شور بپا ہے کہ فوجی عدالتو ں میں عام شہریوں کا ٹرائل غلط ہے، یہ عدالتیں صرف فوجیوں کو ہی سزائیں دے سکتی ہیں۔ عام شہریوں کے لئے عام جوڈیشئل سسٹم موجود ہے اور دلیل یہ بھی ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون میں آرمی ایکٹ سے بھی زیادہ سخت سزائیں موجود ہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے لوگوں کو سب سے بڑی معاونت پیپلزپارٹی کے دو سینئر وکیلوں لطیف کھوسہ اور اعتزاز احسن کی مل رہی ہے۔ پی ٹی آئی والے کم بول رہے ہیں اور پی پی پی کے منحرفین زیادہ۔ یہ بات پہلے ہی سب کو معلوم ہے کہ اعتزاز احسن پیپلزپارٹی کی وکٹ پر ہمیشہ دوسروں کا کھیل کھیلتے آئے ہیں۔ کیا دلچسپ ہے کہ کبھی وہ نواز شریف کا کیس لڑا کرتے تھے اور اب وہ عمران خان کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔
پہلے ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ کیا فوجی عدالتوں کا قیام غلط ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مخصوص معاملات کےلئے مخصوص عدالتوں کا تصور آئینی اور عدالتی اقدارو رووایات کا حصہ رہا ہے جیسے بینکنگ کورٹس، جیسے انسداد دہشت گردی کی عدالتیں، جیسے سرکاری ملازمین کے لئے عدالتیں لہٰذا فوجی عدالتیں عین آئینی اور قانونی تصور ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل ہوسکتا ہے تو اس کا جواب بھی آئین، قانون اور روایات کی روشنی میں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا سڑکوں پر دنگا فساد اور دہشت گردی کرنے والے تمام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے ہیں تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ صرف انہی شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں کے پاس بھیجنے کی سفارش کی گئی جنہوں نے کینٹ کی حدود میں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ورنہ اس سے پہلے زمان پارک اور اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی جلاؤ گھیراؤ ہوا مگر ان میں سے کوئی بھی مقدمہ فوجی عدالتوں کے پاس نہیں گیا یعنی جو کچھ شہری علاقوں میں شہری املاک کے ساتھ کیا گیا وہ تمام معاملات شہری عدالتوں کے پاس ہی گئے۔
اس میں دوسری تفریق یہ رکھی گئی کہ خدیجہ شاہ سمیت کسی بھی خاتون اور کم عمر بچے کا مقدمہ واضح شواہد اور ثبوت ہونے کے باوجود فوجی عدالتوں میں نہیں بھیجا گیا۔ تیسرے اب تک بہت ہی کم لوگوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے جو کل تعداد کا چند فیصد ہی بنتے ہیں۔
یہ پی ٹی آئی والوں کا مقدمہ ہے کہ جی ایچ کیوراور کور کمانڈر ہاوس سمیت دیگر جگہوں پر دہشت گردی کرنے والوں کے معاملات فوجی عدالتوں میں نہ بھیجے جائیں تو اس پر سوال ہے کہ ان لوگوں نے وہ کام کر دکھایا جوستر برس سے زیادہ کی تاریخ میں انڈیا اپنی خواہش اور پینسٹھ کی کوشش کے باوجود نہیں کر سکا لہٰذا اگر انہیں دیکھا جائے تو یہ اس سے زیادہ برے ردعمل کے مستحق ہیں جو کل بھوشن وغیرہ کے لئے ہو سکتاہے۔
مجھے پی ٹی آئی والوں کو سینئر قانون دان خالد نواز گھمن کے ریفرنس کے ساتھ عرض کرنا ہے کہ 2015 میں سپریم کورٹ کے 17رکنی بنچ کا سات سو صفحات پرمشتمل فیصلہ موجود ہے جس میں گیارہ معزز ججوں نے فوج، دفاع اور دہشت گردی سے جڑے جرائم میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے حق میں فیصلہ دیا تھا، دو ججوں نے کوئی نوٹ نہیں لکھا تھا جبکہ چار ججوں نے اختلاف کیا تھا۔
