بنوں کینٹ پر چار خود کش حملہ آوروں سمیت سولہ دہشت گردوں کے بارود کی بھری دو گاڑیوں کے حملے کے بعد کچھ عاقبت نااندیشوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس حملے کو آپ ناکام کیسے کہہ سکتے ہیں جس میں مقابلہ کرتے ہوئے پانچ بہادر فوجیوں کے ساتھ تیرہ سویلین بھی شہید ہو گئے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ اس حملے کو ناکام نہ کہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ دہشت گردوں کو کامیاب کہہ رہے ہیں، وہ فکری مغالطے پیدا کر رہے ہیں اور نظریاتی سطح پر گمراہی۔
میں دہشت گردوں کوکامیاب کہنے والوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس دیکھتا ہوں تو یہ وہی ہیں جو نو مئی کے حملوں کا دفاع کرتے ہیں، انہیں فالس فلیگ آپریشن کہتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی گروہ ہے جو اس وقت سیاسی مفادات کے حصول کے لئے علیحدگی پسندوں سے بھی اپنی ہمدردیاں ظاہر کر رہا ہے حالانکہ اس گروہ کا سربراہ جب بطور وزیراعظم نصب تھا تو وہ ایسے لوگوں کی دوپٹے لے لے کر نقلیں اتارا کرتا تھا۔ یہ گروہ اس شخص کو پاکستان کے آئین کے تحفظ کی مبینہ تحریک کا سربراہ بناتا ہے جس کی بیٹی کے سوشل میڈیا اکاونٹ پر افغان کرکٹ ٹیم کی کور فوٹو ہے اور وہ پشتونستان سے وابستگی ظاہر کر رہی ہے۔
دہشت گرد ناکام ٹھہرے یا نہیں، یہ ایک فکری اور نظریاتی بحث ہے جو آپ کے دھڑے کا فیصلہ کرتی ہے کہ آپ کس کے ساتھ ہیں۔ میں پاکستان کے ساتھ ہوں، اس موقعے پر جاں بحق ہونے والے اپنے پختون بھائیوں کے ساتھ ہوں تو میں واضح اور دوٹوک انداز میں کہتا ہوں کہ دہشت گرد ناکام ہوئے کیونکہ میں نہ دہشت گردوں کا حامی ہوں نہ ترجمان، میں ان کا مخالف ہوں۔ میں اپنے پورے یقین سے سمجھتا ہوں کہ جب سولہ دہشت گردوں نے بارود کی بھری دوگاڑیوں کے ساتھ بنوں کینٹ پر حملہ کیا جہاں صرف فوجی تنصیبات ہی نہیں بلکہ پشاور ہائیکورٹ کا بینچ، آر پی او کا دفتر اور رہائشی علاقے بھی ہیں تو ان کے پیش نظر ایک بڑی تباہی تھی۔
وہ بنوں کینٹ کی بہت ساری اہم عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر ہی نہیں بنانا چاہتے تھے بلکہ افطار کرتے ہوئے بہت ساروں جان سے مارنا چاہتے تھے، ان کے بس میں ہوتا تو سینکڑوں کو کیونکہ ان کے پاس اتنا ہی اسلحہ تھا۔ ا س موقعے پر ہماری سیکورٹی فورسز نے مزاحمت کی۔ ہمارے جوانوں نے اپنے سینے ان گولیوں کے لئے پیش کئے جو وہ شہریوں کومارنا چاہتے تھے۔ ان کا راستہ روکا گیا تو انہوں نے بارود سے بھری گاڑیاں جو وہ مارکیٹوں میں جا کے بھی پھاڑ سکتے تھے، کینٹ کی دیواروں سے ٹکرا کے پھاڑ دیں۔ اس سے ایک مسجد بھی شہید ہوئی اور گھر بھی متاثر ہوئے۔
اس سے پہلے کہ میں نتیجے پر جاؤں میرا سوال ہے کہ کیا اللہ کو رب اورمحمد ﷺ کو اپنا نبی ماننے والے مسجد پر حملہ کرسکتے ہیں، کیا وہ افطار کرتے ہوئے بے گناہ اورمعصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل سکتے ہیں، میرا ایمان ہے ہر گز نہیں، یہ سب مسلمان نہیں ہیں بلکہ خوارجی ہیں۔ یہ وہ خوارجی ہیں جو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے باہر ہیں۔ اہلحدیث، دیوبندی، بریلوی اور شیعہ تمام ان کی دین کی تعریف کو تسلیم نہیں کرتے۔ بنوں کینٹ پر حملے کے بعد سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ اطلاعات آنی شروع ہوگئی تھیں مگر حقیقت عشاءکے نماز کے وقت جا کے کھلی۔
