محکمہ موسمیات کے ریجنل ڈائریکٹر شاہد عباس بھلے آدمی ہیں، بتا رہے تھے کہ تین جولائی سے شروع ہونے والی مون سون کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی ہواوں کے دو نظام بھی ساتھ ہی مل گئے جس کی وجہ سے بدھ کے روز موسلادھار بارش ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمعرات کو بھی ہلکی پھلکی بارش کا سلسلہ جاری رہے گا جس کا آپ میرا کالم پڑھتے ہوئے مشاہدہ اور تجربہ کرچکے ہوں گے اور آج جمعے سے اتوار تک تیز بارشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا جو ملک بھر میں پھیل جائے گا۔
مجھے تیز بارشوں سے صرف ایک گلہ ہے کہ ان میں امیروں کے سنگ مرمر سے بنے محل دھل کر نکھر جاتے ہیں مگر غریبوں کے کچے کوٹھے ڈھے جاتے ہیں۔ میں بدھ کے روز ہونے والے نقصانات کو دیکھ رہا تھا جس میں دس سے بارہ لوگ جاں بحق ہو گئے، یقینا زندگیوں کا کوئی مول نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کے رحمت، زحمت بھی بن جاتی ہے اگر وہ اعتدال سے باہر ہو۔
میرا تو شروع سے ہی کہنا ہے کہ اعتدال سے باہر عبادت جیسی اچھی شے بھی نہیں ہونی چاہئے کہ اگر ایسا ہوتا تو میرا رب رہبانیت کو جائز قرار دے دیتا۔ ظاہر ہے حد سے بڑھی ہوئی بارشیں مصیبت کا باعث ہیں مگر شاہد عباس بتا رہے تھے کہ اس کی وجہ سے ہمارے ڈیم بھر جائیں گے، چاول کی فصل کو بھرپور پانی ملے گا اور موسم کے بہتر ہونے سے بجلی کی طلب میں پانچ ہزار میگا واٹ تک کمی ہوگی جس سے اربوں ڈالر کا فرنس آئیل بچے گا کیونکہ بڑھی ہوئی طلب میں اضافی بجلی ہم امپورٹڈ فیول سے ہی تیار کر رہے ہیں۔
میری منیجنگ ڈائریکٹر واسا لاہور غفران احمد سے بات ہوئی۔ وہ بتا رہے تھے کہ ان کے محکمے نے بارش رکنے کے بعد ایک گھنٹے میں لکشمی چوک کلیئر کر دیا حالانکہ جب میں نے صحافت شروع کی تھی تو اس وقت لکشمی چوک میں ایک روز بارش ہونے کے بعد تین، تین روز تک پانی کھڑا رہتا تھا اور اب تین گھنٹے بھی نہیں رہتا۔
میں کبھی کبھی اندرون لاہور دو موریہ پل کے باہر دو، دو فٹ پانی میں کھڑے اس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ اپنی تصویر بھی دیکھتا ہوں جس میں شہباز شریف نے لانگ بوٹ پہن رکھے تھے اور وہ سخت احکامات جاری کر رہے تھے مگر اب اندرون لاہور کی بھی وہ حالت نہیں صرف تاجپورہ کا علاقہ ایسا ہے جو بڑا کریٹیکل پوائنٹ ہے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب بدھ کی سہ پہر لاہور کے مختلف علاقوں میں گھومتا پھرتا رہا۔ کینال روڈ پر درخت گرا تھا تو میرے پہنچنے تک متعلقہ عملے نے اسے کاٹ کے سڑک کلئیر کر دی تھی اور یہی حال بہت ساری دوسری سڑکوں کا تھا۔ تاجپورہ کے علاوہ دوسرا بڑا مسئلہ کلمہ چوک ڈوبنے کا ہوا اور وہاں بڑا مسئلہ انتظامی تھا کہ اس کا کنٹرول سی بی ڈی کے پاس تھا۔
میں نے دیکھا کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی وہاں پر پہنچے اور انہوں نے موقعے پر احکامات جاری کئے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ وزرائے اعلیٰ یا وزیروں کی بارشوں میں آنیاں جانیاں فوٹوشوٹ کے لئے ہوتی ہیں مگر میں اس پر پوری طرح کنوینس ہوں کہ ایسے حکمران جو مشکل میں عوام کے ساتھ کھڑے ہوں، ان کدووں، سے کہیں بہتر ہیں جو گھروں میں بیٹھے رہیں۔ کون اس امر سے انکا رکر سکتا ہے کہ شہباز شریف کے دورے مختلف شہروں میں انتظامیہ کو متحرک کرنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں اور جو کام دنوں میں ٹھیک ہونے ہوتے ہیں وہ گھنٹوں میں ہوجاتے ہیں۔
