Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. General Syed Asim Munir Ka Vision (4)

General Syed Asim Munir Ka Vision (4)

خانیوال کے پیرووالہ ماڈل زرعی فارم میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے خطاب کی سب سے اہم اور طاقتور بات ان کے ادراک و فہم میں کسی ابہام کی عدم موجودگی کے ساتھ ان کی رجائیت پسندی تھی۔ وہ مسائل سے انکار نہیں کررہے تھے مگر وہ گلاس کو آدھا قرار دینے کی بجائے اسے آدھا بھرا ہوا کہہ رہے تھے۔ نفسیات اور سماجیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ آپ آدھی کامیابی اسی وقت حاصل کر لیتے ہیں جب آپ اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کا ادراک کر لیتے ہیں۔ ایک شعر ہے۔

اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

اور اسی موضوع پر ایک موٹیویشنل سپیکر نے کہا کہ جب آپ کسی شے کے کرنے کامصمم ارادہ کر لیتے ہیں تو رب اپنی کائنات کی ہر شے کو آپ کی مدد پر لگا دیتا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے، ستر برسوں سے بنجر پڑی ہوئی بے آبادزمینوں کو سرسبز وشاداب کرنے، نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈالر کمانے کی صلاحیتیں دینے اورکان کنی کے ذریعے کے زمین میں چھپے ہوئے خزانوں کو نکالنے کے بارے فوکسڈ، نظر آئے۔ پاک فوج اس سے پہلے ڈیفنس پروڈکشن میں بھی حیران کن نتائج دے چکی ہے۔ ہم اپنے بارے وہ تضاد ختم کرنے جا رہے ہیں کہ ایک طرف تو ہم ایٹم بم بنا لیتے ہیں اور دوسری طرف ایک سوئی کے لئے بھی چین سے امپورٹ کرنے بارے سوچتے ہیں۔

خود پر اعتماد کی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم اوورکانفیڈنس کہلاتی ہے اور یہ انسان کو شرمندہ کرتی ہے مگر دوسری قسم سیلف کانفیڈنس کے نام سے جانی جاتی ہے جو انسان کوترقی اور کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ ان دونوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی قسم میں وہ طالب علم آتے ہیں جو امتحان کی تیار ی نہیں کرتے مگر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فرسٹ ڈویژن لے لیں گے اور دوسری قسم وہ ہے جو سلیبس کے مطابق سوالوں کے جواب تیار کرتے اور پھر امتحان گاہ کا رخ کامیابی کے یقین کے ساتھ کرتے ہیں۔

میں فوجی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ایک مختصر مدت میں ساڑھے بائیس ہزا ر ایکڑ پر مشتمل فارم کو تیار دیکھ کرکہہ سکتا ہوں کہ ہماری تیاری مکمل ہے۔ ہم نے نمونے کا امتحان پاس کر لیا ہے اور اب حقیقی امتحان کے لئے تیار ہیں۔ آج مجھے اس کالم میں اپنی تین پچھلے کالموں پر اٹھائے گئے کچھ اعتراضات کے جواب بھی دینے ہیں جس میں سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ آپ پاک فوج کی زبان بول رہے ہیں تو میں پہلے ہی کہہ چکا کہ مجھے یہ بات زیادہ اچھی لگتی ہے کہ میں پاک فوج کی زبان بولوں بہ نسبت یہ کہ میں بھارتی فوج کی زبان بولوں اور اپنی فوج پر تنقید کروں، مجھے اپنی فوج پر فخر کرنے میں نہ کوئی ہچکچاہٹ ہے اور نہ ہی شرمندگی، ہاں، میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ فوج کو اپنی آئینی حدود سے باہر سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور ایک سول حکومت کے ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی میں کردارادا کرنا چاہئے۔

میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاک فوج نے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے میں کوئی کردارادا نہیں کیابلکہ اس سے بھی بڑھ کے، پاک فوج نے عمران خان کو اس کے بار بار مداخلت کرنے کی آوازیں لگانے کے باوجود عدم اعتماد میں اتحادی واپس لا کر نہیں دئیے بلکہ سیاسی قوتوں کو سیاسی فیصلے کرنے دئیے۔ مجھے دہرانے دیجئے کہ عمران خان نام کے اناڑی سیاستدان نے اپنی نااہلی سے ایک مرتبہ پھر مارشل لا کی راہ ہموار کر دی اور اگر پاک فوج اپنے آئینی کردار کے ویژن میں پختہ نہ ہوتی تو اس وقت تک جمہوری نظام لپیٹا جا چکا ہوتا۔

میں یہ تجزیہ بھی دے سکتا ہوں کہ اگرچہ آرمی چیف نے اپنی تقریر میں ایک بھی لفظ، واضح یا ذومعنی، ہرگز ہرگز سیاسی نہیں کہا مگر میں دیکھ اور محسوس کرسکتا ہوں کہ اس پورے منظرنامے میں اب تاریخ کے نکمے اور نااہل ترین گروہ کے لئے کوئی جگہ نہیں جس نے اپنے اقتدار کے لئے وہ کام تک کر ڈالا جو بھارت اپنی فوج کے ساتھ حملہ آور ہو کر بھی نہیں کر سکا تھا، وہ دشمن بی آر بی تک کراس نہیں کر پایا تھا۔

