Thursday, 01 May 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Islami Bankari Par Tanqeed Karte Ho?

    Islami Bankari Par Tanqeed Karte Ho?

    جو لوگ اسلامی بینکاری پر تنقید کرتے ہیں اور ان علمائے کرام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جنہوں نے اس کا لائحہ عمل بنا یا، اسے جائزیت دی وہ بنیادی طور پر یہ سستی، تھڑے کی باتیں کرتے ہیں جیسے یہ کہ اسلامی بینکاری کا نفع و نقصان کی بنیاد پر ریٹ روایتی بینکاری کی شرح سود سے بھی زیادہ ہے اور یہ اس لئے ہے کہ مولویوں کی لاکھوں روپوں کی تنخواہیں دینا ہوتی ہیں۔

    بینکاری نظام کی تنخواہوں میں چند علمائے کرام کو ملنے والے مشاہرے کتنا شیئر اور کتنی اہمیت رکھتے ہیں، وہ بینکنگ سیکٹر کو جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو خواہ مخواہ ٹارگٹ بنا رکھا ہے۔ ہم دل کے آپریشن کے لئے ماہر قلب کے پاس جاتے ہیں اور ایک پُل بنوانے کے لئے ماہر تعمیرات کے پاس مگر جب اسلام کی بات ہو تو، بصد معذرت، تو خود ہی امام ابوحنیفہ اور احمد رضا بریلوی بن جاتے ہیں۔

    یہ تھڑا مؤقف ہے کہ روایتی بینکوں کے سود اور اسلامی بینکوں کی نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر کھاتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، یہ ایک ہی ہیں کیونکہ ایک جیسا نفع دیتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ اس میں طریقہ کار بہت اہم ہے۔ روایتی بینک اور اسلامی بینک دونوں ہی سرمایہ کاری کرتے ہیں اورا س امر کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کے پاس موجود ڈپیازٹس جو قرض کی صورت میں جائیں، ان پر منافع ملے، یہ ایک کاروبار ہے۔ روایتی بینک اس میں یقینی مقررہ منافع رکھتے ہیں جسے رسول اللہ ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ اسلامی بینک بھی اسی لئے کوشاں ہوتے ہیں کہ وہ ایسی سرمایہ کاری کریں جس میں منافع یقینی ہو۔ وہاں پر بھی انویسٹ منٹ مارکیٹ کے ایکسپرٹس بیٹھے ہوتے ہیں۔

    ایک سوال میرے ذہن میں بہت دیر تک گردش کرتا رہا اور میں جواب ڈھونڈتا رہا کہ ہمارے بہت سارے لوگ اپنی بچتیں بینکوں میں رکھتے ہیں جیسے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقوم اور ان سے ماہانہ ملنے والے منافعے سے وہ اپنا خرچہ چلاتے ہیں۔ میں اس پر تشویش رکھتا تھا کہ اگر انہیں یقینی منافعے کی بجائے نفع و نقصان پر رکھا جائے اور کوئی بینک نقصان ظاہر کرکے بھاگ نکلے تو اسے کیسے پکڑا جائے کیونکہ ان بے چاروں نے تو اپنی جمع شدہ سرمائے کے اوپر نفع و نقصان پر معاہدہ کر رکھا ہے سو ایک بندے کیوں اسلامی بینکاری میں جا کے خطرہ مول لے کہ کوئی نوسر باز بینکار اس کی جمع پونجی ہڑپ کر جائے تومجھے دو جواب ملے۔

    پہلا یہ کہ ہر بینک کاروبار کر رہا ہے اور وہ دوسروں کے ساتھ مقابلے میں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ جان بوجھ کے گھاٹے کا کاروبار کرے جب دوسرے منافعے کا کر رہے ہوں اور جہاں تک رسک کی بات ہے تو ہم نے روایتی بینکاری کرتے ہوئے بینک بھی دیوالیہ ہوتے دیکھے ہیں، کیا وہاں بھی ہم اسلام پر ذمے داری عائد کر سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ان تمام بینکوں کے اوپرسٹیٹ بینک بطور محافظ اور ریگولیٹر موجود ہے۔

    میں روایتی بینکاری اور اسلامی بینکاری کے بظاہر ایک جیسے ہونے پر دلائل دینے لگا ہوں اور اگر آپ کو کوئی دلیل پسند نہ آئے توبراہ مہربانی درگزر کیجئے گا۔ ایک بکرا یا بیل ذبحہ کیا جاتا ہے تو اس پرتکبیر پڑھے بغیر ہی چھری پھیر دی جاتی ہے تو وہی بکرا اور بیل حرام ہوجاتا ہے حالانکہ اس کے گوشت میں کوئی فرق نہیں، چھری اور اسے پھیرنے والے میں کوئی فرق نہیں۔

