آپ نے ابھی تک کورونا کی ویکسی نیشن نہیں کروائی، حیرت ہے بلکہ لعنت ہے، جی جی، معذرت آپ کو لعنت کا لفظ سخت لگا مگر مجھے تو ا س شخص کے لئے یہ لفظ بھی کم لگتا ہے جو ایک وبائی، جان لیوا بیماری کا مفت کا سیلز مین بن کے گھوم رہا ہے۔ ڈاکٹرسلمان سرور، وائے ڈی اے سروسز ہسپتال کے سیکرٹری انفارمیشن ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ جب کورونا آتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ ڈاکٹرز ہی متاثر ہوتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ کورونا میں پیشنٹ لوڈ ہسپتالوں اور خاص طور پر سرکاری ہسپتالوں پر پڑتا ہے جہاں مریض بہت بڑھ جاتے ہیں مگر ڈاکٹر نہیں بڑھتے، ان کی دوسری دلیل تھی کہ فرنٹ لائن پر ڈاکٹرز ہی لڑتے ہیں اور حکومت کی سستی کہیں یا بے حسی، ہمارے ڈاکٹر بغیر زرہ بکتر کے لڑتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کورونا میں شہید ہونے والے میڈیکل پروفیشنلز کی تعداد میں پاکستان سب سے آگے ہے جو حکومت کے لئے ایک شرمناک بلکہ واہیات بات ہے، ہم کوئی مہذب معاشرہ ہوتے تو یہ بات حکومت کے لئے عبرتنا ک بن چکی ہوتی۔
میں نے ڈاکٹر سلمان سرور کی بات سے جزوی اتفاق کیا۔ میرا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز واقعی متاثر ہوتے ہیں مگر کورونا ہو یا کوئی بھی دوسرا وبائی مرض، سب سے زیادہ متاثر خود شہری اور ان کے لواحقین ہوتے ہیں۔ میری تشریح یہ تھی کہ جب کسی کو کورونا ہوتا ہے تو وہ خود ہی اسے بھگتتا ہے کوئی دوسرا نہیں۔ اب تک کی تحقیق اور اعداد وشمار کے مطابق وہ لوگ جنہوں نے ویکسی نیشن کروائی وہ کورونا کے دوسرے وار سے یا تو مکمل طور پر بچ گئے اور اگر متاثر بھی ہوئے تو نوے فیصد سے زائد ہلکے پھلکے بخار کے بعد صحت یاب ہوگئے مگر جو لوگ ویکسی نیٹد نہیں تھے ان کی تعداد کراچی سے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق خوفناک حد تک زیادہ رہی۔
نور محمد مہر، ڈرگ لائرز فورم کے صدر ہیں اور ینگ فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے بانی، زبردست آدمی ہیں۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی چالاکیوں کو پکڑتے پکڑتے اپنے اوپر سینکڑوں مقدمے کروا چکے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا کورونا کا نیا ویرئینٹ بین الاقوامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا کوئی چکر تو نہیں تو ان کا جواب معنی خیز تھا اور اپنے اندر دلیل بھی رکھتا تھا کہ اب ان کمپنیوں نے اپنی بوسٹر ڈوزز بھی تو بیچنی ہیں مگر انہوں نے میرے ساتھ گپ شپ میں ایک عجیب و غریب موقف اختیار کیا اور ویکسی نیشن نہ کروانے کے بے ہودہ عمل کو بنیادی انسانی حقوق سے جوڑ دیا، کہنے لگے کہ یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ ویکسین لگوائے یا نہ لگوائے۔
نور مہر وکیل بھی ہیں لہذا مجھے یہ بات سن کر بہت حیرت ہوئی۔ میرا سوال تھا کہ ایک شخص جو بیماری لے کر چل پھر رہا ہے یہ اس کا حق کیسے ہے کہ وہ اسے پھیلاتا پھرے اور اس کی روک تھام نہ کرے، یہ تو وہی بات ہو گئی کہ ایک شخص کو آئینی طور پر ڈرائیونگ کا حق ہے مگر کیا اس کو یہ حق ہے کہ وہ دوسروں کو کچلتا پھرے، گاڑی کی ٹکریں مارتا پھرے، خود بھی مرے اور دوسروں کو بھی مارتا پھرے۔ ہر وہ شخص جو ویکسی نیشن نہیں کرواتا اور کورونا کا کیرئیر بننے سے انکا رنہیں کرتا وہ پوری قوم کے صحت مند رہنے کے بنیادی حق کو کچلتا ہے۔ کسی کو کیا حق ہے کہ وہ اپنی جہالت کی وجہ سے مجھے بیمار کرے، موت دے؟