اب سوال ہے کہ کیا سترہ رکنی بنچ کافیصلہ نو یا سات رکنی بنچ تبدیل کر سکتا ہے تو آئینی اور عدالتی روایات کی روشنی میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کے دوستوں کے پاس دلیل ہے کہ اس وقت دہشت گردی ہو رہی تھی، سانحہ اے پی ایس ہواتھا اور اب ایسے حالات نہیں اور میرا سوال ہے کہ کیا وہ ایسے ہی معصوم ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک کی فوج پر حملہ آور ہونے کی سنگینی کو نہیں سمجھ پا رہے؟
وہ معصوم نہیں ہیں بلکہ بہت چالاک اور ہوشیار ہیں، وہ عوام کو آئین، قانون اور حقوق کے نام پر گمراہ کرر ہے ہیں اور میرا سوال ہے کہ کیا انسانی حقوق صرف دہشت گردوں کے ہوتے ہیں؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو اس وقت بھی بیس کے قریب شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے گئے تھے تو اس وقت ان سب نے شور کیو ںنہیں مچایا تھا۔
یہ تو کوئی دلیل نہیں ہے کہ جب پی ٹی آئی والوں کا معاملہ ہو تو آئین، قانون اور انسانی حقوق کی بالادستی کے نعرے لگنے لگیں اور جب دوسرے اس کی زد میں ہوں تو ان کے منہ پر ٹیپیں لگی ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ یہ دانشورانہ بددیانتی کی بدترین مثال ہے کہ ہم دوسروں کو اپنی حکومتوں میں فوجی عدالتوں میں بھیجتے رہیں اور جب ہم اس خود اپنی حرکتوں کی وجہ سے اس شکنجے میں آئیں تو ہمارے پاس جواز اور دلائل آجائیں۔
اگر آپ ذاتی طو ر پر میری رائے جاننا چاہیں تو میں عام حالات میں عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف ہوں مگر میری دلیل یہ ہے کہ یہ عام حالات نہیں ہیں اور خاص حالات میں خاص قوانین امریکہ سے برطانیہ تک کی پارلیمانوں اور عدالتی نظاموں کا حصہ رہے ہیں۔ کیا نائن الیون کے بعد امریکا جیسے جمہوریت نے اپنے ملک کو بچانے کے لئے خصوصی اقدامات نہیں کئے جو ان کے آئین اور قانون کے خلاف بھی تھے۔
جی ایچ کیو، کورکمانڈر ہاؤس اور شہدا کی یادگاروں پر حملے بغیر منصوبہ بندی کے نہیں تھے۔ اس پر تحریک انصاف کے چیئرمین دو طرح سے چارج شیٹ ہوتے ہیں۔ ایک انہوں نے اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف باقاعدہ ماحول بنایا، انہیں ڈرٹی ہیری اور اس طرح کے دیگر ناموں سے پکارتے رہے دوسرے انہوں نے ان حملوں کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی ورنہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ راولپنڈی، لاہور، سرگودہاسمیت دیگر شہروں میں تمام مظاہرین کا رخ ایک ہی سمت میں ہوتا۔
مجھے اس واردات پر بہت زیادہ افسوس ہے اور اتنا ہی افسوس مقبول لیڈر ہونے کے دعوے کی عاقبت نااندیشی پر ہے۔ اس کے مجنونانہ بیانات اور مجہولانہ اقدامات نے غیر جانبدار ہوجانے والے ریاستی ادارے کو ایک مرتبہ پھر فریق بنا دیا۔ میں پھر کہوں گا کہ تمام جھگڑے بھلائے جا سکتے ہیں اور تمام دشمنیاں ختم ہوسکتی ہیں لیکن اگر آپ کسی کے گھر تک پہنچ جائیں، اسے جلا کے راکھ کر دیں، اپنے دشمنوں کو خود پر ہنسنے کا موقع دیں تو پھر یہ معاف نہیں ہوسکتا۔
میرے سامنے پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ ان کے بندے اٹھائے جا رہے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ آپ نے جو کام کیا ہے اس کے نتیجے میں مارشل لا نہیں لگا تو یہ بھی غنیمت ہے، واقعی ایک میچور رسپانس ہے جس کے بعد آپ عدالتوں ریلیف لے رہے ہیں، اپناجھوٹا سچا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔
گھر تک پہنچنے والی بات پر کہوں کہ میں نے اس وقت بھی کالم لکھے تھے اور کہا تھا کہ نواز شریف کے گھر کے باہر جلسے نامناسب ہیں، سیاست کو سیاسی جگہوں پر رکھیں، مجھے زمان پارک میں ہونے والے واقعات کا بھی افسوس تھا مگر پھر ہر کسی کو دولتی جھاڑنے والے نے بم کو لات مار دی۔