بلاول سلیکٹ ہو چکے، یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ ان کی باڈی لینگوئج چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے، ان کے بیانات کہہ رہے ہیں، ان کے اقدامات کہہ رہے ہیں۔ جب وہ پی ڈی ایم کے تنے پرکلہاڑی چلا رہے تھے تو ان کے مفادات واضح نظر آ رہے تھے۔ جب وہ پیپلزپارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں اتحادی قیادت کی طرف سے ملنے والے شوکاز نوٹس کو پھاڑ رہے تھے تو علم ہو رہا تھا کہ اب انہیں خط اور پتر کہیں اور سے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ جب وہ ڈسکہ والے طریقے سے کراچی میں اپنے امیدوار کو جتوا رہے تھے اور پریس کانفرنس میں اس کو جواز دے رہے تھے تو جہاں مجھے ڈیوٹی پر موجود بے چارے کائروں، اور غنیوں، سے ہمدردی ہو رہی تھی کہ اب وہ کیسٹ کی دوسری سائیڈ لگایا کریں گے تو وہاں بلاول کا بولنا صاف بول رہا تھا کہ میں نئیں بولدی، میرے وچ میرا یار بولدا،۔ مجھے اقبال بانو یاد آ گئیں، پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے، تو لاکھ چلے رے گوری تھم تھم کے، تُو پیا سے مل کر آئی ہے، بس آج سے نیند پرائی ہے، دیکھے گی سپنے بالم کے۔۔
کہتے ہیں کہ کسی باپ کے لئے اس سے بڑی کوئی خوشی اور کوئی کامیابی نہیں ہوتی کہ اس کا بیٹا سلیکٹ ہوجائے اور بیٹا بھی وہ جو اکلوتا ہو۔ ابھی کچھ روز پہلے ہی جب پی ڈی ایم کے آخری اجلاس میں انہوں نے اپنے بیٹے کے اکلوتے ہونے کی بنیاد پر اپنی سیاسی حکمت عملی کی جو توجیہ دی تھی اس پر بہت سارے صاحب اولاد جگر تھام کے بیٹھ گئے تھے۔ بیٹا اکلوتا ہو اور بلاول جیسا نازک اور چھیل چھبیلا ہو تو باپ کو ایسے ہی سوچنا چاہئے۔ میں ہمیشہ سے زرداری صاحب کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کا قائل رہا ہوں۔ وہ جانتے ہیں کہ کب انہوں نے اینٹ سے اینٹ اڑانے کے بیانات دینے ہیں، کب دوبئی جا کے بیٹھ جانا ہے اور کب بیٹے کے اکلوتے ہونے کا جواز پیش کرنا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کب بلوچستان کی حکومت گرانی ہے، کب کسی سنجرانی کی حمایت کرنی ہے اور کب کسی گیلانی کے لئے اپوزیشن سے ووٹ لینے ہیں۔ وہ سیاست کسی نظرئیے کے تحت نہیں بلکہ اکبری منڈی کے کسی تاجر کی طرح کرتے ہیں جو جانتا ہے کہ کون سی جنس کب خریدنی ہے اور کب فروخت کر دینی ہے۔
ابھی دو روز قبل جناب اسد عمر سے یہ بیان منسوب کیا گیا کہ اگر عمران خان کو کام نہ کرنے دیا گیا تو وہ اسمبلیاں بھی توڑ سکتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہوئی ہے کہ عمران خان کون سا ایسا کام کر رہے ہیں جو کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ وہ احتساب کے نام پر انتقام لے رہے ہیں اور ان کے انتقام کا خصوصی نشانہ وہ ہیں جو مسلم لیگ نون میں مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ ابھی بعض صحافیوں کے مطابق انہیں حمزہ کے بعد شہباز شریف کی رہائی پر بھی لڑتے ہوئے سنا گیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ جناب عمران خان اسمبلیاں توڑنے اور سیاسی شہید ہونے کے آپشن سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ اس کا ثبوت اب تک ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جو پی ٹی آئی نے تسلسل کے ساتھ ہارے ہیں۔ عمران خان کی پارٹی ڈسکہ اورکراچی ہی نہیں پشاور کی اپنی وہ سیٹ بھی ہاری ہے جو اس کی ہوم گراونڈ سمجھی جاتی تھی یعنی مہنگائی، بے روزگاری، بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے عوام کی چیخیں نکلنا اور پی ٹی آئی کے ووٹروں کی آنکھیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ یہ پی ٹی آئی کو واضح پیغام ہے اور ہم تجزیہ نگار بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان مستقبل کی ریس کے گھوڑے ہوتے تو ان کی سیاسی ٹانگیں یوں نہ توڑی جاتیں، یہ گھوڑا تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے، اسے طاقت کے جو انجکشن لگائے گئے تھے وہ اپنا اثر کھو رہے ہیں۔
