Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Khush Aamdeed Hamza Shahbaz

Khush Aamdeed Hamza Shahbaz

حمزہ شہبازکی پونے دو برس کی جیل کے بعد رہائی نے ایک مرتبہ پھرمسلم لیگ نون کو یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں لا کھڑا کیاہے کہ حکمرانوں اوران کے ساتھیوں کا کرپشن کے حوالے سے بیانیہ عوام کے ساتھ ساتھ قانون کی عدالت میں بھی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے دوست شہباز شریف کی اس سے پہلے ہونے والی ہائیکورٹ سے ہونے والی ضمانت کے ساتھ ساتھ خواجہ سعد رفیق کی سپریم کورٹ سے ضمانت کے تاریخ ساز فیصلے کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں نیب کی تمام ترکاررائیوں کے سامنے ایک بڑاسوالیہ نشان بنا دیا۔ وہ شاہد خاقان عباسی کے کیس کے ساتھ ساتھ رانا ثناءاللہ اور حنیف عباسی کے کیس بھی بیان کرتے ہیں جن میں حکمرانوں کے اقدامات ہی نہیں بلکہ نیتیں بھی درست نظر نہیں آتیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کرپشن کے بیانئے نے تباہی اور ناکامی کے سوا ریاست کو کچھ نہیں دیا۔

مجھے ہمیشہ سے مقتدر حلقوں کی اس پالیسی پر حیرت رہی ہے کہ ان کے ماتحت ادارے نواز لیگ میں ان لوگوں کو پکڑ لیتے ہیں، جیل میں ڈال دیتے ہیں، ان کی بہو بیٹیوں کو عدالتوں میں گھسیٹتے اور اشتہاری تک قرار دیتے ہیں جو مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پارٹی میں مفاہمت کا بیانیہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ یوں بھی ایک ہاتھ سے صرف تھپڑ پڑ سکتا ہے، مفاہمت کی تالی نہیں بج سکتی۔ میں یہ ہرگزنہیں کہتاکہ سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مفاہمت نہیں چاہتے مگر بہرحال ان کا بیانیہ او ر طریقہ مختلف ہے۔ میں پارٹی کے سوشل میڈیا کی بات بھی نہیں کرتا جو ہر وقت لڑو اورمروکی بات کرتا ہے۔ میں ان کارکنوں، عہدیداروں اورارکان اسمبلی کی بات کرتاہوں جو میدان میں موجود ہیں، اپنی پارٹی سے وفاداری بڑے بڑے خطرات مول لے کر اوربڑی بڑی قیمتیں ادا کر کے نبھا رہے ہیں اور وہ بہرحال لڑو اورمروکی پالیسی کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ بات دوسروں کو بہت دیر سے سمجھ آئی کہ انہوں نے شہباز شریف کو ٹارگٹ کر کے خودکونقصان پہنچایا ہے۔ میں پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے اپنے سینئر صحافی اور تجزیہ کاردوست کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر حمزہ شہباز کو اس لئے رہا کیا گیا ہے کہ نواز لیگ میں مریم نواز کا راستہ روکا جا سکے تو دیر ہوچکی ہے۔ مریم نوازکی سیاسی گاڑی کی رفتار تیز ہوچکی ہے اور اب اس کوروکنا ناممکن اوراس کے سامنے آنا عقلمندی نہیں۔ بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ اپنے اپنے والدین کی سرپرستی میں مریم اور حمزہ دونوں کو علم ہے کہ ان کی طاقت اورکمزوریاں کیا کیا ہیں۔

