یہ سوال پاک فوج کے بھگوڑے عادل راجا نے سوشل میڈیا پر پوچھا کیا تُم پاکستانی فوج کا احترام کرتے ہو۔ اس سوال کے جواب میں سوال ہے کہ کیا پاکستان کو اپنا گھر سمجھنے والوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن بھی موجود ہے، اگر وہ اپنی فوج سے محبت اور اس کا احترام نہیں کریں گے تو کیا وہ امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کی فوجوں کا احترام کریں گے۔
نوے کی دہائی کے آخر میں روزنامہ مساوات کے چیف رپورٹر آغا افتخار مرحوم کے ساتھ میرا نکلسن روڈ پر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی رہائش گاہ پر جانا بہت بڑھ گیا تھا۔ نواب صاحب اپنے سگار سے شغل کرتے، حقے کی گڑگڑ ہوتی اور ہم ان کے پاس بیٹھ کے چائے پیتے۔ اس دوران دنیا بھر کی باتیں ہوتیں۔ نوابزادہ صاحب سے بڑھ کے فوجی آمریتوں کا مخالف کون ہوسکتا ہے جن کی عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری۔
ان کے بارے ایک گھڑی گئی روایت مشہور ہے کہ نوابزادہ جیسا کوئی بندہ جہاز کے ڈوبنے کے بعد تیرتا ہوا سمندر میں کسی بڑے بے آباد جزیرے پر جا پہنچا۔ اس نے ساحل پر قدم رکھا اور ساتھ ہی اپنی پوری طاقت سے چیخا، اگر یہاں کوئی حکومت موجود ہے تو سن لے، میں اس کی اپوزیشن ہوں۔ نوابزادہ مرحوم کہا کرتے تھے ایک سیاسی جماعت ناکام ہوجائے تو اسے دوسری سیاسی جماعت ری پلیس کرتی ہے اور ایک فوج ناکام ہوجائے تو اسے دوسری فوج۔ وہ کہتے تھے ہم اپنی فوج کو ناکام نہیں دیکھنا چاہتے سو ہمارا اس سے سیاسی اختلاف بھی ہے تب بھی یہ ہماری فوج ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔
بات اس بھگوڑے کی ہورہی ہے جو واقعی کسی دوسری ملک کے فوج کے ساتھ ہے، شائد اسرائیل کہ اس کی گولڈ سمتھ فیملی کے ساتھ تصاویر بھی موجود ہیں یا شائد انڈیا کہ وہ بہت ساری خرافات ایسی بکتا ہے کہ بھارت کے نام نہاد دفاعی تجزیہ کار بھی نہیں بکتے۔ میرے پاس اس سوال کے کئی جواب موجود ہیں اور سب سے پہلا جواب یہی ہے، ہاں، میں اپنی فوج اور اپنے وطن سے محبت نہیں کروں گا تو مجھے کسی دوسری فوج سے محبت کرنا پڑے گی اور یہ کام محب وطن نہیں میر جعفر، میر صادق کرتے ہیں، غدار اور ففتھ کالمسٹ کرتے ہیں۔
میرا دوسرا جواب بھی یہی ہے، ہاں، میں اپنی فوج کا احترام ہی نہیں بلکہ محبت بھی کرتا ہوں کہ میری فوج اس وقت دنیا کی سب سے مشکل ترین اور طویل ترین لڑائی لڑ رہی ہے جو دہشت گردی کے خلاف ہے۔ یہ وہ لڑائی ہے جسے لڑتے لڑتے امریکہ جیسے ملک کی فوج دم دبا کے بھاگ گئی ہے اور افغانستان انہی طالبان کے حوالے کر گئی ہے جن کے خلاف وہ لڑ رہی تھی۔ میں کسی بھی سیاسی وابستگی اور نظرئیے سے بالاتر ہو کے اپنی فوج کا معتقد ہوں کیونکہ اس فوج کے افسر اور جوان اُن دہشت گردوں کا راستہ روکنے کے لئے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں جو سرحد پار کرتے ہیں اور یہاں آ کر یہ پوچھے بغیر کہ تمہارا تعلق مسلم لیگ نون سے ہے، پیپلزپارٹی سے ہے یا جے یو آئی سے ہے، حملہ کر دیتے ہیں، ہر سیاسی جماعت کے شہریوں کو نشانہ بنا دیتے ہیں، ان کے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوائیں بنا دیتے ہیں۔
میں اگر فوج کے ساتھ کھڑا نہ ہوں تو کیا میں دہشت گردوں کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں۔ میں امن کے ساتھ کھڑا نہ ہوں تو کیا بدامنی کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں۔ میں اگر بلوچوں کی خوشحالی کے نقیب سی پیک، گوادر اور ریکوڈک جیسی تعمیر کے ساتھ کھڑا نہ ہوں تو ان کے خلاف تخریب کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں؟ میں اپنے شہید فوجیوں اور شہریوں کی ماؤں کے ساتھ نہ کھڑا ہوں تو کیا ماہرنگ لانگو کے بی بی سی پر کئے ہوئے ڈراموں اور مگر مچھ کے آنسوؤں کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں۔
