بلاول بھٹو زرداری اس وقت نواز شریف پر سخت غصے میں ہیں۔ ہمارے بہت سارے دوست سمجھتے ہیں کہ یہ غصہ انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ اس طرح کے کاموں میں اسی طرح ہی ہوتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ یہ غصہ روایتی انتخابی مہم سے کچھ زیادہ ہے۔ بلاول زیادہ غصے میں اس وقت آئے جب نواز شریف نے بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں کے تیس الیکٹ ایبلز ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
واقفان حال کہتے ہیں کہ غصہ ان اطلاعات پر زیادہ بڑھا کہ جنوبی پنجاب کے الیکٹ ایبلز نے بھی ایک سو اسی ایچ ماڈل ٹاون کے پھیرے لگانے شروع کر دئیے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کو اپنا قلعہ سمجھتی ہے اور اس کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے اضافے کے ساتھ وہ قومی اسمبلی میں سب سادہ اکثریتی جماعت نہ بھی بنی تو سب سے بڑی جماعت ضرور بن جائے گی۔ اس کی سیٹیں مسلم لیگ نون سے زیادہ ہوں گی اور ایک اتحادی حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بلاول بھٹو زرداری ہوں گے۔
بلاول بھٹو سب سے پہلے پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جس کا وہ خود بھی حصہ تھے یعنی میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھو تھو۔ میرا خیال ہے کہ انہیں ان کی ہی وہ تقریریں سنانی چاہئیں جو انہوں نے شہباز شریف کی تعریف کرتے ہوئے کی تھیں۔ شہباز سپیڈ کی اتنی تعریف کہ شائد اتنی سعد رفیق اور احسن اقبال بھی نہ کرتے ہوں لیکن اب بلاول نواز شریف کو لاڈلا کہہ رہے ہیں، سپر لاڈلا اور لاڈلا پلس۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ مہنگائی لیگ بن گئی، شیر بلی بن گیا، لاہور کا جلسہ کروایا گیا اور لاہور کا ایک سیاستدان کہتا ہے کہ صرف وہی کھیلے گا۔ یہ لاڈلا والی کہانی بھی عجیب ہے۔ اگر آپ خود لاڈلے ہوں تو یہ عین حب الوطنی ہے، اعلیٰ ظرفی ہے لیکن اگر کوئی دوسرا لاڈلا بن جائے تو یہ آئین اور جمہوریت سمیت ہر شے کے ہی خلاف ہے۔ پیپلز پارٹی خود کو جمہوریت کی محافظ کہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید پیپلز پارٹی بنانے سے پہلے آٹھ برس تک فوجی حکومت کے ہی وزیر رہے۔ پیپلز پارٹی بنانے کے بعد وہ اتنے لاڈلے تھے کہ جنرل یحییٰ خان نے ملک توڑنا پسند کر لیا مگر اقتدار بھٹو مرحوم کے ہی حوالے کیا۔
بھٹو مرحوم کو ان کے ساتھیوں نے آخر تک دھوکے میں رکھا کہ ضیاء الحق انہیں پھانسی نہیں دیں گے مگر انہوں نے دے دی۔ جب ضیاء الحق مرحوم کا طیارہ پھٹا تو اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو بھی صدارت اور وزارت خارجہ سمیت بہت سارے کمپرومائزز کرکے ہی اقتدار میں آئی تھیں، انہوں نے اس وقت کے سپہ سالار کو تمغہ جمہوریت بھی دیا تھا۔ محترمہ اچھی خاتون اور سیاستدان تھیں اور انہوں نے اپنی پارٹی کے لئے پرویز مشرف سے بھی ڈیل کی تھی جسے افتخار چوہدری نے ختم کیا تھا۔ آصف زرداری یاد کریں، انہوں نے عمران پراجیکٹ کو اچھا آغاز دیتے ہوئے بلوچستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پرگرائی تھی، بہرحال، لاڈلے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