کیا پھر بھی حمزہ شہباز، مریم نواز کے مقابلے پر آئیں گے کہ پارٹی کی تنظیم اور ارکان اسمبلی میں جو تعلق اور اثرورسوخ وہ رکھتے ہیں وہ مریم نواز کے پاس نہیں ہے مگر حمزہ شہباز یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے تایا نے اپنی سیاسی وراثت اپنی بیٹی کے نام لکھ دی ہے اور پاپولر ووٹ بہرحال اس وقت مریم کو فالو کر رہا ہے۔ میں حمزہ شہباز کے مریم نواز سے الگ ہونے کی بات مان لیتا اگر میں انہیں سیاسی فراست سے عاری سمجھتا اور اگر میں سمجھتا کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی سے غداری کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے نواز شریف کی محبت میں وہ قرض بھی چکائے ہیں جو ان پر واجب بھی نہیں تھے۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب پرویز مشر ف کی آمریت میں پورے خاندان کو جلاوطنی کا آپشن لینا پڑا تھا اور گارنٹی کے طورپر جس نوجوان کو یہاں دشمنوں کی بھیڑ میں اکیلا چھوڑا گیا وہ حمزہ شہباز تھا۔ اس نے اپنے خاندان کا کاروبار بھی دیکھنا تھا اور پارٹی کی سیاست بھی اور وہ اس سخت ترین امتحان میں ناتجربہ کار ہونے کے باوجود سرخرو ہوا تھا۔ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہوچکی اور ان میں سے بہت سارے وہ ہیں جو بارہ اکتوبر ننانوے کو بھی یہی سمجھ بیٹھے تھے۔ ہمارے سامنے نئی پودکی سیاسی تاریخ مشرف دور سے شروع ہوتی ہے مگر اس وقت بھی یہی سمجھا گیا تھا جب غلام اسحق خان نے خود کو گاڈفادرسمجھ لیا تھا اور پھر نہ غلام اسحق خان رہے نہ عبدالوحید کاکڑ، نہ پرویز مشرف رہے اور نہ سجاد علی شاہ اور ارشاد حسن خان، نہ راحیل شریف طاقت کے مدارالمہام رہے اورنہ ثاقب نثار۔

پی ٹی آئی کے دوست ٹیکنیکل باتیں کرتے ہیں کہ ضمانت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ الزام اورمقدمہ ہی ختم ہو گیا ہے مگر ہمارے قانونی امور کے زمینی ماہر یہی سمجھتے ہیں کہ اگر ضمانت ہو گئی توسمجھو کہ آدھاکیس ختم ہو گیا اب صرف پیشیاں ہی پیشیاں ہیں اور یوں بھی نیب کے اب تک بنائے گئے سیاسی مقدمات کو دیکھا جائے توان میں بڑے بڑے دعووں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کبھی کوئی منظور پاپڑوالاآجاتا ہے اور کبھی مشتاق چینی۔ کبھی کوئی دودھ والا آجاتا ہے اور کبھی کوئی کریانے سٹور والا۔ نیب کی کوریج کرنے والے رپورٹروں کو فیڈکی گئی اطلاعات کے ذریعے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فول پروف مقدمہ تیار ہے اور جج صاحب کے سامنے پیش ہوتے ہی سزا ہوجائے گی مگر پھر معاملات کچھ اور نکلتے ہیں اورنیب حکومت سمیت تمام تر اہم اداروں کی پشت پناہی کے باوجود ناکام ہوجاتا ہے۔ حمزہ شہبازاکیس ماہ تک نیب کی تحویل میں رہے ہیں جبکہ تحقیقات اس سے بھی بہت پہلے شروع کر دی گئی تھیں۔ یہ ایک بہت ہی مناسب عرصہ تھا کہ حمزہ شہباز پر الزامات ثابت کر دئیے جاتے جو اب تک نہیں ہوسکے۔ یوں لگتا ہے کہ نواز لیگ کے لئے خوشخبریوں کا سیزن چل رہا ہے۔ پہلے براڈ شیٹ والے معاملے میں حکومت کو سبکی ہوئی اوراس کے بعد لندن فلیٹوں والا معاملہ یوں ختم ہوا کہ خود براڈشیٹ کو شریف فیملی کو ہرجانہ ادا کرنا پڑا۔ نواز لیگ کے لئے نوشہرہ سے کامیابی ایک بہت بڑا سرپرائز تھا اور تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود ڈسکہ اوروزیرآباد میں اپنی سیٹیں اور ساکھ بچا لینا بہت بڑی کامیابی اور اب حمزہ شہبازکی ضمانت۔

حمزہ شہباز، مریم نوازکی طرح فرنٹ فٹ پرآکر کھیلنے کے عادی نہیں ہیں کہ ان کا سیاسی کھیل مختلف ہوتا ہے۔ لوگ اسے چاہے جو مرضی کہتے رہیں مگر یہ شریف فیملی کی کامیاب حکمت عملی ہے کہ اس نے تمام آپشن اپنے اندر ہی چھپا کے رکھے ہوئے ہیں یا معروف محاورے کے مطابق ان کے تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں ہیں۔ مجھے خواجہ عمران نذیر اور ملک وحید کی یہ بات درست لگتی ہے کہ حمزہ اورمریم، ایک اور ایک مل کر گیارہ بن جائیں گے۔ عشروں میں نواز شریف اور شہبازشریف کومائنس نہیں کیا جا سکا، الگ الگ نہیں کیا جا سکا، اگر یہ پختہ کار بچے اپنے والدین کی فہم و فراست ساتھ لے کر چلتے رہے تو یہی پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا چہرہ ہیں۔