خانیوال کے پیرووالہ کے مقام پر ماڈل زرعی فارم میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے قومی تعمیر و ترقی میں چین کی نیشنل آرمی کا بھی حوالہ دیا اور یہ بات درست ہے کہ اکیسویں صدی کی فوج صرف جنگی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہے، اس لیے امریکا، چین اور اسرائیل جیسے ترقی یافتہ ممالک کی افواج اضافی کردار ادا کرتی ہیں، جن میں سفارتی اور ترقیاتی کام جیسے معاشی ترقی، اداروں کی تعمیر، حکمرانی قانون، اندرونی مفاہمت کو فروغ دینا، اچھی حکمرانی، لوگوں کو بنیادی خدمات فراہم کرنا، اور سیکورٹی کے ساتھ اسٹریٹجک مواصلات جو کہ مسلح افواج کا بنیادی مقصد ہے۔
مجھے ماڈل فارم میں جنرل سید عاصم منیر کی کہی ہوئی ایک بات بار بار یادآ رہی ہے جس میں انہوں نے ریاست مدینہ، کے حوالے سے کسی کا نام لئے اور کسی پر تنقید کئے بغیر بنیادی تصورکو درست کیا۔ وہ قرآن پاک اور اسلامی تعلیمات پر عبور رکھتے ہیں اور حافظ سید عاصم منیر کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ہمارے بہت سارے دوست کہہ رہے تھے کہ آج کا پاکستان حافظ کا پاکستان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدینہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب شہر ہے اور اسے کسی بھی شہر کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یثرب کو ریاست طیبہ میں بدلا تھا۔ ریاست طیبہ اور ریاست طیبہ میں کئی مماثلتیں موجود ہیں۔ یہ دنیا کی تاریخ کی دو واحدریاستیں ہیں جو کلمہ طیبہ یعنی اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہ کی نبوت پر اقرار سے وجود میں آئی ہیں۔ انہوں نے ایک اور مماثلت بیان کی کہ ان دونوں ریاستوں کے قیام کے لئے ہجرت کی گئی۔ ایک ہجرت رسول اللہ ﷺ نے مکہ سے یثرب کی طرف کی اور دوسری ہجرت بھارت کے مسلمانوں نے اس پاک سرزمین کی طرف، جس کے لئے جان، مال اور عزتوں کی قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
آرمی چیف، قائداعظم محمد علی جناح کے قول کا حوالہ دے کر کہہ رہے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ان ڈُو، نہیں کر سکتی تاہم وہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بہت ساری کامیابیاں گنواتے ہوئے ایک درست تشخیص بھی کر رہے تھے کہ ہماری خامی مینجمنٹ کی خامی رہی اور اب اسی خامی، کمی اور کوتاہی کو دور کرنا ہے۔ پاکستان آرمی اپنی مینجمنٹ اور ڈسپلن کے حوالے سے دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے اور اگر مینجمنٹ اور ڈسپلن کا یہی ماڈل باقی شعبوں پر بھی لاگو ہوجائے تو ہم سٹیٹ آف دی آرٹ سٹرکچر بنا سکتے ہیں۔
بہت سارے لوگ اس پر معترض ہیں کہ فوج ہی یہ سب کیوں کرے اور میرا سوال ہے کہ فوج اپنے ملک کے لئے یہ سب کیوں نہ کرے کہ وہ کوئی مارشل لا نہیں لگانے جا رہی۔ پاکستان کی فوج پاکستان کی سول حکومت کے ساتھ مل کرمحنت اور جدوجہد کرنے جا رہی ہے اور اس کے کئی لیول ہیں جیسے اندرونی طور پر زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بیرونی طور پر ہمارا سفارتی محاذ۔ کیا یہ امر ایک حقیقت نہیں ہے کہ چین، سعودی عرب، یو اے ای ہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے میں فوج نے ایک شاندار قومی کردار ادا کیا ہے تو ہم اپنی اس طاقت اورصلاحیت کومثبت طور پر کیوں استعمال نہ کریں۔
ہمیں حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کی اس وقت دنیا بھر کے سامنے اہمیت نہ ہماری جمہوریت کی وجہ سے ہے اور نہ ہمارے سب سے بڑا اثاثے ہماری یوتھ کی وجہ سے کیونکہ ہم اس خام ما ل کو تراشنے اور اس کی ویلیو ایڈیشن میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ چار سے پانچ برس کی تاریخ بہت افسوسناک ہے جس میں ہم اپنے ایم بی بی ایس کرنے والی کریم یوتھ کو بھی نوکریاں تک فراہم نہیں کرسکے۔
ہماری اہمیت اس وقت ہمارے اس جغرافیے کی وجہ سے ہے۔ اس جغرافیے میں ہم چین، افغانستان، ایران اور انڈیا میں گھرے ہوئے ہیں اور یہی دنیا کی ہم میں سب سے بڑی دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک سے آنے والے سربراہان ہوں یاسفارتکار وہ سب سے زیادہ ہمارے فوجی سربراہان سے ملنا چاہتے ہیں۔ میرا تجزیہ ہے کہ ہم نے اسے مثبت طور پر اپنی طاقت بنانا شروع کر دیا ہے اوراس میں پاک فوج کے پالیسی شفٹ، کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جیسا میں نے پہلے ذکر کیا کہ سول اور ملٹری ریلیشنز کی کامیابی کے لئے ایک ایسی حکومتی ٹیم ضروری ہے جو غیر معمولی محنتی اور دیانتدار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہتر آئی کیو لیول بھی رکھتی ہو، جو اپنی انا اور مفاد سے نکل کر معیشت اور جمہوریت پر نئے عمرانی معاہدے کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔
میرے خیال میں اس وقت وفاق کی سطح پر شہباز شریف کے ساتھ پنجاب میں محسن نقوی کی صورت میں ایک بہترین کمبی نیشن موجود ہے۔ شہبازسپیڈ پہلے ہی مشہور ہے اوروہ خود محسن نقوی کی سپیڈ کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت ایسی ہی سپیڈوں کی ضرورت ہے جو پچھلی لیٹ، نکال سکیں۔ بہت سارے لوگوں کے لئے اصل مسئلہ ہی یہ کمبی نیشن ہے جس میں مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی، جے یو آئی جیسی سرد و گرم چشیدہ جماعتیں موجود ہیں۔
مجھے دو برس پہلے اپنے لکھے ہوئے کالم یاد آ رہے ہیں جن میں، میں نے نواز لیگ کو محاذ آرائی چھوڑ کے مفاہمت کی سیاست کے مشورے دئیے تھے اور کہا تھا کہ ان کا نعرہ مزاحمت نہیں بلکہ ڈیویلپمنٹ ہے۔ نواز لیگ کو اپنے نعرے اور بیانئیے پر واپس آنے کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا جس اس وقت کم آئی کیو لیول والوں نے بہت طعنے دئیے مگر آج اگر پاکستان کا منظرنامہ بدلا ہوا ہے تو اسی تبدیلی کی وجہ سے ہے۔
پاکستان کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور اپنے پروفیشنل ازم کے حوالے سے ٹاپ پر جانی جاتی ہے بلاشبہ پاکستانی فوج پاکستان کی تعمیر وترقی کے حوالے سے جو کردارادا کرسکتی ہے اس کی طرف خاطر خواہ دھیان ہی نہیں دیا گیا۔ سیاستدانوں نے فوج کو ہمیشہ اقتدار میں آنے کا ذریعہ ہی سمجھا، ملک بچانے اور مضبوط بنانے کا نہیں۔ یہ تھیم کم از کم مجھے پہلی باراپنی زندگی میں نظر آ رہا ہے۔ اب دنیا بھر میں جنگیں فوجوں کی کم اور سرمائے کی زیادہ ہوتی ہیں۔ کسی ریاست کی طاقت اس کی جی ڈی پی سے دیکھی جاتی ہے اوراس کے انفراسٹرکچر اور جدت کے معیارسے۔
روایتی جنگیں اپنا رخ موڑ رہی ہیں اور پاک فوج نے اس تبدیلی کو بہت اچھی طرح سے محسوس کر لیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ فکری بنیادوں پر آرمی چیف کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے میں سب سے اہم ان کا مقابلہ ہے جو ففتھ کالمسٹ کا کردارادا کررہے ہیں۔ یہ ہماری صحافت کے وہ گھس بیٹھئے ہیں جن کے اعمال اور الفاظ سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے جیسے ایک وہ شخص جس کے بارے مشہور ہے کہ وہ دوبئی میں اپنے باپ کے مرنے کے بعد اپنے حق میں وراثت کے جعلی کاغذات پراس کی لاش کے انگوٹھے لگواتا ہوا پکڑا گیا، اب اسے پاکستانیوں کی اپنی فوج سے محبت مشکوک نظرآتی ہے۔
وہ گمراہ کن پیغام کے ساتھ ویڈیوز شیئر کرتا ہے جس میں واہگہ بارڈر پر تقریب میں پاکستانیوں کا جوش و جذبہ دشمن سے کم دکھایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ فوج اور قوم کے درمیان دراڑ پیدا کر رہے ہیں اور اب فکری مغالطوں کی انتہا ہوگئی ہے۔ مجھے پروین شاکر یاد آ گئیں جنہوں نے کہا، کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے، پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے، اور اس شخص کے لئے اسی غزل کا شعر تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے، ایسے سخن فروش کو اب مرجانا چاہئے،۔
بات صرف اس تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک گرو ہ ہے جس کے سیاسی اور مالی مفادات پاکستان کی فوج سے دشمنی سے جڑ گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو مرنے کے بعد کیا ہوگا جیسی ویڈیوز بنا کے ہی کمانا چاہئے تھا مگر انہوں نے صحافت کا لبادہ اوڑھ لیا اور ایسے بھی جو چاچا کپی کے طور پر مشہور ہیں، اس لفظ کے استعمال پر معذرت مگر ا س سے بہتر ان کی عکاسی ممکن ہی نہیں۔ مجھے کسی نے کہا کہ تم پاکستان کی فوج کی زبان بول رہے ہو۔ میں نے جواب دیا الحمدللہ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستان کی فوج کی زبان بول رہا ہوں او ران پر لعنت بھیجتا ہوں جو بھارت کی فوج کی زبان بول رہے ہیں۔
میں نے جنرل سید عاصم منیر کو سنا اور مجھے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو رہنے والے تین سابق آرمی چیف یاد آ گئے۔ مجھے ان کی پوری تقریر میں جنرل ایوب خان سے زیادہ ڈیویلپمنٹ، جنرل ضیاءالحق سے زیادہ اسلامیت اور جنرل پرویز مشرف سے زیادہ کمٹ منٹ نظر آئی۔ ان کا سب سے شاندار پہلو رجائیت پسندی ہے، وہ ناامید نہیں، وہ گلاس کو آدھا خالی نہیں آدھا بھرا ہوا دیکھتے ہیں، اس پر کل بات کریں گے۔ (جاری ہے)