مجھے علم ہے کہ پروگرام کرتے ہوئے اور کالم لکھتے ہوئے اگر نوحے پڑھے جائیں، سیاپے کئے جائیں تو وہ سپر ہٹ رہتے ہیں لیکن اگر میں نے بھی وہی کچھ کرنا ہے جو باقی سب کر رہے ہیں تو ان میں اور مجھ میں کیا فرق رہ جائے گا۔ میں جانتا ہوں کہ ہمارے سیاسی حکمران ہوں، ہماری اوپر تک کی بیوروکریسی ہو یا نیچے تک کلر ک وغیرہ، ہم سب ہی درست نہیں ہیں مگر کیا کریں کہ ہم سب یہی ہیں۔
میں نے واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک یونین کے ترجمان جاوید اقبال سے ٓشکوہ کیا کہ بآرش شروع ہونے پر جو بجلی گئی وہ بارش کے دس گھنٹے تو ایک طرف رہے اس کے بھی بہت بعد بحال ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس لیسکو میں عملہ ہی بہت کم ہے اور فالٹ کی صورت میں بجلی کی بحالی کا کام بارش ختم ہونے کے بعد ہی شروع ہو سکتا ہے، ہاں، وہ فیڈر ضرور بحال کر دئیے جاتے ہیں جو شدید بارش میں کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے خود بند کئے جاتے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ اس برس کے چھ میں چھبیس لائن مین شہید ہو چکے ہیں۔
میں نے خود بھی دیکھا کہ گیلے کھمبوں اور گیلے درختوں میں ہی ہمارے یہ مجاہد بجلی کی بحالی کا کام کر رہے تھے اور ان کے پاس جدید حفاظتی انتظامات بھی نہیں ہیں۔ میں نے واسا کے سیور مینوں اور دیگر عملے کو بارش کے دوران بیس، بیس گھنٹے تک کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جب باقی لوگ گھروں میں پکوڑے بنانے اور موسم کو انجوائے کرنے کے دوسرے طریقے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم میں سے بہت سارے دوست شکوہ کر رہے ہیں کہ ان کی گلی، محلے میں بہت دیر تک پانی کھڑا رہا اور کوئی اسے نکالنے نہیں آیا۔ ان کا یہ شکوہ درست ہے مگر دوسری طرف کیا یہ بات بھی درست نہیں کہ بہت ساری گلیوں، چوکوں او رمحلوں میں پانی صرف اس وجہ سے کھڑا رہ جاتا ہے کہ وہ کوئی ایک ڈکا، جو خود بھی کھولا جاسکتا ہے اس کے لئے سرکاری عملے کا انتظار کیا جاتا ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ کسی زمانے میں ہمارے پاس ہر محلے میں نوجوانوں کی ویلفیئر سوسائیٹیاں ہوا کرتی تھیں۔ یہ نوجوان اپنے اپنے علاقوں کی خدمت کرتے تھے۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے بھی ایسا ہی ایک ماڈل بنایا تھا۔ اب وہ سب کچھ نظر نہیں آتا۔ اپنے اپنے علاقوں میں کچھ اچھا کرنے کی بجائے ہمیں ہر علاقے سے نوجوان اپنے اپنے علاقے کی شکایتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ بہت سارے محلوں، چوکوں اور سڑکوں سے پانی نکالنے کے لئے ٹیکنیکل سٹاف اور بھاری مشینری کی ضرورت ہی نہیں۔ صرف دو ہاتھ اورا یک بانس چاہئے اور ان سے پہلے ایک ایسی ویلفیئر سوسائٹی جو گلی محلوں کا کوڑا کرکٹ خاص طور پر شاپنگ بیگ، سخت گتے اور کپڑے وغیرہ سیوریج میں جانے سے روکیں۔ پھر اگر وہ چلے جائیں تو نوجوان متحد ہو کر اسے بارش کی ایک انجوائے منٹ بنا لیں کہ انہوں نے ڈکے کھولنے ہیں۔ جب وہ ڈکے کھول رہے ہوں تو اس کی ویڈیوز بنائیں اور بتائیں کہ ہم نے اپنا علاقہ خود سے ڈوبنے سے بچا لیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ برائی کی طرح اچھائی بھی وائرل ہوتی ہے۔ اگر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ محسن نقوی اس طرح کے ماڈلز کے لئے خصوصی فنڈز مختص کر دیں، ایسے ایک ہزار لوگوں کو انعامات دیں تو ہمارا بہت سارا لوڈ کم ہوجائے گا۔
مجھے یقین ہے کہ بہت سارے نوجوان اسے ون ویلنگ اور نشے سے زیادہ مزے دار سمجھیں گے۔ ویسے بھی مجھے ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا ہے کہ جو نشہ انسانیت کی خدمت میں ہے وہ کسی دوسری شے میں نہیں ہے۔ ہمیں یہ نشہ اپنے نوجوانوں کو لگانے کی اشد ضرورت ہے۔