Saturday, 15 March 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Kitab Zinda Hai Magar

    Kitab Zinda Hai Magar

    میرے ایک پروفیسر دوست نے شہر کے ایک معروف تجارتی مرکز میں میرے ساتھ گھومتے ہوئے شکوہ کیا کہ یہاں کتابوں کی دکان ہوا کرتی تھی لیکن اب یہاں جوتوں کی دکان کھل گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیائی دانش، کا وہ معروف فقرہ دہرایا کہ اس قوم کوکتابوں کی نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نتیجہ نکالا کہ ہماری نوجوان نسل علم اور دانش سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

    میں نے ان کی طرف حیرت سے دیکھا اور پوچھا، آپ صرف ایک دکان کے بند ہونے یا کھلنے سے جوتوں اور کتابوں کی ضرورت کا آپس میں موازنہ کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ آسان زبان میں کتابوں کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے مگر کیا یہ کتابوں کا کاروبار ہے یا پبلشنگ، پرنٹنگ کا، اگر آپ مجھ سے روایتی چھاپے خانوں والے پرنٹرز اور پبلشرز کے کاروبار کی بات کریں گے تو میں آپ سے اتفاق کروں گا۔

    میں نے کہا، جب ہم کتاب کی بات کرتے ہیں تو حقیقت میں علم اور دانش کی ہی بات کرتے ہیں لیکن تھوڑا سا غور کریں گے تو آپ کو جانیں گے کہ علم اور فہم، کاغذ پر شائع ہونے والی کتابوں سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔ علم تک رسائی اتنی آسان ہوگئی ہے جس کا ابھی ربع صدی پہلے، اسی اور نوے کی دہائی تک تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمیں بنیادی طور پر کتاب کے تصور اور ضرورت کو سمجھنا ہوگا۔ کتاب آپ کو پڑھانے کے لئے اور سمجھانے کے لئے ہوتی ہے، اس کے سوا کتاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    جب یہ کتاب کاغذ پر شائع ہوتی ہے تو اس کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کی ضرورت اور دلچسپی کے شائد ایک یا دو ابواب ہوتے ہیں مگر آپ کو پوری کتاب ہی خریدنی پڑتی ہے جیسے ریسرچ اور ریفرنس کی کتابیں۔ اسے خریدنے کے لئے آپ کو بازار جانا پڑتا ہے یا اُدھار لینے کے لئے کسی لائبریری لیکن اگر وہی کتاب، موضوع یا تحقیق آپ کو انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے مل جائے اوراس کی خرچہ بھی کہیں کم اور کہیں بالکل نہ ہو تو کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب پرنٹنگ صورت میں نہ ہونے کی وجہ سے علم اور فہم ختم ہوگیا ہے، نہیں ایسا نہیں، اب اسی کتاب، تصور، علم اور تحقیق تک رسائی ایک کلک کے ذریعے ہوگئی ہے۔

    پروفیسر صاحب نے کہا، یہ ایک رومانس ہے کہ کتاب کو پڑھاجائے، اسے اپنے سرہانے رکھا جائے اور دوسری طرف انٹرنیٹ بے ہودہ مواد سے بھرا ہوا ہے۔ بچے اس پر کتاب اور علم کی طرف جانے کی بجائے وقت کے ضیاع کی طرف جاتے ہیں۔ میں نے جواب میں پروفیسر صاحب کو بتایا کہ یہ معاملہ تو تب بھی تھا جب بچے کتابوں میں ناول رکھ کے پڑھا کرتے تھے۔ میں نے خود جاسوسی، سسپنس اور سرگزشت جیسے بے شمار رسالے پڑھے ہیں۔ یہ چوائس تو آپ کی اپنی ہے کہ آپ نے کیا پڑھنا اور دیکھنا ہے اور اس پر کسی بھی دور میں بھی قدغن نہیں لگائی جا سکی۔ جیسے پہلے ماں باپ بچوں کو یہ بتایا کرتے تھے کہ آپ اچھی کتابیں پڑھیں، بری مت پڑھیں بالکل اسی طرح آن لائن انفارمیشن تک پیرینٹل کنٹرول، جیسے ٹولز آ گئے ہیں۔

    دنیا بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی ہے اور آپ پچھلے زمانے کے آلات کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے۔ علم اور فہم تک رسائی نے اپنی شکل بدل لی ہے اور زیادہ آسان ہوگئی ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی زمانے میں حج اونٹوں پر ہوا کرتا تھا یا پیدل، پھر بسیں آ گئیں اور اب ہوائی جہاز ہیں جو چند ہی گھنٹوں میں آ پ کو مکہ، مدینہ پہنچا دیتے ہیں۔ اب آپ اپنے اصل مقصد کو دیکھئے کہ وہ حج کرنا ہے یا اونٹ کی سواری کرنی ہے۔