ہمارے شعبہ سیاسیات کے استاد کہتے ہیں کہ کوئی چائے والا وزیراعظم بن جائے یا کوئی بلے والامگربرصغیر پاک وہندمیں ایک راہول گاندھی اور دوسرے بلاول زرداری، ان کے ہاتھوں میں وزارت عظمیٰ کی لکیریں ہی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقتدا ر اسی کو ہی ملے گا جو پنجاب میں اپنا شئیر لے جا سکے گا اور پیپلزپارٹی کی پنجاب، کے پی کے میں وہ حالت ہے جو جماعت اسلامی کی ملک بھر میں ہے۔ ابھی میں چند روز پہلے پروفیسر نعیم مسعود کی پیپلزپارٹی کی پنجاب کے ایک ایک ضلعے میں جانے والے ناموں والی لسٹ پڑھ رہا تھا تو اندازہ ہو رہا تھا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں یہ پارٹی کونسلر لیول کی اہمیت کی حامل بھی نہیں رہی۔ ایک راز کی بات بتاوں کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پیپلزپارٹی نے پنجاب میں اپنے سیاسی او رجمہوری سو چ کے حامل ووٹر کی توجہ پھر حاصل کرنا شروع کر دی تھی مگر بلاول کی منتخبہونے کی شدید خواہش نے پھر ایسی تیسی کر دی۔ کسی نے پیپلزپارٹی کی پنجاب میں کہانی سننی ہو تو سابق رکن قومی اسمبلی اور پارٹی کے فنانس سیکرٹری اورنگزیب برکی سے سن لے مگر یہ فکر ان کو کرنی ہے جنہوں نے بے بی بلاول کو منتخب کیا ہے۔ میرے خیال میں بلاول کو پرائم منسٹر سلیکٹڈ بنانے کے لئے پنجاب سے الیکٹ ایبلز کو پی پی پی کی راہ دکھائی جا سکتی ہے۔ جنوبی پنجاب سے سیٹیں بھی نکالی جا سکتی ہیں۔ بلوچستان کے ہمیشہ سے اقتدار پسندوں، کے پی کے سے اے این پی وغیرہ کے ساتھ مل کر ماحول بنایا جا سکتا ہے، میرے دوست شوکت بسرا کو بھی وہاں سے کچھ نہ ملنے پر اب واپسی کی راہ نکالنی چاہئے۔
مجھے بطور تجزیہ نگار یوں لگ رہا ہے کہ ہماری سیاسی تاریخ کولہو کے بیل کی طرح اسی دائرے میں اپنے چکر کاپھر آغاز کرنے لگی ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے یہ کہتا چلوں، پی پی پی نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی ہلاکت کی وجہ سے پارٹی کے بھولے ہوئے ماضی اور کردارکو پھر یاد دلا دیا ہے جب بھٹو مرحوم نے سیاست ہی غیر جمہوری حکومت کے وزیر کے طور پر شروع کی اور جب خوداقتدار لیا تو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر لیا۔ میں نے ان کا بطور وزیراعظم دور نہیں دیکھا مگر جتنا مطالعہ کیا اور جتنا جانا سنا، میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ فسطائیت اور انتقام میں عمران خان سے دس، بارہ گنا آگے تھے۔ ہم جس بدنام ترین این آر او کا ذکر کرتے ہیں وہ بھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پارٹی کے لوگوں کے لئے اپنے وقت کے آمر مشرف سے ہی لیا تھا اور یہ کہنے میں عار نہیں کہ پیپلزپارٹی، محترمہ کی زندگی میں ہی سلیکٹ ہوچکی تھی۔ ایسے میں اگر بے بی بلاول سلیکٹ ہوتے ہیں تو کوئی انوکھی یا اچنبھے والی بات نہیں۔ ہر مارشل لا کے بعد پیپلزپارٹی نے ہی اقتدار سنبھالا ہے۔ اس کے ناکام ہونے کے بعدہی دوسری سیاسی قوتوں کو موقع ملا ہے، چلیں، ایک بار پھر وہی کھیل اگلی نسل کے ساتھ دیکھتے ہیں۔