بات میری تشریح اورمتاثر ہونے کی ہورہی تھی، سچ تو یہ ہے کہ متاثر وہ شخص اور اس کے لواحقین ہی ہوتے ہیں جو بیمار ہوتا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ اگر آپ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے، آپ کو کورونا ہوجاتا ہے اور خدانخواستہ آپ مرجاتے ہیں تو ڈاکٹر سب سے زیادہ متاثر نہیں ہوں گے، وہ آپ کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کریں گے اور آپ کی ڈیڈ باڈی کو ایک باکس میں بند کر کے آپ کے گھر بھیج کر خود اپنے گھر چلے جائیں گے۔ سچ پوچھیے تو آپ کے رشتے دار بھی زیادہ متاثر نہیں ہوں گے جو بہت قریبی ہوں گے وہ سوئم یا بہت ہوا تو چالیسویں تک آپ کو رو لیں گے اور دوسرے تو ہنسی مذاق کے لئے آپ کے جنازے کی چارپائی کے قبرستان تک جانے کا انتظار بھی نہیں کریں گے۔ وہ مولوی بھی متاثر نہیں ہو گا جس نے آپ کو بتایا ہو گا کہ ویکسین یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تاکہ ان کے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائے اورا س کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ کی امت ختم ہوجائے۔
مولوی کی یہ دلیل کوئی نئی نہیں ہے۔ وہ اس سے پہلے پولیو کے قطروں کے حوالے سے بھی یہی کہتا رہا ہے کہ پولیو کے قطرے اس لئے ہیں تاکہ ہم مسلمانوں کے بچوں کی جنسی صلاحیت باقی نہ رہے اوریہ قطرے پی کر جب وہ جوان ہوں تو بچے پیدا کرنے کے قابل نہ رہیں۔ ا ب دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیو کے قطروں کے حوالے سے سب سے زیادہ شور خیبرپختونخواہ وغیرہ میں مچایا جاتا ہے اور وہاں حکومت بہت جتن کر کے اسی، نوے فیصد آبادی کوپولیو سے بچاو کے قطرے پلاتی ہے۔ آپ اعداد وشمار چیک کر لیجئے کہ پولیو سے بچاو کے یہ قطرے پینے والے بچے جب جوان ہوتے ہیں تو یہ پنجابیوں، سندھیوں وغیرہ سے کہیں زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ ایک ایک گھر میں آٹھ، آٹھ اور دس، دس بچے ہوتے ہیں اور میرا تویہ تحقیق کرنے کو دل چاہ رہا ہے کہ پولیو کے قطرے کہیں مردانہ طاقت بڑھانے کا کوئی خفیہ فارمولہ تو نہیں رکھتے، کسی حکیم کے کشتے کی نقل تو نہیں ہے۔
جب وال چاکنگ پر پابندی نہیں تھی تو ہر چھوٹے بڑے شہر کی ہر چھوٹی بڑی سڑک پر مردانہ کمزوری کے اشتہار ہوتے تھے اور اب بھی بہت ساری جگہوں پر ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ مردانہ کمزوری ہماری قومی بیماری ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ مشہور کر دے کہ پولیو سے بچاو کے قطرے مردانہ طاقت دیتے ہیں، مردوں اور عورتوں کے امراض مخصوصہ کا علاج کے ساتھ ساتھ رنگ گورا اور جلد بھی چکنی کرتے ہیں، یہی پروپیگنڈہ کورونا کی ویکسین کے لئے کیا جائے تو ویکسی نیشن سنٹروں پر کھڑی توڑ رش پڑ جائے گا اور حکومت کو یہ دھمکیاں دینے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کہ ویکسی نیشن کروانے والے کو ہی پٹرول ملے گا یا بغیر ویکسی نیشن والے کی سم بند کر دے گی اور یہ کہ انہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔
لوگ لائنوں میں لگ کر اور رشوتیں دے کر ویکسی نیشن کروائیں گے کہ اس قوم کا مسئلہ کینسر نہیں بلکہ وہی ہے جس کا ذکر ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ کسی دکاندار نے سگریٹ کی ایسی ڈبیا فروخت کر دی جس پر لکھا ہوا تھا خبردار تمباکو نوشی مردانہ کمزوری کا باعث بنتی ہے تو گاہک چند ہی لمحوں میں بعدواپس لوٹ آیا اور دکاندار کو ایک بڑی سی گالی دے کر بولا، ابے یہ کون سی والی دے دی ہے، کینسر والی دے ناں کینسر والی۔
حکومت سے درخواست یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس نے ویکسی نیشن نہیں کروائی اور وہ کورونا کا کیرئیر ہے اس جاہل اور بے وقوف شخص سے مجھے بچایا جائے۔ ایسے تمام مردوں اور عورتوں کو شہروں کے گرد بڑے بڑے جیل خانے یا پاگل خانے بنا کر بند کر دیا جائے، ان کا ذہنی علاج کیا جائے تاکہ وہ ویکسی نیشن کروالیں اور پڑھے لکھے، قانون پسند، مہذب اور صحتمند شہریوں کے لئے چلتے پھرتے بم نہ رہیں۔