میں نے جب یہ کہا کہ جنرل سید عاصم منیر رجائیت پسند ہیں اور مثبت باتوں پر نظر رکھتے ہیں تو اس کے پیچھے ان کے وہ الفاظ تھے جن میں وہ گندم، چاول، کپاس اور دیگر اجناس کی پیداوار میں پاکستان کی عالمی پوزیشن بتا رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ دنیا کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جن کے پاس پانی نہیں ہے اور کئی ایسے ہیں جن کے پاس ز مین نہیں ہے جبکہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ وہ پاک فوج کی کان کنی کے شعبے میں خدمات بارے ہی نہیں کہہ رہے تھے بلکہ وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ریکوڈک سے پیداوار کے بعد ہم دنیا میں معدنیات نکالنے میں پہلے نمبر پر آجائیں گے، وہ تانبے کا خاص طور پر ذکر کر رہے تھے۔

میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ ان کی باتیں اس شخص جیسی ہرگز نہیں تھیں جس نے کہا تھا کہ سمندر میں سے ہمیں گیس مل گئی ہے اورپھر اس نے کہا کہ وہ گیس لیک ہوگئی ہے۔ دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک وہ شخص تھا جو دوپہر کو سو کے اٹھتا تھا اور سہ پہر کو ایوان وزیراعظم پہنچتا تھا اور دوسری طرف وہ ہیں جنہیں نیند ہی نہیں آتی، جو چوبیس گھنٹوں میں اڑتالیس گھنٹوں کاکام کرنے کے عادی ہیں۔

میرے صحافی، دوستوں نے پوچھا کہ تم نے آرمی چیف کا موازنہ ماضی کے تین مارشل لا لگانے والے فوجی سربراہان سے ہی کیوں کیا تو اس کا جواب ہے کہ صرف اس لئے کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ز رہے۔ ہم ان سے اتفاق کریں یا اختلاف، انہوں نے اپنے ویژن دئیے، ملکی ترقی پر اپنے اپنے انداز میں اثرات مرتب کئے، ان تینوں کی اپنی اپنی ایک پہچان ہے، ان تینوں کے ساتھ ایک، ایک ورثہ ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ موجودہ آرمی چیف بھی مارشل لا لگارہے ہیں۔ اس بارے آئی ایس پی آر بار بار تمام مفروضوں اور افواہوں کی تردیدیں کر چکا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر مارشل لا لگنا ہوتا تو کچھ احمقوں کی مہم جوئی کے بعد نو مئی کی رات ہی لگ چکا ہوتا۔ فوج اپنے فیصلے کا اعلان کرچکی کہ وہ کسی غیر آئینی مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی اوراس نے میرے دل میں اپنی فوج کے لئے محبت، عقیدت اور احترام کوسو گنا بڑھا دیا ہے۔ اب میرا اپنی فوج کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں کیونکہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کے اب یہ پورے پاکستان کی فوج ہے، دشمن کے سامنے ہر پاکستانی کی طاقت ہے مگر یہ از حد ضروری ہے کہ کوئی دوسرا بھی اس سلسلے میں دشمن کی بولی نہ بولے، اس کی خوشی کا سامان نہ کرے کیونکہ ہم دوستوں اور دشمنوں کے بارے واضح رائے رکھتے ہیں۔

ایک اعتراض بہت عجیب وغریب ہے کہ فوج ان بنجر اور بے آباد زمینوں کوکیوں آباد کررہی ہے، یہ کام سول حکومت کیو ں نہیں کرتی تواس کا جواب وہاں وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کی اپنی تقریر میں تھا کہ وہ صوبائی اور وفاقی وزیر ہونے کے باوجود اپنے علاقے کی زمینوں پرسبز نہیں کرسکے تو اب جو کرنا چاہ رہا ہے وہ بھی نہ کرے۔ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ زمینیں بنجر اور بے آباد رہیں، پاکستان قحط کی طرف بڑھتا رہا، زرعی ملک ہونے کے باوجود اجناس باہر سے منگوائی جاتی رہیں کیونکہ ان کے دل میں مخصوص مقاصد کے لئے اپنی ہی فوج کے خلاف کینہ اور بغض ہے۔ وہ شریکے، کی روایتی مثال بنے ہوئے ہیں کہ کس کا بھی فائدہ نہیں ہونے دینا چاہے اس کے لئے اپنا ڈھیر سارا نقصان ہوجائے۔

ہماری فوج ہماری طاقت ہے اور اگر ہم اپنی طاقت کو اپنی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک، باشعور اقوام یہی کر رہی ہیں کہ اپنے وسائل کا ایک ایک ذرہ استعمال کیا جائے۔ مجھے آرمی چیف کے قوم کی خدمت کے ویژن میں نہ کوئی قباحت نظر آتی ہے اور نہ ہی خامی۔ مجھے تو آج سیاست سے ماورا، آئینی اور اخلاقی طور پر سول حکومت کی معاون و مددگار فوج اللہ کی نعمت اور رحمت نظر آتی ہے۔

ہم نے اپنی حالت کو آپ ہی بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہی وہ فیصلہ ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ قوموں کی حالت بد ل دیتے ہیں۔ پوری قوم کو آرمی چیف کا یہ ویژن، یہ عزم اوریہ کوشش مبارک ہو۔ امن، ترقی اور خوشحالی کی ایک نئی صبح طلوع ہونے والی ہے، ان شاءاللہ تعالیٰ العزیز!