میں پاکستان کی فوج کے ساتھ اس لئے ہوں کہ میں قاتل کی بجائے مقتول کے ساتھ ہوں، میں ظالم کی بجائے مظلوم کے ساتھ ہوں۔ میں ان پنجابی مزدوروں کے ساتھ ہوں جنہیں شناختی کارڈ دیکھ کے قتل کر دیا جاتا ہے۔ میں جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنانے والوں کے ساتھ نہیں بلکہ یرغمالیوں کے ساتھ ہوں، کسی اگر مگر اور کسی منافقت کے بغیر انہیں رہائی دلانے والوں کے ساتھ ہوں۔
تم پوچھتے ہو میں اپنی فوج کا احترام کرتا ہوں تو جواب ہے، ہاں، ہر حلال کا جنا یہی کرتا ہے۔ اس وقت کلمہ طیبہ کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی بائنڈنگ فورس یہی فوج ہے ورنہ یہاں شیخ مجیب بننے کے خواہشمندوں نے فکری مغالطوں کے طوفان برپا کر رکھے ہیں اور ہمیں ان کا نظریاتی اور عملی دونوں سطح پر ہی مقابلہ کرنا ہے۔ ہماری فوج محض پاکستان کے جغرافیے کا دفاع ہی نہیں کر رہی بلکہ بقا اور سلامتی کی ضمانت بھی بن رہی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ عادل راجوں اور گروؤں سمیت جو بھی پاکستان کی بنیاد کمزور کرنا چاہتا ہے، اسلام کے قلعے کو گرانا چاہتا ہے وہ بہت چابکدستی اور مہارت کے ساتھ سب سے پہلے اس کی فوج کو نشانہ بناتا ہے، اسے کمزور کرتاہے، جیسے لیبیا میں ہوا، عراق میں ہوا۔
کیا کہا کہ تم فوج نہیں اس کے سیاسی کردار کے خلاف ہو۔ اگر تم سچے ہوں تو پھر تمہیں فیض حمید کی فوج کی فوج کے خلاف ہونا چاہئے تھا جس کی کٹھ پتلی ثاقب نثار تھا، جس نے رجیم چینج کا وہ آپریشن کیا جس میں مینار پاکستان کے جلسے اور ڈی چوک کے دھرنے کروائے گئے، جنوبی پنجاب اتحاد بنا اور آر ٹی ایس بٹھا کے ملک پلے بوائے کے حوالے کر دیا۔ اس فوج نے جنرل باجوہ کے دور میں ہی سیکٹر کمانڈر لیول پر مشاورت کے ذریعے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ سیاست اور عدالت میں مداخلت نہیں کرے گی۔
سنو! میں اس فوج کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں جس کا سربراہ ایک حافظ قرآن ہے۔ میں اس فوج کا مُرید ہوں جس کے بیٹے شہادتیں پیش کر رہے ہیں۔ میں اس فوج کا احترام کرتا ہوں جس کے بارے کوئی سیاستدان، کوئی جج اور کوئی بیوروکریٹ یہ نہیں کہتا کہ اس کے میجر، کرنل، بریگیڈئیر انہیں ڈکٹیشن دیتے ہیں۔ میں اس فوج کا احترام کرتا ہوں جو ملکی سرحدوں کو محفوظ بنا رہی، غیر قانونی نقل و حرکت اور سمگلنگ کا خاتمہ کر رہی ہے۔ میں اس فوج کا احترام کرتا ہوں جو قبضہ گروپوں اور پراپرٹی مافیاؤں کو تحفظ دینے کی بجائے ان کا گریبان پکڑ رہی ہے۔
میں اس فوج کا احترام کرتا ہوں جو میرے تحفظ میں ایران اور افغانستان تک جا کے کارروائی کرتی ہے اور کسی سے نہیں ڈرتی۔ میں اس فوج کا احترام کرتا ہوں جو احتساب کو لیفٹیننٹ جنرل کی سطح پر لے آئی ہے جس کے بارے پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ میں اس فوج کا احترام کرتا ہوں جو مکمل طور پر آئین کے تابع ہے جو بابائے جمہوریت کا خواب تھا اور جس نے نو مئی کی دہشتگردی کے باوجود مارشل لاءنہیں لگایا بلکہ انصاف کے لئے آئین اور عدالت کا راستہ چنا۔ اب آئین کے مطابق ہی زراعت، معیشت اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں سول حکومت کی ممدو معاون ہے۔