Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Bijli Par Aik Na Pasandeeda Column

Bijli Par Aik Na Pasandeeda Column

اگر آپ اتنے میچور نہیں اور ان کہانیوں پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک پری آئے گی اور آپ کے گھر کاکا پھینک جائے گی تو یہ تحریرآپ کے لئے نہیں ہے۔ یہ آپ کا بلڈ پریشر ہائی اور سٹامک خراب کر سکتی ہے جس کے بعد فضلہ منہ سے بھی نکل سکتا ہے جس کا مجھے سوشل میڈیا پر سامنا کرنا پڑرہا ہے، جی ہاں، جب آپ کاہل کو کام کرنے، بے وقوف کو عقل کرنے اور بے شرم کو شرم کرنے کا کہتے ہیں تو مغلظات ہی سننے کوملتی ہیں۔

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت آپ کے بجلی کے بل آدھے کر دے گی تب بھی آپ کو یہ کالم مزید پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں آپ کے خواب ٹوٹیں گے۔ آپ اگر بجلی اور پٹرول مفت چاہتے ہیں تو کسی سوشل میڈیائی صحافی کے صفحے پر چلے جائیں وہاں آپ کو ایسے ایسے سبز باغ ملیں گے کہ دل واقعی باغ باغ ہوجائے گی مگر میرے پاس آپ کے لئے ابھی ایسی کوئی خبر نہیں ہے۔

چلیں، ایک اور بری بات جان لیجئے کہ مہنگی بجلی کے حوالے سے اس وقت جتنی بھی بے چینی اور انقلاب ہے وہ سب میڈیا ہائپ ہے۔ میڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے ٹی وی پر ہیڈ لائنز اوراخبارات میں شہ سرخیوں کے لئے خبریں درکار ہوتی ہیں وہ تو بھلا ہو ہماری عدلیہ کا جس نے عمران خان کو ریلیف پر ریلیف دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے کچھ کام چلتا رہتا ہے ورنہ خبروں کا سخت بحران ہے۔

میں آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں کہ بجلی بحران کی جب لیڈ سٹوریز چھپ رہی ہیں تو پہلے تین دن ہمارے پاس کوئی ایسی فوٹیج اور تصویر تک نہیں تھی جس میں کہیں احتجاج کرتا ہزار بندہ بھی نظر آ رہا ہو۔ جب میڈیا نے معاملہ اٹھا لیا اور اپنا پیٹ بھرنا شروع کر دیا توپھر وہ سب میدان میں آ گئے جنہوں نے ہر معاملہ اٹھا لینا ہوتا ہے۔ اب جماعت اسلامی کو ہی دیکھ لیجئے کہ اس نے ہر معاملے میں ضرور اترنا ہوتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ عوام پھر بھی جماعت کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ پھر اس پر ہماری کچھ تاجر تنظیمیں ہیں جو شور مچانا شرو ع ہوگئی ہیں کیونکہ اس پر انہیں بھی اہمیت اور کوریج ملتی ہے لہٰذا اگر آپ ایماندار ی سے پورے ایشو پر کریڈٹ دینا چاہتے ہیں تو میڈیا کو دیجئے۔ ہم نے اخبار بناتے ہوئے بہت ساری خبروں کو پھیلانے کی بجائے سکیڑنے کا فیصلہ کیا تو سوال اٹھا کہ پھر باقی اخبار پر کیا چھاپیں گے۔

میں آپ کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہتا مگر پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اس وقت مہنگی بجلی کے معاملے پر جولوگ بھی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں ان کے پاس بڑھے ہوئے بلوں کا وہی حل ہے جو پی ٹی آئی کی حکومت میں مہنگائی کے خلاف مارچ کرتے ہوئے پی پی پی، نواز لیگ اور جے یو آئی جیسے تجربہ کاروں کے پاس تھا یعنی انہوں نے مہنگے پٹرول اور مہنگے ڈالر کے خلاف مارچ کیا اور پھر ان سب کو سمپلی ڈبل، کر دیا۔

آج میں ٹی وی چینلز پر دیکھ رہا ہوں جن میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے پاس بل کم کرنے کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے تو یہ بات میں نے تین دن پہلے ہی روزنامہ نئی بات کے صفحہ اول پر اپنے تجزئیے میں لکھ دی تھی۔ سادہ سا سوال ہے کہ بجلی مہنگی کیوں ہے تو اس کے جواب میں ہمارے پاس چار سے پانچ وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم جس امپورٹڈ آئل سے بجلی کی بڑی مقدار بناتے ہیں وہ بہت مہنگا ہو چکا ہے اور اس مہنگے تیل پر مزید آگ تین سو روپوں سے بھی اوپر جاتا ہوا ڈالر لگا رہا ہے یعنی اگر آپ کا خام مال ہی سستا نہیں تو آپ پراڈکٹ کہاں سے سستی دے سکتے ہیں۔

دوسرا مسئلہ کپے سیٹی پے منٹس یا گردشی قرضوں کا ہے۔ جب اسحق ڈار پچھلی مرتبہ (لندن) گئے تھے تو اس وقت کوئی پانچ سو ارب کے لگ بھگ گردشی قرضے تھے جو عمران خان کی نااہل حکومت کی مہربانی سے اڑھائی سو ارب تک پہنچ گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بجلی مہنگی کیوں ہوئی تو جواب میں ایک سچی کہانی سن لیجئے، میں اس کا فرسٹ ہینڈ وٹنس، ہوں۔ یہ دو ہزار تیرہ میں ایوان وزیراعظم کا ایک اجلاس تھا جس میں ملک بھر سے کوئی چالیس پچاس یا اس سے بھی زائد سینئر صحافی، ایڈیٹرز، اینکرز وغیرہ وغیرہ بلائے گئے تھے۔

