زندگی بالکل ویسی نہیں جیسی فلموں، کتابوں اور کہانیوں میں بتائی جاتی ہے اور نہ ہی زندگی گزارنے کے اصول۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بہادری بہت بڑی شے ہے اور ہیرو ہمیشہ بہادر ہوتا ہے اور ایسا بہادر جو کشتوں کے پشتے لگاتا ہے اور لاشوں پر سے مسکراتا ہوا گزر جاتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے ہیرو ہمارے ڈاکٹر، انجینئر اور پروفیسر کیوں نہیں ہوتے۔ میرے کالم کا عنوان آپ کی سوچ سے اس اشتہار جیسا متضاد ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ ہم عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ کپڑوں پر داغ نہیں لگنے چاہئیں مگر وہ داغ جو کچھ سیکھتے ہوئے لگ جائیں، واشنگ پاوڈر کا اشتہار بتاتا ہے وہ اچھے ہوتے ہیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ ہم سب کنفیوژن سے بھاگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ معاملات میں کلئیریٹی، ہونی چاہئے اور اسی کلئیریٹی کو لانے کے لئے کہیں تحقیقات ہوتی ہیں اور کبھی اسی کلئیریٹی کے نام پر یو ٹیوبرز اپنا جھوٹ، سچ بیچتے ہیں اور ہم میں سے کئی بلکہ ملینز ان کی باتیں سنتے ہیں، سو اگر میں یہ کہوں کہ کنفیوژن تو اچھی ہوتی ہے تو آپ حیران ہوں گے۔
میرے پاس اس سلسلے میں بہت ساری مثالیں موجود ہیں جیسے ایک خود کش حملہ آور کو اگر کنفیوژ کر دیا جائے کہ جب وہ پھٹے گا تو اس کا استقبال کرنے کے لئے جنت کی حوریں نہیں بلکہ دوزخ کے فرشتے کھڑے ہوں گے تو وہ خود کش حملے سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک بیوی اپنے شوہر اور یا ایک شوہر اپنی بیوی کی بے وفائی کے بارے میں پورا یقین نہ رکھتا ہوں بلکہ ابہام کا شکار ہو تو معاملات درست بھی ہوسکتے ہیں۔
میں کنفیوژن سے واپس بہادری کے موضوع پر آتا ہوں، بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ نڈر ہوں، بہت سارے لوگ اپنے بچوں کو باہر گلی، محلے میں اکیلے کھیلنے کے لئے بھی بھیج دیتے ہیں مگر ایسی ہی بہادری کے چکر میں ایسے بچے گم بھی ہوجاتے ہیں اور جنسی زیادتی کا شکار بھی جن کے والدین انہیں بہادر بنانا چاہ رہے ہوتے ہیں مگر وہ بچے محفوظ رہ جاتے ہیں جن کے والدین خوفزدہ ہوتے ہیں او ربچے گھروں میں۔
میں ڈیفنس میں چھ افراد کی ہلاکت کے ذمے دار افنان کی طرف آ نا چاہ رہا ہوں۔ یقین کیجئے مجھے اس بچے کی شکل میں نہ بدمعاشی نظر آتی ہے اور نہ ہی مجھے وہ کوئی غنڈہ لگتا ہے۔ نہ اس کے چار بازو ہیں اور نہ ہی سولہ ٹانگیں مگر اس کا دماغ خراب اسی بے خوفی نے کیا ہے جو اس کے والدین نے اسے دی۔ بہت سارے والدین جن میں کئی ارب پتی بھی ہوسکتے ہیں اور کئی جج، جرنیل اور بیوروکریٹ بھی، اپنے بچوں میں اپنا احساس برتری منتقل کرنے کے لئے انہیں کہتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں کریں، وہ فکر نہ کریں، وہ ہیں ناں، وہ انہیں بچا لیں گے۔
ماہرین کہتے ہیں ہر احساس برتری اصل میں احساس کمتری کی بگڑی ہوئی شکل ہوتی ہے۔ احساس برتری کا ننانوے فیصد شکار وہ لوگ ہوتے ہیں جوبنیادی پر گھٹیا، کمینے، چھوٹے اور دونمبر ہوتے ہیں مگر اپنی انہی تمام باتوں کو چھپانے کے لئے وہ اپنے اندر دولت یا عہدے کے ذریعے احساس برتری پیدا کرتے ہیں تاکہ اپنے احساس کمتری کا چھپا سکیں۔ احساس برتری کی بنیاد میں چھپے ہوئے احساس کمتری کو ہمارا معاشرہ بھی اس وقت سپورٹ کرتا ہے جب وہ کسی کے کئی کروڑ کے گھر یا کئی کروڑ کی گاڑی پر واہ واہ کرتا ہے۔
