڑکیاں اعلیٰ تعلیم اور خاص طور پر میڈیکل جیسی پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہاوس وائف بن جاتی ہیں تو حکومت اور سماج یہ سمجھتا ہے کہ قومی سطح پر وسائل کا ضیاع ہوا۔ ویسے یہ الگ پیچیدہ مسئلہ ہے کہ سرکار ان کو بھی نوکریاں نہیں دے رہی جو لیڈی ڈاکٹرز نوکریاں مانگ رہی ہیں۔ بات دوسری طرف نکل جائے لہٰذا یہ موضوع پھر کبھی سہی۔
یہ بھی ایک جینوین ایشو ہے کہ وہ لڑکیاں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں اور مختلف اداروں میں، مجھے کہنے میں عار نہیں کہ زیادہ تر پرائیویٹ اداروں میں، کام کرنے کے لئے آتی ہیں تو انہیں ایک آسان شکار سمجھا جاتا ہے۔ ساتھی مرد ان پر رالیں ٹپکاتے ہیں اور ان کے افسران بھی جیسے وہ پروفیشنل کام کرنے نہیں بلکہ ان کا دل لبھانے کے لئے آئی ہوں یا کم از کم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہسبنڈ ہنٹنگ پر ہیں۔ ہمیں اپنے اداروں میں موجود کام کرنے والوں کی یہ سوچ بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کچھ خامی ان لڑکیوں کی بھی ہوتی ہیں جو آزاد ی اور آزادخیالی کے نام پر کچھ لوگوں کی توقعات کو پورا کر دیتی ہیں جس سے دوسروں کو حوصلے ملتے ہیں۔
ہمیں اپنے لوگوں کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور میں سو فیصد یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہماری بچیاں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں وہ صرف اور صرف اس لئے محنت کرتی ہیں کہ اپنی اور اپنی فیملی کی زندگیوں میں بہتری لا سکیں، اپنی ضروریات خود پوری کر سکیں، اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کرسکیں، وہ اپنی اپنی فیلڈ میں اپنے ملک اور اپنی قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہیں، ان کے بڑے خواب ہوتے ہیں اورہمیں ان کے خوابوں کا احترام کرنا سیکھنا ہے۔
میری ذاتی رائے پوچھیں تو میں خواتین کے اس فیصلے کو سو فیصد جائز اور درست سمجھتا ہوں کہ اگر وہ کمانا نہ چاہیں اور اپنا پورا وقت اپنے گھر، شوہر اور بچوں کو دینا چاہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک عورت ایک گھر کو امن، محبت اور خدمت کا گہوارہ بنا دیتی ہے تو وہ اپنا حق ادا کردیتی ہے اور ایسے میں وہ خواتین میری نظر میں اپنے خاندانوں کی محسن ہیں جو نوکریاں بھی کرتی ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ گھر اور بچے بھی سنبھالتی ہیں کیونکہ میں نے نوکری کرتے ہوئے مردوں کو کبھی گھر سنبھالتے ہوئے نہیں دیکھا جبکہ گھر داری بھی ایک مکمل جاب ہے۔ ازراہ تفنن، بعض دوست کہتے ہیں کہ جب خواتین گھروں میں رہتی ہیں تو انہیں سسرالیوں سے لڑنے اور گھریلو سازشیں کرنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں لہٰذا یہی بہتر ہے کہ وہ جاب کریں، اس سے گھر کی بچت بھی بڑھے گی اوران کے پاس جھگڑنے کی ہمت، موقع اور وقت بھی کم ملے گا، بہرحال اس فقرے کے شروع میں ازراہ تفنن کا لفظ دوبارہ پڑھ لیجئے گا۔
خواتین سے ہونے والی زیادتیوں سے انکار نہیں جوعملی سطح پر ہوتی ہیں مگرا س سے بھی انکار نہیں کہ بہت سارے گھرانوں میں عورتیں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی صورت راج بھی کرتی ہیں، لاڈ بھی اٹھواتی ہیں۔ بہت سارے باپ بیٹیوں کے مقابلوں میں بیٹیوں کا زیادہ خیال رکھتے ہیں، وہ اپنے باپوں کی لاڈلیاں ہوتی ہیں، پاپا کی پریاں بھی کہلاتی ہیں۔ یہی ہمارا معاشرہ ہے جس میں اچھائی اور برائی دونوں موجود ہیں۔
میں کم از کم اپنے سوشل سرکل کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ان میں بیٹیاں بہت اہم ہیں اور رہ گئی بات عورت مارچ والیوں کی، وہ بہت ساری باتیں درست کرتی ہیں مگر بہت ساری باتیں غلط بھی۔ وہ مذہب کو ٹارگٹ کرتی ہیں حالانکہ اسلام نے عورت کو جو حقوق، مراعات، احترام اور رتبے دیئے ہیں جو کسی دوسرے معاشرے اور مذہب نے نہیں دئیے۔ یہ اعتراض بھی درست ہے کہ وہ جن طبقات کی نمائندہ بن کے سامنے آتی ہیں وہ اپنے گھروں میں خود انہی پر مظالم کرتی ہیں۔