Wednesday, 26 March 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Najam Wali Khan
  4. Imran Khan Ki Rehai Mumkin Hai?

Imran Khan Ki Rehai Mumkin Hai?

پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت پارٹی کے بانی سربراہ کو جیل سے باہر لانے کے لئے تندہی سے کام کرر ہی ہے اور ا س سلسلے میں سب سے اہم کردار بیرسٹر گوہر کا ہے۔ اس ٹارگٹ پر کام خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی کر رہے ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ وہ وزیراعلیٰ بننے کے چھ ماہ کے اندرعمران خان کو رہائی دلوا دیں گے کیونکہ ان کے اعلیٰ سطح پر رابطے موجود ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ جیل سے باہر آنے کے لئے عمران خان بری طرح تائولے ہو رہے تھے اوراس کے لئے وہ ہر طرح کے حربے استعمال کرنے پر تیار تھے مگر یہ صورتحال آج سے چار سے چھ ماہ پہلے تک کی ہے۔ مثال کے طور پر اکتوبر میں خیال تھا کہ اگر ایس سی او کانفرنس سبوتاژ کر دی جائے تو اسٹیبلشمنٹ دبائو میں آ سکتی ہے مگر یہ کام نہیں ہوسکا اور اس کے بعد نومبر کی فائنل کال۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نومبر کی فائنل کال فرسٹریشن کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت کے بارے غلط گمان کی بھی انتہا تھی۔

بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کے ساتھ ساتھ ایک امید امریکہ میں ہائر کی گئی وہ لابنگ فرمز تھیں جنہوں نے ہزاروں یا مجموعی طور پر لاکھوں ڈالرز لے کر امریکہ کے تیسرے اور چوتھے درجے کے کچھ سیاستدانوں سے عمران خان کے حق میں کچھ ٹوئیٹس کروا دئیے یا ایک، وو انٹرویو ز دلوا دئیے۔ ان ڈالرز کا سب سے بہترین ریٹرن ایوان نمائندگان کی وہ قرارداد تھی جس میں امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے ایوان نمائندگان کے ارکان نے مشترکا طور پر پچھلے صدر جوبائیڈن سے مطالبہ کیا تھا وہ عمران خان کی رہائی کے لئے کردار ادا کریں۔

ہم یہ پوچھتے چلے آئے کہ امریکہ کا وہ ایوان نمائندگان جسے اسرائیل کے بدترین مظالم پر آواز بلند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی وہ پاکستان میں انسانی حقوق (یا عمرانی خانی حقوق) کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اتنا بے چین کیوں ہوگیا کہ اس کے ارکان عین انتخابات کے موقعے پر یک آواز ہو گئے۔

ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی اس قرارداد کا کوئی اثر نہیں ہوگا اور اس بارے ایک پورے کالم میں امریکی سیاستدانوں کے فروخت ہونے کے قانونی ہونے پر سوال اٹھائے تھے اور کہا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک ہمارے سیاستدانوں اور ہماری جمہوریت پر تو بہت اعتراضات کرتے ہیں مگر اپنے ارکان کے آئینی اور قانونی طور پر فروخت ہونے پراپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے عمران خان کے بارے میں کرائے پر ہی دسیتاب ایک صحافی کے سوالات پر ٹھینگا دکھانے پرواضح ہوگیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے وہ قرارداد ردی کی ٹوکری میں پھینک دی ہے۔

پس منظر پر بات کچھ زیادہ ہوگئی، اس وقت صحافتی حلقوں کے پاس اطلاعات موجود ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اب مفاہمت کے ذریعے باہر آنا چاہتے ہیں مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی پولیٹیکل بلیک میلنگ کی طاقت سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتے۔ پی ٹی آئی نے اس برس اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ تمام مظاہرے ختم کر دئیے گئے ہیں جو پچھلے دو، اڑھائی برس کئے جا تے رہے ہیں۔ وہ مقتدر حلقوں کو مفاہمت کا پیغام دینا چاہتے ہیں مگر اپنے سپورٹرز کو بھی بے وقوف بنا کے رکھنا چاہتے ہیں۔ باخبر صحافیوں کی اس وقت ہنسی نکل جاتی ہے جب پی ٹی آئی کے کچھ رہنما پکا سا منہ کے کہتے ہیں کہ عمران خان ڈیل نہیں کریں گے یا ایسا ہی کچھ دعویٰ ان کے سوشل میڈیا اکاونٹس کی طرف سے کیا جاتا ہے۔