    اس کی دوسری مثال یوں ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان جسمانی تعلقات محض سنت اور حدیث میں بیان کئے گئے طریقے سے ایجاب و قبول کے بعد، یعنی نکاح کے بعد، جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہوجاتے ہیں لیکن اگر بیچ میں مولوی کا پڑھایا ہوا نکاح نہ ہو تو وہی گناہ قرار پاتے ہیں حالانکہ دونوں میں جسمانی لطف ایک جیسا ہی ہے اور دونوں کا نتیجہ بھی بچہ پیدا ہونے کی صورت میں نکلتا ہے تو کیا آپ یہ کہیں گے کہ نکاح اور زنا میں کوئی فرق نہیں۔

    یہ فرق رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کا ہے، ان کی لگائی ہوئی پابندی کا ہے اور یہ ان کے لئے ہے جو دین کو اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ میں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ راغب نعیمی سمیت دیگر سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اسلامی بینکاری جائز ہے اور مجھے دین کے معاملات میں دین کے ماہرین کی رائے ہی چاہئے ہوگی، دین سے بے زار لوگوں کی نہیں۔

    چلیں، اس پر اعتماد کر لیتے ہیں کہ اسلامی بینکاری ہرگز اسلامی بینکاری نہیں ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام میں کاروبار کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔ یہ درست ہے ہمیں ان قرضوں میں جو ایک فرد اپنی مجبوری کی وجہ سے ذاتی استعمال کے لئے لیتا ہے اوراس پر سود اس کی زندگی اجیرن کردیتا ہے اور ان قرضوں میں جو سو فیصد کاروبار اور کمانے کے لئے، لئے جاتے ہیں فرق کرنا ہوگا اوراس پر اجتہادہو سکتاہے۔ یہ مناسب نہیں ہے کہ ایک بندہ دوسرے سے یا کسی ادارے سے کاروبار کے لئے قرض لے مگر جب وہ منافع کمائے تو وہ اس کا اکیلے کا ہو اور واپسی صرف اسی رقم کی ہو۔

    یہ سوال بھی اہم ہے کہ ہمارے روپے کو قدر کی کمی کا سامنا ہوتا ہے جیسے آج سے دس پندرہ برس پہلے آپ ایک کروڑ میں پانچ مرلے کا جو مکان لے سکتے تھے اب وہ دو کروڑ میں ملتا ہے اور آج سے دس پندرہ برس پہلے آپ ایک کروڑ میں جتنا سونا لے سکتے تھے اب اسی ایک کروڑ میں اس کا چوتھا پانچواں حصہ بھی نہیں لے سکتے تو ایک شخص جس نے دوسرے سے ایک کروڑ لیا، ایک مکان لیا، اس کا کرایہ بھی لیتا رہا اور اس کی ویلیو بھی بڑھتی رہی مگر جب سے ایک کروڑ روپیہ لیا اسے ایک کروڑ ہی واپس کر ے تو یہ مناسب ہوگا؟

    میں اس پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کے اصولوں پر عملدرآمد ہمیں بہترین سماجی اور معاشی ماحول فراہم کرتا ہے۔ ہمارے اپنے روئیوں کی خرابی اور محنت کی کمی کو اسلامی احکامات کی خرابی اور کمی نہیں کہا جا سکتا۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ اسلامی اصولوں اور احکامات پرخواہ مخواہ کی تنقیدیا پھکڑ بازی کم آئی کیو لیول والوں کے ایمان کو خراب کرتی ہے جو معاملات پر فکر اور تحقیق کی اہلیت نہیں رکھتے سو کم از کم مسلمانوں کوا س پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    میں یہ نہیں مانتا کہ یہ سوال اسلام کی دوستی اور ہمدردی میں اٹھائے جاتے ہیں کیونکہ یہ شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں جو ففتھ جنریشن وارمیں پہلا حملہ ہے۔ میرا سوال ہے کہ اگر اسلامی بینکاری اوراس پر علمائے کرام کی رائے غلط ہے تو آپ کے پاس متبادل اور درست اسلامی ماڈل کیا ہے، ظاہر ہے کچھ نہیں، آپ صرف ہمارا دل خراب کر رہے ہیں۔ اگر ہم خود اپنی دشمنی کریں گے تو ہمارا دشمن کیا کرے گا۔