میرے کچھ دوست جو اچھے خاصے ہیں یعنی علمی طور پر بھی، فکری طور پر بھی، مالی طور پر بھی او ر شہرت کے طور پر بھی۔ وہ جب میرے ساتھ بیٹھتے ہیں، کپڑوں کو ڈسکس کرتے ہیں اور میں سوچتاہوں کہ ان کی سوچ کپڑوں میں کیوں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ ڈیفنسوں، بحریہ ٹاونوں یا ایسے ہی ممی ڈیڈی علاقوں میں رہنے والے بہت سارے نو دولتیے دراصل بدترین احساس کمتری کا شکار ہیں۔ انہوں نے کچھ جائز اور بہت زیادہ ناجائز دولتیں تو حاصل کر لیں یا کسی بڑے عہدے پر پہنچ گئے ہیں مگر ان کے اندر سے ان کا چھوٹا پن نہیں نکلتا اور وہ انہیں ڈرائے رکھتا ہے کہ کہیں لوگ تمہیں پہچان نہ لیں۔
یہ عجیب تضاد ہے کہ اس ڈر پر قابو پانے کے لئے پھر وہ عجیب وغریب حرکتیں کرتے ہیں جیسے اوور سپیڈنگ اور کٹیں، مارنا، معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب آپ شیطان کی راہ پر چلتے ہیں تو آپ کے اندر کا شیطا ن بھی مضبو ط ہونے لگتا ہے بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ آپ خود ایک شیطان بن جاتے ہیں۔
میں تو وزیراعلیٰ کے ساتھ متاثرہ خاندان کے وارث کی گفتگو سن کر حیران اور پریشان رہ گیا۔ وہ بتا رہا تھا کہ گاڑی میں افنان کا باپ بھی موجود تھا اور وہ اس کو ہلہ شیری دے رہا تھا۔ اس نے گمان ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کواس ریس کی تربیت دے رہا تھا جو ڈیفنس فیز سکس اور ارد گرد کی خالی بڑی سڑکوں پر نودولتیوں کے بچے لگاتے ہیں اور اپنی گاڑیاں تباہ کرتے ہیں۔ کیا ہی عجب زوال ہے کہ ایک لڑکا جس پر الزام ہے کہ وہ دوسری گاڑی میں بیٹھی لڑکیوں کو چھیڑ رہا تھا ساتھ میں اس کا باپ بھی تھا۔ یہ نودولتیوں کے معاشرتی اور خاندانی زوال کی انتہا ہے۔
میرا دل یہ سن کر پھٹ گیا کہ گاڑی کو ہٹ کرنے اور چھ بندوں کو جان سے مارنے کے بعد انہوں نے مارپیٹ بھی کی۔ بے شرمی کی انتہایہ ہوئی کہ انہوں نے عدالت میں ہوٹنگ بھی کی اورمٹھائی بھی تقسیم کی۔ میں جب نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی یہ گفتگو سن رہا تھا تو میرے دل میں آ رہا تھا کہ میں کہوں، محسن نقوی سپیڈ ثابت ہوگئی کہ وہ سب سے تیز ہے مگر یہ صرف سڑکوں اور پلوں کی تعمیر تک نہیں رہنی چاہئے۔
محسن نقوی سپیڈ معاشرے سے عنقا ہوتے ہوئے قانون کے خوف اور زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی اخلاقیات پر بھی چلنی چاہئے، جی ہاں، آئین اور قانون کا خوف سب کو ہونا چاہئے کچھ خوف تو بہت اچھے ہوتے ہیں، وہ انسانوں کی زندگی، عزت اور صحت کے محافظ ہوتے ہیں۔ یہ خوف ریاستیں ہی پیدا کر سکتی ہیں جب وہ قانون شکنوں کو عبرت کا نشان بناتی ہیں مگر ہمارے ہاں اوپر سے نیچے تک یہ خوف ختم ہوچکا ہے۔
ہم نے یہاں پر آئین سبوتاژ ہوتے دیکھے ہیں، طاقتوروں اور ارب پتیوں کو قانون پاؤں تلے روند کر بھاگتے ہوئے دیکھا ہے، ہم نے یہاں پر طاقتوروں کے لئے ججوں والے دروازے بھی کھلتے ہوئے دیکھے ہیں سو ایک غریب بھی یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ اشارہ توڑ کے بھاگ سکتا ہے تو اسے بھاگنا چاہیے، یہی طاقت ہے اور اسی میں عزت ہے۔ سوشل میڈیا پر گالی اسی لئے دی جاتی ہے کہ یہ سسٹم گالی دینے والا کا منہ نہیں توڑتا۔ ہم اخلاقیات کا جنازہ نکالنے اور قانون شکنی کرکے بعد نتائج سے بے خوف معاشرے میں افنان پیدا کرتے رہیں گے۔ جان لیجئے او رمان لیجئے کہ کئی خوف اچھے ہوتے ہیں۔