Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Lahore Tere Dushman Par Thu

Lahore Tere Dushman Par Thu

لاہو ر جنہیں رہائش اور روزگار ہی نہیں عزت دیتا ہے، عہدے دیتا ہے، شہرت دیتا ہے، د ولت دیتا ہے جب وہ لاہور کو گالی دیتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے جیسے کسی مہربان نے کسی کم ظرف کو گود میں بٹھایاہو، اس کا لاڈ اٹھایا ہواور وہ جوا ب میں اس کی داڑھی نوچے، اس کی گود میں پیشاب کر دے۔ ہوتے ہیں، جی ہاں، ایسے بہت سارے ہوتے ہیں جو اسی سے بغض رکھتے ہیں جو اس پر احسان کرے، اسی سے نفرت کرتے ہیں جو اس سے محبت کرے۔ لاہور جیسا شہر بے مثال کوئی ڈھونڈ کے تو دکھاو۔ اس کی قدموں تلے بچھ بچھ جانے والی مٹی، اس کے نثار ہوجانے والے شہری، ان کی محبتوں کا صلہ یہ ہے کہ ان کے خلاف کالم لکھے جائیں اور ان صفحات پر شائع ہوں جن صفحات پر لاہور کے بے شمار احسانات ہیں، جن کی روشنائی برقرار رکھنے کے لئے لاہوریوں نے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوں، دل لاہور کی بے قدری اور بے عزتی پر دکھ اور غم سے بھر گیا ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ جب بھی لاہور کو برا بھلا کہا جاتاہے تو اس کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہوتا گویا لاہور یتیم ہے، لاوارث ہے جو چاہے اسے گالی دے دے۔

مجھے کہنے دیجئے کہ لاہور دوسرے شہروں اور صوبوں سے آنے والوں کے لئے اپنے اندر نو گو ایریاز نہیں بناتا، یہ شناختی کارڈ دیکھ کر گولی مارنا تو بہت بڑی بات گالی تک نہیں دیتا بلکہ خوش آمدید کہتا ہے، بھوکا ہو تو داتا کی نگری اسے کھانا دیتی ہے مگر اس کے جواب میں اس کی ترقی سے جلا جاتا ہے، اس کی سڑکوں کو دیکھ کر بددعائیں دی جاتی ہیں، زندہ دلان کے خلاف بک بک کی جاتی ہے۔ مجھے یہ سوال کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر لاہور اتنا ہی برا ہے تو تم اپنی ماں کے گھر میں کیوں نہیں رہتے، اپنے باپ کی دکان پر کیوں نہیں بیٹھتے، لاہور کا لہو چوسنے اسے کسی جونک کی طرح کیوں چمٹ جاتے ہو۔ میں نے ایک کالے رنگ کے شخص سے کہا جس کا دل بھی کالا تھا۔ بندہ فنکار تھا، وہ سینکڑوں میل دور سے لاہو رآیا اوربہت ساروں کو کاٹ کر یہاں ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا پی اے بن گیا۔ اس کی جماعت کے دفتر کے سامنے اورنج لائن کا پل بن رہا تھا تو وہ اس کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت کے سربراہ کا تعلق بھی لاہور سے نہیں تھا مگر وہ لاہور میں رہتے اور دھڑلے سے سیاست کرتے تھے۔ میں نے سوچا کہ کیا کسی پنجابی کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ خیبرپختونخوا، سندھ یا بلوچستان میں رہ کر سیاست کر سکے، یہ لاہور کا ہی ظرف ہے، یہ لاہور کا ہی دل ہے، یہ لاہور کا ہی جگرہے۔ کالے منہ اورکالے دل والا کہنے لگا کہ یہ میرے وسائل لوٹ کر لاہور پر لگائے جا رہے ہیں تو میرا قہقہہ نکل گیا۔ میں نے کہا کہ اپنے شہر کی ٹیکس کولیکشن دیکھو اور اس کے بعد اس قسم کا الزام لگاو۔ یہ لاہور ہی ہے جس میں بیٹھے تمام وزیراعلیٰ یہ کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو اس کی آبادی کے شئیر سے بھی دو، تین فیصد زیادہ دیا جائے تو لاہوری اس پر خوش ہوتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں۔ لاہور کی ستائیس ارب سے بنی میٹرو کو جنگلہ بس کہنے والے، اس کے خلاف بک بک کرنے والے، خیبرپختونخوا کی ایک سو ستائیس ارب میں بنی ہوئی میٹرو کے خلاف کیوں نہیں بولتے۔ جب سیاسی شہرت کے لئے لاہور میں چھ ہزار ارب کے پیکج کا اعلان کیا جاتا ہے تو تب اسے تخت لاہور نہیں کہتے کیونکہ مجھے علم ہے کہ یہ جو لاہور سے نفرت ہے یہ جہاں کسی اور سے نفرت ہے وہاں اپنی اپنی مقامی اور پسندیدہ قیادتوں کی نااہلی کو چھپانے اور تحفظ دینے کی ناپاک کوشش ہے۔