سچی بات تویہ ہے کہ انہیں مفاہمت کی ایسی کوئی پیشکش کی ہی نہیں گئی جیسی اس سے پہلے کی جاتی رہی ہے۔ یہ امریکہ کے بارے میں ایک انٹرویو میں کئے گئے یکطرفہ ایبسولیوٹلی ناٹ جیسا ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ شادی کی ایک ایسی پیشکش سے انکار جیسا ہے جو کی ہی نہیں گئی، بہرحال، بات یہ بھی نہیں کہ عمران خان جیل سے باہر آ ہی نہیں سکتے۔ میرا گمان ہے کہ اگر نو مئی کے مقدمات میں عمران خان کو سزائے موت بھی ہوگئی تب بھی فوج ان کو دی گئی یہ بڑی سزا معاف کر دے گی۔ اس کی وجہ میرا یہ یقین ہے کہ اب ذوالفقار علی بھٹو جیسا معاملہ دہرایا نہیں جا سکتا اوریہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔

عمران خان تاریخ کے اسی بڑے واقعے کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جیل میں رہتے ہوئے مہینے بھر میں سات، سات لاکھ کے کھانے اڑا رہے ہیں۔ وہ جیل میں بھی ایسے ہی رہ رہے ہیں جیسے بنی گالہ ہوں یا زمان پارک۔ وہاں سے اپنی سیاست اورسوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ ڈونرز، کو بھی چلا رہے ہیں۔

عمران خان کی رہائی میں اب دو رکاوٹیں ہیں پہلی ان کا یہ خواب کہ وہ پوری اکڑ اور طاقت کے ساتھ دوبارہ وزیراعظم بن جائیں اوراس کے لئے وہ ریاست دشمن ہر کام کریں، نو مئی ہی نہیں بلکہ ریمی ٹینسز والا بھی۔ اب وہ سب سے خوفناک کام ماہرنگ بلوچ اور ا چکزئی جیسے کرداروں کی حوصلہ افزائی کے ذریعے کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرکے اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لا سکتے ہیں مگر وہ غلطی پر ہیں۔ ان کی رہائی میں دوسری بڑی رکاوٹ ان کا سوشل میڈیا ہے جو مسلسل زہر اگل رہا ہے۔

عمران خان تب تک رہا نہیں ہوسکتے جب تک وہ ماہرنگ بلوچ، محمود خان اچکزئی جیسے کرداروں سے نہیں بچیں گے اور یہ یوٹرن ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دوسرے جب تک وہ اپنے اس سوشل میڈیا کو لگا م نہیں ڈالیں گے جو بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے اوراس کے اخراجات مبینہ طور پر گولڈ سمتھ فیملی اٹھا رہی ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا کہ عمران خان نے اسلام آباد پر پے در پے حملے کرکے اپنی طاقت آزما لی ہے۔ انہیں پتا چل گیا ہے کہ بشریٰ بی بی ہوں یا علی امین گنڈا پور یہ کتنے پانی میں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کرداروں نے پی ٹی آئی کو سیاسی ذلت دی ہے جو تاریخ میں شائد ہی کسی دوسری سیاسی جماعت کے حصے میں آئی ہو یعنی چھبیس نومبر کی رات والا فرار۔

میں پھر کہتا ہوں کہ عمران خان جیل سے باہر آ سکتے ہیں مگر اس کے لئے انہیں نو مئی کی ذمے داری قبول کرنا، معافی تو بہرحال مانگنا ہوگی اور آئندہ کے لئے آئین اور قانون کے مطابق سیاست کرنے کا یقین دلانا ہوگا۔ اگرچہ عمران خان کا کوئی گارنٹر نہیں ہوسکتا، وہ یہ بات اپنے عمل سے ہی ثابت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ کافی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ہاتھ کو اگر ملانے کے لئے بڑھا رہے ہیں تو دوسرے سے دھکا دے رہے ہیں۔ وہ رہا ہو سکتے ہیں اگر اس زعم سے باہر آجائیں کہ وہ ڈیڈھ ہُشیار، ہیں۔ وہ جتنے بھی ڈیڈھ ہشیار تھے، انہی کی وجہ سے تھے جن کے گریبان کو پڑے ہوئے ہیں۔