ہمارے ایک سینئر لبرل صحافی نے ٹوئیٹر پر سوال کیا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کا سرپرائز مل سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کی گفتگو سے یہ تاثر لے رہے ہیں کہ نواز لیگ کی مخالفت میں پیپلز پارٹی اتنی آگے نکل جائے گی کہ وہ پی ٹی آئی کے نو مئی والے گڑھے میں خودکو گرا لے گی۔ میرا خیال ہے کہ آصف زرداری ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ آصف زرداری بہت ہوشیاری کے ساتھ ایک کئیرنگ فادر، کی طرح اپنے بیٹے کی غلطیاں سنبھال رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری جب کریز سے باہر جا کے کھیلتے ہیں تو وہ انتہائی محتاط بیان جاری کر دیتے ہیں جیسے انتخابات کی تاریخ کا معاملہ، اب لاڈلے اور دھاندلی کے شور میں ان کا الیکشن کمیشن پر اظہار اعتماد۔ کسی نے کہا کہ آصف زرداری نے بھی کہا تھا کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے تو میرا جواب ہے کہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کے لیا گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وزیر اعظم پیپلز پارٹی کا ہوگا اور ہر پارٹی کے سربراہ کو یہ بات کہنے کا حق ہے کیونکہ وہ انتخابی مہم میں جا رہا ہے۔
وزیر اعظم ہم ہوں گے یہ بات تو مولانا فضل الرحمان بھی کہہ رہے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ وہ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی راہ روک رہے ہیں، نہیں، وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ رہ گئی پی پی پی اور پی ٹی آئی اتحاد کی بات تو خان صاحب کے اندھے فالوورز تو سوال نہیں کریں گے، وہ فالوورز جو کہتے ہیں کہ ان کی امی بھی ان سے شادی کر لیں تو ان کے ابو کو اعتراض نہیں ہوگا مگر وہ تو ضرور کریں گے جو سیاسی کارکن ہیں اور نواز، زرداری مخالفت کی بنیاد پر ہی خان صاحب کے ووٹر، سپورٹر بنے تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون کو اتنا مضبوط سمجھ رہی ہے کہ اس کے مقابلے کے لئے اسے پی ٹی آئی کے ووٹ بنک کی ضرورت ہے؟
بلاول بھٹو زرداری بلوچستان اورجنوبی پنجاب کے حوالے سے ہی غصے میں نہیں ہیں بلکہ انہیں درست یا غلط اطلاعات مل رہی ہیں کہ مسلم لیگ نون سادہ اکثریت (بلکہ دو تہائی اکثریت) حاصل کرنے جا رہی ہے سو ان کا غصہ بجا ہے، ان کی اگلی توقع ہے کہ اگلی حکومت مخلوط ہوگی جس میں وزیر اعظم نہ بھی بنے تو وزیر خارجہ تو ضرور ہوں گے اور ان کے والد صدر مملکت۔ اب اگر مسلم لیگ نون کو سادہ اکثریت مل جاتی ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ پرانا نواز شریف دوبارہ جاگ جائے اور کہے گا کہ ہمیں کسی کی ضرورت نہیں، ہم اپنی کارکردگی سے ہی کام چلا لیں گے حالانکہ وطن عزیز میں حکومت چلانے کے لئے جس قسم کی کارکردگی درکار ہوتی ہے اس میں بڑے میاں صاحب بہت پیچھے ہیں۔ وہ اس سے پہلے تین مرتبہ وزیراعظم بن چکے اور تینوں مرتبہ اپنی مدت پوری کئے بغیر رخصت ہوچکے حالانکہ تینوں مرتبہ ہی ان کی کارکردگی بری نہیں تھی۔
بلاول نوجوان ہیں، ویژنری ہیں مگر ان میں ابھی صبر و تحمل کی کچھ کمی ہے۔ سیاستدانوں میں یہ صبر وتحمل عمومی طور پر پچاس، ساٹھ برس کی عمر سے پہلے کم ہی آتا ہے بلکہ یہاں تو یہ حال ہے کہ کچھ صاحبان ستر، اسی کے پیٹے میں پہنچنے والے ہیں مگر پارہ صفت ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے طالب علم کے طور پر کہوں تو آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن تمام ہی سیاسی جماعتوں کے لئے کسی نہ کسی حوالے سے کافی مشکل ہیں، ہرکسی کی مشکلات الگ الگ ہیں مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشکلات نہیں ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ نواز لیگ کے لئے کیا مشکلات ہیں، اس کے لئے سب تو بظاہر سب حلوہ ہے تو اس سوال پر ایک الگ کالم کی ضرورت ہے۔