    کوئی عالم دین یہ نہیں کہے گا کہ حج وہی ہے جو اونٹوں پر جا کے کیا جائے بالکل حج، حج ہے چاہے سرزمین حجاز تک پہنچنے کا ذریعہ کچھ بھی ہو۔ میں نے ان سے کہا، جہاں تک کتاب سے رومانس کی بات ہے، اب بھی گھروں کی الماریوں میں کتابوں کو بھر لیا جاتا ہے مگر پڑھا نہیں جاتا دوسری طرف آپ اپنے چھوٹے سے ٹیب یا فون میں سینکڑوں کتابیں پی ڈی ایف فارمیٹ میں رکھ سکتے ہیں۔

    میں نے ان سے عدم اتفاق کیا کہ ہماری نوجوان نسل علم سے دور ہوتی جا رہی ہے اورمیری دلیل تھی کہ ایک وقت تھا کہ پورے علاقے میں کوئی ایک ڈاکٹر، کوئی ایک انجینئر یا کوئی ایک ماسٹرز ڈگری ہوا نوجوان ہوا کرتا تھا اور اب گھر گھر میں موجود ہیں۔ ہم اسے مانتے نہیں لیکن خوشحالی کے ساتھ ساتھ علم کے فروغ کی شرح میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے جیسے کسی زمانے میں پورے علاقے میں کسی ایک بندے کے پاس گاڑی ہوا کرتی تھی، کسی ایک گھر میں ٹی وی یا فون ہوا کرتے تھے اور اے سی تو بہت ہی کم اور اب چھوٹی چھوٹی گلیوں میں گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں، بہرحال، خوشحالی سے جڑی ناشکری میرا موضوع نہیں ہے سو یہ پھر کبھی سہی۔

    میں نے اس استدلال سے بھی عدم اتفاق کیا کہ انٹرنیٹ پر درست انفارمیشن نہیں ہے اور کہا کہ اگر آپ ویریفائیڈ ویب سائیٹس پر جائیں گے تو وہاں آپ کو معیاری مواد ہی ملے گا اوراب آرٹیفیشل انٹیلی جنس نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا ہے کہ اب آپ کو جو بھی معلومات درکار ہیں اسے اے آئی کی حامل کسی بھی ایپ میں درج کر دیجئے وہ خود بخود ودرست اور تصدیق شدہ انفارمیشن ایک مضمون کی صورت میں آپ کے سامنے پیش کر دے گی جس کے لئے پہلے آپ کو کئی کتابیں ڈھونڈنی پڑتی تھیں۔ یہ آن لائن خریداری کی طرح ہے کہ آپ کسی معروف، بڑے اورمصدقہ برینڈ سے چیز منگوا لیں۔

    میرے دوست نے دہرایا، اس کے باوجود کتاب ختم ہورہی ہے اور میں نے اصلاح کی کہ کتاب اپنی شکل بدل رہی ہے۔ میں نے اسی دکان کے سامنے کھڑے ہو کے انہیں کہا کہ مجھے بتائیں آپ کو کس موضوع پر درست تحقیق درکار ہے میں اپنے فون سے اسی وقت آپ کو نکال دیتا ہوں۔ اس وقت کاغذ جتنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے ہمیں اسے بھی دیکھنا ہے اور ایک کتاب کے استعمال کے بعد آپ اسے برس ہا برس تک سنبھال کے رکھتے ہیں مگر کمپیوٹر پرا سے ڈیلیٹ بھی کر سکتے ہیں یعنی ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔

    میرا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگوں کے مطابق اخبارات بھی ڈائنگ انڈسٹری، یعنی مرتی ہوئی صنعت ہیں مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ اخبارات بھی اپنی شکل بدل رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا پر اخبارات سے ہٹ کر بھی انفارمیشن کا دریا بہہ رہا ہے مگر اس دریا میں گندگی ہے۔ اخبارات یا میڈیا ہاوسز سے جڑی ویب سائیٹس ہی اب بھی قابل اعتماد خبروں کا ذریعہ ہیں۔ میں اس وقت تک کسی خبر کا یقین نہیں کرتا جب تک اسے کسی خبر دینے والے پیشہ ور اور مصدقہ ادارے کی ویب سائیٹ پر نہیں دیکھ لیتا سو کتاب سے اخبار تک سب زندہ ہیں مگر ایک نئی شکل میں !