آئی ایس پی آر نے تفصیلات شیئر کیں تو علم ہوا کہ حملہ آوروں کو بنوں کینٹ میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ اب مجھے بتائیں کہ میں کسے کامیاب اور کسے ناکام کہوں۔ کیا انہیں کامیاب نہ کہوں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اور زخمی ہو کر دہشت گردوں کا راستہ روک لیا اور انہیں وہیں پھٹنے پرمجبور کر دیا۔ کیا یہ کامیابی نہیں تھی کہ سولہ کے سولہ دہشت گرد جہنم واصل کر دئیے گئے۔ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ انہیں کارروائی سے پہلے ہی روکنا چاہئے تھا اور میں ان سے اتفاق کرتے ہوئے انہیں بتاتا ہوں کہ ایسے بہت سارے دہشت گرد اپنی کارروائیوں سے پہلے مارے جا رہے ہیں۔
بات کامیابی اور ناکامی کی ہورہی ہے تو دنیا بھر میں جنگ کے حوالے سے ایک ہی سوال چلتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو۔ آپ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں یہ سوال کریں گے تو میں دو ٹوک انداز میں کہوں گا، میں اپنے عوام کے ساتھ ہوں، میں امن کے ساتھ ہوں، میں اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہوں اور اپنے شہدا کے ساتھ ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ریاست کی خامیاں بتا رہے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ زندگی اور موت کے کھیل میں اپنے ساتھیوں اور مجاہدوں کی خامیاں نہیں بتائی جاتیں، یہ کام تو دشمن کرتا ہے، اپنوں کے ساتھ تو کھڑا ہوا جاتا ہے، ان کے ساتھ مل کر لڑا جاتا ہے، ان سے نہیں لڑا جاتا۔
یہ کامیابی، ناکامی بھی عجیب وغریب شے ہیں۔ ہماری جنگ سے کہیں بڑی جنگ غزہ میں ہوئی ہے۔ اسرائیل نے سوا برس کے عرصے میں پچاس ہزار فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں کوئی ہسپتال، کوئی سکول اور کوئی گھر باقی نہیں چھوڑا گیا مگر جنگ بندی کے بعدکیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ہولناک تباہی کے بعد اسرائیل جیت گیا ہے، غزہ والے ہار گئے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اتنا ظلم برپا کرنے کے بعد بھی اسرائیل ناکام و نامراد ہے کیونکہ فلسطینیوں کے حوصلے بلند ہیں، وہ اپنے وطن سے کمٹڈ ہیں، اپنے دھرتی کے وفادار ہیں، ظلم کے سامنے سینہ سپر ہیں اور اپنے ایمان پر قائم ہیں۔
جو لوگ دہشت گردی کے حملے کوناکام کہنے پر اعتراض کرتے ہیں دراصل وہ دہشت گردوں کوکامیاب دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے دلوں اور دماغوں میں کجی ہے۔ وہ اپنے ملک، اپنی قوم اور امن و ترقی کے نظرئیے کے غدار ہیں۔ میں اسی بات کو ہندوستان اور کشمیر کے حوالے سے بیان کرتا ہوں کہ کیا کشمیر اپنی لاکھوں کی فوج لگا کے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پاؤں تلے روند کے، کشمیریوں سے جیلیں بھر کے اور آخر میں پانچ اگست والا اقدام کرکے جیت گیا، ہرگز نہیں، کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سبز ہلالی پرچم نظر آتے ہیں اور جب وہ نعرہ تکبیر لگاتے ہیں تو بھارت ہار جاتا ہے۔
جو یہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے حملوں کوناکام نہ کہو وہ میری نظر میں ففتھ کالمسٹ ہیں، وہ میر جعفر اور میرصادق ہیں مگر ان کے حوالے سے سب سے خطرناک یہ ہے کہ وہ میرے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ا نہیں امن کے لئے جانیں قربان کرتے فوجیوں سے بدگمان اور برگشتہ کررہے ہیں۔ بیانئے کی یہ جنگ دہشت گردی سے بھی بڑی ہے جو الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہے۔ اپنے وطن، اپنے لوگوں، ا ن کے امن اور ترقی سے محبت کرنے والوں کو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا ورنہ یہ غدار ہماری جغرافیائی اور نظریاتی فصیلوں کے دروازے دشمن کے لئے اندر سے کھول دیں گے۔