مرحومین عطا الرحمان یا رؤف طاہر تو گواہی کے لئے موجود نہیں مگر جناب مجیب الرحمان شامی، جناب سلمان غنی اور جنابہ نسیم زہرہ وغیرہ کی گواہی لے لیجئے، نسیم زہرہ مجھے اس لئے یاد ہیں کہ وہ اس اجلاس میں نجانے کس مسئلے پر رو پڑی تھیں (وہ مسئلہ بہرحال بجلی کا نہیں تھا)۔

اس بریفنگ میں ا س وقت کے وزیراعظم نے جان لیوا لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا شیڈول دیا تھا اور بتایا تھا کہ وہ اپنی حکومت کے اختتام تک اتنی بجلی بنا کے جائیں گے کہ وہ ملکی ضروریات سے بھی زیادہ ہوگی مگر اسی بریفنگ کا دوسرا حصہ بھی بہت اہم تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بجلی کایونٹ اٹھارہ سے چوبیس روپوں میں بنے گا مگر وہ اس پیداوار ی کاسٹ کو اگلے پانچ برسوں میں (جو عمران خان کو دے دئیے گئے) نو روپے نوے پیسے (یعنی ڈبل فگر سے کم پر) لائیں گے۔ پہلا منصوبہ تو مکمل ہوگیا مگر اس کے بعد وہ آ گیا جس نے صرف ڈیم فول بنائے۔

بجلی کے بلوں میں تیسری مہنگائی ٹیکسوں کی وجہ سے ہے۔ حکومت سات مختلف قسم کے ٹیکس بلوں میں وصول کر رہی ہے۔ اب ہر حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ ایف بی آر کے پاس براہ راست ٹیکسوں کی وصولی کی اہلیت ہی نہیں لہٰذا حکومت نے بجلی کے ساتھ ساتھ پٹرول اور جی ایس ٹی وغیرہ لگا کے بالواسطہ ٹیکس ہی وصول کرنے ہیں۔ اب یہاں دو باتیں سمجھ لیجئے کہ اگر کوئی حکمران چاہے وہ عمران خان ہو، نواز شریف ہو یا آصف زرداری ہو، چلیں آپ انوار الحق کاکڑ کی ہی بات کر لیں وہ ٹیکس کم کرتا ہے وہ ملک چلانے کے لئے وہ فنڈز اپنے پلے سے نہیں دے گا۔

ہمارے پاس قرضے لینے کے علاوہ ٹیکس وصول کرنے اور ملک چلانے کا یہی ایک طریقہ ہے اور اب ہمیں کوئی قرضے تو دے نہیں رہا بلکہ ٹکے ٹکے کی سنائی جا رہی ہیں۔ دوسرے یہاں بھی عمران خان کی حکومت اپنے دور میں ایسی قانون سازی اورمعاہدے کر گئی ہے جس میں سٹیٹ بنک خودمختار ہے اور ٹیکسوں کے معاملے پر آئی ایم ایف بااختیار۔ اب آئی ایم ایف نے آپ سے قرضہ واپس لینا ہے جو وہ آپ کو ٹیکسوں میں ردو بدل (یا کمی کرنے) کی اجازت کیوں دے گا۔ ایک سیانے صاحب کہہ رہے تھے کہ ڈیم بنائیں تو جواب ہے کہ ضرور بنائیں مگر ثاقب نثار کی طرح ڈیم فول نہ بنائیں۔

ڈیم عشروں میں بنیں گے اور ریلیف ہمیں دنوں میں چاہئے۔ لہٰذا میرا تجزیہ پہلے دن سے یہی ہے کہ بجلی کے بلوں میں کوئی بڑا ریلیف بھی ملا تو کوئی پانچ، سات یا دس فیصد ہوسکتا ہے مگر دس ہزار بل والے کے بل سے پانچ، سات سوکم بھی ہوگئے تو اسے کیا ریلیف ملے گا، صرف یہ کہ جہاں اس نے ساڑھے پانچ ہزار ادھار مانگنا ہے وہ پانچ ہزار مانگ لے گا۔ مہنگے بجلی ہونے کی چوتھی وجہ اس کی چوری ہے جو بدعنوان عملے سے مل کر کرپٹ عوام کرتے ہیں اور پانچویں وجہ ناقص انفراسٹر کچر کے لائن لاسز ہیں۔

اب یہ بات بھی نہیں کہ مسئلے کا حل نہیں، حل صرف ایک ہے مگر وہ کڑوا ہے۔ پیارے قارئین، آپ کو ہر صورت اپنی آمدن بڑھانا ہوگی۔ ایک کام کرتے ہیں تو دو کرنے ہوں گے اور اگر پہلے ہی دو کرتے ہیں تو اپنی بیگم کو بھی کمانے پر لگانا ہوگا۔ چلیں یہی سوچ کر لگا لیں کہ آپ یورپ اور امریکامیں شفٹ ہو گئے ہیں۔ آپ کی جیب میں پیسے ہوں گے تو بل ادا ہوجائے گا ورنہ آپ کو بہت سارے بے وقوف بناتے رہیں گے کہ فکر مت کرو، ہمیں ووٹ دو، ہم بل آدھے کر دیں گے۔ ہونا وہی ہے جو پچھلے برسوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے، کیا سمجھے؟