کیا آپ کے لئے حیرت انگیز نہیں کہ پاکستان کو کسی قطار، شمار میں نہ لانے والے امریکی کانگریس مین اور سینیٹرز یہاں کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے قراردادیں منظور کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ ذاتی سطح پر پوسٹس اور ٹوئیٹس بھی۔ انہیں اس امر میں کیا دلچسپی ہے کہ عمران خان جیل میں ہے اور اسے رہا ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے مگر اتنا ہی شرمناک بھی ہے۔
پاکستانیوں بارے ایک امریکی وکیل نے جو گھٹیا کمنٹس دئیے تھے امریکی سیاستدانوں کی حالت اس سے بھی کم تر، گھٹیا اور بُری ہے کہ وہ عین آئینی اور قانونی طور پر کرائے پر دستیاب ہیں۔ پاکستانی اگر کوئی غلطی یا جُرم کرتے ہیں تو اس ملک کا آئین اور قانون اس کی حمایت نہیں کرتا، اسے سپورٹ نہیں کرتا مگر امریکی سیاستدانوں کو ڈالروں کے بدلے خرید لینا ان کے مطابق سو فیصد جائز ہے۔
امریکا کا آئین لابنگ فرمز کو باقاعدہ قانونی حیثیت دیتا ہے اور میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی بڑی بڑی لابنگ فرمزہر سال لاکھوں ڈالرز کا ریونیو کما لیتی ہیں جیسے براوسٹین کا 2023ء میں 62.7 ملین کا ریونیو، ایکن گمپ کا54.7 اورہالینڈ اینڈ نائٹ کا47.7 ملین ڈالر، بی جی آر گورنمنٹ افیئرز ایل ایل سی اور کارنر سٹون گورنمنٹ افیئر کا بالترتیب41.8 اور 41.4 ملین ڈالر۔ یہ لابنگ کی ایک بڑی انڈسٹری ہے جو سینیٹرز اور کانگریس کے ارکان کو خرید سکتی ہے، ان سے پیٹیشنز سائن کروا سکتی ہے، ایوان میں سوالات کروا سکتی ہے۔ یہ انڈسٹری صحافی بھی خریدتی ہے اور پھر وہ صحافی اقوام متحدہ تک میں جا کے سوالات کرتے ہیں۔
میں نے امریکہ سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کرنے والے پروفیسر شبیر احمد خان سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ امریکی سینٹرز اور کانگریس مین کو بہت سارے معاملات کا علم نہیں ہوتا مگر دنیا بھر کی تنظیمیں اور ممالک تک امریکہ میں اور امریکہ سے اپنی بات کہلوانا چاہتے ہیں سو ان تک رسائی کے لئے یہ طریقہ کار وہاں کے قانون اور ضابطے کے مطابق غلط نہیں ہے۔ عبداللہ حمید گل بھی ان معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ لابنگ کی قانونی اور اخلاقی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ اگر ایک ثابت شدہ مجرم کے لئے کس طرح جسٹی فائیڈ ہے کہ وہ ڈالرز دے کر امریکی ارکان خرید لے اور اپنے حق میں دباو ڈلوا لے۔
سینئر اینکر اور تجزیہ کار پی جے میر کہتے ہیں کہ جو بھی ہو، طریقہ کار یہی ہے اور اگر آپ بھی امریکہ میں اپنی بات کہلوانا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی لابنگ کرنا ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری حکومتیں بہت سارے اللے تللے کرتی ہیں، فضول خرچیاں کرتی ہیں اور جہاں پیسے خرچ کرنا چاہئیں وہاں نہیں کرتیں جیسے مسئلہ کشمیر۔ انہیں کون روکتا ہے کہ اس کے لئے وہ لابنگ فرمز ہائر کریں، امریکہ کو مجبور کریں کہ وہ بھارت پر دباو بڑھائے۔ ان کی بات زمینی حقائق کے عین مطابق ہے مگر کیا یہ اخلاقی تقاضے بھی پورے کرتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ قیمت پر مؤقف اور حمایت کا دستیاب ہونا ہرگز کسی اخلاقی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ منظرنامہ بہت سادہ ہے کہ گولڈ سمتھ فیملی کے ڈالر چلتے ہیں اور امریکی ایوان نمائندگان میں دونوں بڑی جماعتوں کے ارکان اکٹھے ہو کے انسانی حقوق کے نام پر پی ٹی آئی کے حق میں ایک قرارداد منظور کر لیتے ہیں حالانکہ پاکستان میں ایک آئینی حکومت اور عدالت موجود ہے جو کام کر رہی ہے مگر وہ غزہ کے معاملات پر کوئی قرارداد منظور نہیں کرتے۔ وہ کپواڑہ کے قتل عام کے اکتیس برس گزرنے کے باوجود بھارت کو اس کے فوجیوں کو سزا دینے کے لئے نہیں کہتے۔
یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مکمل نفی پر مُودی کی سرزنش نہیں کرتے مگر کرائے پر دستیاب ہو کے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائیاں سن لیتے ہیں جیسے ابھی پاکستان کے کچھ ریاست مخالف اینکرز اور ایکٹیویسٹس ایک کمرہ کرائے پر حاصل کرتے ہیں اور کچھ ارکان بھی، پاکستان کی فوج اور حکومت کے خلاف جھوٹ کا بازار گرم کرتے ہیں۔
مجھے وہ امریکی یاد آجاتا ہے جس نے کہا تھا کہ پاکستانی پیسوں کے لئے اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں تو میرا سوال ہے کہ امریکی کیا بیچ رہے ہیں؟ ڈاکٹر شبیر احمد خان نے میرے سوال پر کہا کہ امریکی اس لئے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں نہ ٹوئیٹ کرتے ہیں اور نہ ہی قرارداد کہ وہاں جیوش لابی بہت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ ایک دلچسپ بات بتاتے ہیں کہ ایلون مسک جیسی شخصیات کے مقابلے میں امریکی کانگریس مین بہت غریب ہیں۔ وہ اپنا خرچہ اسی فنڈ ریزنگ، ڈونیشن اور آنریریم سے نکالتے ہیں۔
میں امریکی آئین میں دی گئی لابنگ کی اجازت اور امریکی ارکان پارلیمنٹ کی اخلاقیات پر سوال اٹھاتا ہوں تو یہ کیا غلط ہے۔ آپ کچھ بندے جمع کریں، وہاں ایک ڈنر کا خرچہ کریں اور امریکی پارلیمنٹ کے کسی بھی رکن کو بلا لیں۔ وہ آپ سے درخواست لے لے گا، آپ کے ساتھ فوٹو شوٹ کروا لے گا اور اپنے آپ کو آپ کے مفاد کے لئے حاضر کر دے گا۔ کیا یہ ضمیر فروخت کرنے جیسا نہیں ہے اور اگر یہی کام پاکستانی سیاستدان یا صحافی کرے تو اسے کرپٹ کہتے ہیں، لفافہ کہتے ہیں۔
کچھ لوگ گمراہ کرتے ہیں کہ عمران خان کے ذاتی تعلقات موجود ہیں کہ وہ ایک کرکٹر رہا ہے مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ کیا ہم اس کے سابق سسرال کو نظرانداز کرسکتے ہیں اور اس کی سابق اہلیہ اور سالا۔ اس کی سابق بیوی پاکستان کے ان تمام یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس سے ملتی اور ان کے ساتھ فوٹو شوٹ کرواتی ہے جو پاکستان کی فوج کے بھگوڑے ہیں یا پی ٹی آئی کے اینٹی سٹیٹ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ جیسے عادل راجا۔ ایسے میں کیا ہم بھارت اور اسرائیل کی طرف سے پاکستان مخالف فنڈنگ کو نظرانداز کرسکتے ہیں جس کے شواہد الیکشن کمیشن میں سماعت کے دوران بھی ملے اور پی ٹی آئی پر غیر قانونی فنڈنگ ثابت ہوئی۔
یہ پاکستان مخالف قوتوں کا ایک اتحاد ہے جو امریکا میں پاک فوج کے سپہ سالار کی تصویریں لگا کے ٹرک بھی چلواتا ہے اور کانگریس کے ارکان کے ساتھ ساتھ صحافی بھی خریدتا ہے۔ اگر یہ کوئی نظریاتی جدوجہد بھی ہے تو اس کی بنیادپاکستان کی دشمنی ہے۔ پاکستان کی فوج اور حکومت کی دشمنی ہے اور امریکا کی لابنگ کی صنعت ان کی سہولت کاری کرتی ہے۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ لابنگ کی صنعت بنیادی طور پر صحت اور ماحولیات جیسے امور کے لئے ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کی تنظیمیں اور حکومتیں امریکہ کی توجہ اور فنڈز لے سکیں مگر کیا لابنگ کی یہ انڈسٹری واقعی انہی اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے تواس کاجواب نفی میں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ امریکا میں سوچنے سمجھنے والوں کولابنگ کی اس انڈسٹری بارے غوروفکرکرتے ہوئے کچھ اخلاقی حدود و قیود میں لانا ہوگا ورنہ امریکی سیاستدان شرمناک طریقے سے کچھ مالدار مافیاز کے مفادات کے تحفظ کے لئے برائے فروخت موجود رہیں گے اور وہ اسے آنریریم، فنڈ ریزنگ اور ڈونیشنز جیسے صاف ستھرے نام دیتے رہیں گے۔