کیا ہم اپنے وطن سے محبت کوکسی سیاسی جماعت یا رہنما کے اقتدار سے مشروط کر سکتے ہیں۔ میرا پرزور انداز میں جواب ہے نہیں۔ اقتدار آتی جاتی شے ہے جبکہ وطن مستقل ہے۔ کسی بھی مستقل رشتے کو کسی عارضی تعلق پر کوئی احمق ہی قربان کر سکتا ہے۔ میں نے ایک سیاسی جماعت کے احمقوں کو آزادی کے دن کو متنازع بنانے کی ناکام کوششیں کرتے ہوئے دیکھا۔
خاکم بدہن، وہ قائداعظم محمد علی جناح کی لے کر دی آزادی کو جعلی کہہ رہے تھے اور ان کی نظر میں حقیقی آزادی ایک جعلی اور دھاندلی والی حکومت میں تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو کچھ روز پہلے شور مچا رہے تھے کہ ہم کوئی غلام ہیں اور جیسے ہی آزادی کا دن آیا تو ان کا بھونپو بدل گیا، پوچھنے لگے کہ ہم کوئی آزاد ہیں۔ میر اپہلا جواب ہے کہ نہیں تم سب ذہنی غلام ہواور جسے یہ آزادی، آزادی نہیں لگتی وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ مقبوضہ کشمیر چلا جائے یا بھارت کے کسی بھی شہر اور اپنی اوقات دیکھ لے۔ اس بھارت میں جہاں شاہ رخ اور سلمان خان جیسے اداکاروں کو مسلمان ہونا مہنگا پڑ رہا ہے تو یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔
یہ بدتمیزاوربے ہودہ خود کو دانشور سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے احمق لیڈر کی اتباع کرتے ہوئے نو مئی کو جو تاریخ رقم کی ہے اب اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی والے بے وقوف ہیں اور ان کے پاس عقل کی بوریاں موجود ہیں مگر وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ عقل ہمیشہ امن میں ہے، ادب میں ہے، اخلاق میں ہے۔ ان کا لیڈر نو مئی کو گرفتار ہوا تو انہوں نے پاک فوج کے ہیڈکوارٹرز، بابائے قوم کی رہائش گاہ اور شہیدوں کی یادگاروں تک پر حملے کر ڈالے۔ ان سے سوال پوچھا جائے کہ ان کی پارٹی اور لیڈر سے اس وقت تک ایسا کیا ہوا جو ماضی میں نہیں ہوا۔
عمران خان نام کا سیاسی رہنما صرف گرفتار ہی ہوا تھا تو کیا پہلے وزرائے اعظم گرفتار نہیں ہوتے رہے۔ یہ ملکی تاریخ کا ساتواں وزیراعظم ہے جسے سزا ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ گرفتاریاں اور سزائیں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف نے بھگتی ہیں مگر ان کے منہ سے خلائی مخلوق سے زیادہ سخت کیا لفظ نکلا؟
کبھی پاک فوج کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق نہیں کہا، کسی افسر کو ڈرٹی ہیری جیسا نام نہیں دیا۔ کبھی نہیں کہا کہ وہ اقتدار سے محروم ہوا ہے تو پاکستان پر ایٹم بم گرجائے، یہ ایک سیاستدان کی کوتاہ اندیشی، خود غرضی اور مفاد پرستی کی انتہا ہے۔ نواز شریف نے گوجرانوالہ کے جلسے میں جب دو جرنیلوں کے نام لئے تو اسے قومی حلقوں کی طرف سے ناپسندیدہ سمجھا گیا اور کہا گیا کہ یہ نام جلسوں میں نہیں لئے جانے چاہئے تھے۔
نواز لیگ سے ہی کیوں موازنہ کیا جائے، یہ پیپلزپارٹی سے بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بات ابھی کسی کو نہیں بھولی کہ جب بے نظیر بھٹو کی شہادت ہوئی اور اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، چلیں، زمانہ قریب کا واقعہ بینظیر بھٹو کی شہادت کو ڈسکس کر لیتے ہیں۔ اس وقت پیپلزپارٹی کا کارکن بہت غصے میں تھا اوراس نے سندھ سمیت پورے ملک میں آگ بھی لگائی مگر اس کے باوجود جیالوں نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا اور نہ ہی کسی دوسری فوجی علامت پر۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ یوتھیے جس آصف علی زرداری کے بارے میں تضحیک آمیز گفتگو کرتے ہیں اسی مرد حر نے پورے سندھ میں آگ لگنے کے باوجود پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور یہ نعرہ تاریخ میں امر ہوگیا۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ فوج ہو یا عدلیہ، سیاسی جماعتوں کو اپنے اداروں سے شکایات پیدا ہوتی رہتی ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان کی سیاسی جماعتیں پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی رہتی ہیں وہ ہندوستان کی آر ایس ایس نہیں بنتیں، افسوس، پی ٹی آئی، جو اپنے مخفف میں گوگل کرنے پر پریس ٹرسٹ آف انڈیا نکلتی ہے، ہر موقعے پر بھارت کو خوش کرنے والی جماعت رہی ہے چاہے وہ نو مئی ہو یا چودہ اگست۔ بھارت جو کام ایک بڑی فوج رکھنے کے باوجودنہیں کرسکا، را، کی تمام تر سازشوں سے کے باوجود نہیں کر سکا وہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ کیا ہے چاہے وہ فوجی تنصیبات پر حملے ہوں یاچودہ اگست جیسے اہم ترین او ر مقدس ترین دن پرآزادی کے تصور پر ابہام پیدا کرنا ہو، اہل وطن کی وطن سے محبت کو مشکوک بنانا ہو۔
یہ وہ گروہ ہے جسے بیرونی امداد حاصل ہے اور اس امداد کے سرے اسلام دشمنوں سے جا ملتے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے سبز پاسپورٹ کو پھاڑنے اور قومی پرچم کو جلانے جیسی غلیظ ترین حرکتیں کرتے اور پھر انہیں سوشل میڈیا پر فخر کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کو بھارت جیسے دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی اکثریت ایسی ہے جو پاکستان کی شہریت کو چھوڑ کے کسی دوسرے بادشاہ یا ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھا چکے۔
یہ نامراد لوگ اپنے حلف میں کہہ چکے کہ اگر ان کے نئے آقاؤں کی ان کی اپنی مادر وطن سے جنگ ہوئی تو وہ نئے مالکوں کے ساتھ مل کر اپنی ہی ماں سے لڑیں گے، آہ، یہ کتنے کوتاہ اندیش ہیں اور کتنے بدقسمت ہیں۔ پاکستان وہ ریاست ہے جسے لاالہ الا اللہ کے نعرے پر حاصل کیا گیا۔ یہ دنیا کی تاریخ میں مدینہ منورہ کے بعد بننے والے دوسری اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور مجھے یہ فتویٰ دینے میں کوئی عار نہیں کہ اسلام کے اس قلعے سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے جیسے نبی ﷺ کو مکہ مکرمہ سے محبت تھی۔
مجھے اپنی اس تحریر کے ذریعے بہت سارے فکری مغالطے درست کرنے ہیں، دانشورانہ بددیانتیوں کا قلع قمع کرنا ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کوبتانا ہے کہ یہ ملک ناگزیر تھا اور یہ کہ اس کی آزادی بارے ہمیں کوئی شک نہیں۔ ہمیں اپنے پرکھوں اور اپنے اداروں سے شکایات ضرور ہو سکتی ہیں مگر کیا کوئی اپنے ماں باپ سے ناراض ہو کے یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ان کی اولاد ہی نہیں اور وہ حرامی ہے۔
محبت ماں سے ہو یا وطن سے، یہ شکایات سے ماورا اور شرطوں سے بالاتر ہو تی ہے۔ ایک شخص نے کہا کہ آج آپ دوسرے ملک کا ویزہ کھول دیں تو پاکستان میں چودہ اگست سے بڑی ہجرت ہوجائے تو مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ ملک تباہ بھی ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے ہوا ہے جن کی وابستگی اپنی مٹی سے نہیں۔ وہ دوسروں کا لال منہ دیکھ کے اپنے منہ پر چپیڑیں مارتے ہیں کہ ان کا بھی لال ہوجائے۔
مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ آزادی کے تصور اور دن کی نفی اپنے ان بزرگوں کی قربانیوں سے بھی انکار ہے جنہوں نے محض اس مٹی کو چومنے کے لئے اپنے گھر بار، بزرگوں کی قبریں، جائیدادیں اور کاروبار تک چھوڑ دئیے۔ ان ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیوں سے انکار ہے جن کی لاشوں سے بھارتی پنجاب کے کنویں بھر گئے۔ یہ احمق اگر آزادی بارے جاننا ہی چاہتے ہیں تو بھارتی سکھوں سے جان لیں۔ آپریشن گولڈن ٹمپل کی داستان ہی پڑھ لیں اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سمیت دیگر کی ہلاکتوں کا ہی مطالعہ کر لیں۔
آزادی کے دن کو متنازع بنانے والے تاریخ ہی نہیں عقل اورشرم سے بھی عاری لوگ ہیں۔ یہ فتنہ ساز ہیں، دشمن کے ایجنٹ ہیں۔ مجھے نومئی کے بعد چودہ اگست کو شدت سے ان کی سیاسی اور فکری تخریب کاری کے مضمرات کا احساس ہوا۔ ان دہشت گردوں کو معافی نہیں ملنی چاہئے۔