یہ کالے دلوں اور کالے مونہوں والے جو کہتے ہیں کہ لاہور ان کو لوٹ کر کھا گیا تو پھر یہ لاہور کیا لینے آتے ہیں۔ ان کے ہر دلعزیز رہنما اپنے گھر لاہور میں کیوں بناتے ہیں، یہ اپنے بچوں کو ایچی سن میں پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں تاکہ ان کے بچے نسل درنسل ان پر حکمرانی کریں جن کے وسائل یہ خود لوٹ کر کھا گئے۔ یہ خود ہر مہینے کروڑوں کی رائلٹیاں لیتے رہے مگر جب اپنے شہروں کی ماوں کو زندگی دینے اور بچوں کو تعلیم دینے کی بات ہو، سڑکوں اورپلوں کی ضرورت ہو تو اس کے لئے کبھی آواز بلند نہیں کرتے۔ یہ اپنی رائلٹیوں کے لئے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں اور پھر دیہاڑیوں کے لئے اسلام آباد پر۔ اگر لاہور برا ہے تو تم جیسے فنکاروں کو اپنی جنم بھومی میں رہنا چاہئے تھاتاکہ تم اپنی دھرتی اور اپنے شہر کے بیٹے، اپنی دھرتی اور اپنے شہر کی سیوا کرتے۔ وہاں کی خدمات اور پیداوار میں حصہ ڈالتے۔ جس فنکاری سے تم نے یہاں عہدے لیے ہیں وہاں لے کر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے۔ تم نے اپنی دھرتی اور اپنی ماں کے وفادار نہیں ہو اور لاہور دوڑے چلے آئے ہو تو ا س میں میرا کیا قصور ہے بلکہ قصور تمہارا ہے کہ تم نے لاہوریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے، لاہور میں جو ملازمت لاہوریوں کو ملنی چاہئے تھی وہ تم لے اڑے ہو۔ تم محروم نہیں ہو بلکہ تم لاہوریوں کے حقوق پر ڈاکو ہو۔ لاہور کے ہول سیل کے بازاروں میں چلے جاو چاہے وہاں پختون بھرے پڑے ہیں اور لاہور کے بیٹے وہاں ان کی چاکری کر رہے ہیں مگر لاہور نے تو کبھی شکوہ تک نہیں کیا بلکہ شکوہ کیا کرنا ہے یہ تو نورالامین مینگل کے لاہور کے ڈی سی کے طور پر جانے پر روتا ہے کہ لاہور سے نور چلا گیا، یہ تو عمر شیخ کے جانے پر کُرلاتا ہے، آ نسو بہاتا ہے کہ لاہوریوں کوپولیس والوں کے خلاف ایک دوست ایک محافظ ملا تھا وہ بھی جنوبی پنجاب کے وزیراعلیٰ اور میانوالی کے وزیراعظم نے لاہوریوں کے پاس نہیں رہنے دیا۔

آہ! بڑے دل والا لاہور بولتا نہیں، روتا نہیں، یہ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے سے بھی ڈرتاہے کہ کہیں یہ نہ کہا جائے کہ بڑا بھائی قربانی دینے سے ڈر گیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب سے اقتدار لینے والے بھی یہ نعرہ نہیں لگاتے۔ جب پنجاب پر چھری چلانے کی بات کی جاتی ہے تو یہ صوبے کی گردن بھی پیش کرتے ہیں اور چھری بھی بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ایک حصے میں کیوں کاٹتے ہو، بہاولپور کو الگ کاٹو۔ کیا آپ سندھ یا خیبرپختونخوا کو اس طرح تقسیم کرنے کی بات کرسکتے ہیں جیسی ڈھٹائی اوربے شرمی کے ساتھ تخت لاہور کا نعرہ لگا کر پنجاب کو تقسیم کرنے کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے وزیراعظم کی موجودگی میں جو مردم شماری ہوتی ہے اس میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ ستاون ہزار سے زائد پنجابی بولنے والے کم کر دئیے جاتے ہیں، پنجابی کے لہجے سرائیکی کو الگ زبان ہی ڈیکلئیر کر دیا جاتا ہے کیا یہ حرکت سندھی بولنے والوں سے کی جاسکتی ہے وہ ایسا کرنے والوں کی گردن پر پاوں رکھ کر ایسا دبائیں گے کہ سانس رک جائے گی، آنکھیں باہر نکل آئیں گی۔

لاہور کو گالی دینے والے کاسہ لیس بارہ کروڑ عوام پر تحصیل ناظم کی اہلیت والا ایڈمنسٹریٹر تھوپ دینے پر بھی احتجاج نہیں کرتے کہ یہ پنجاب اور لاہور کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی ہے۔ یہ لاہور کا رش ہیں، یہ لاہور کا گند ہیں، یہ جب عیدوں شب براتوں پر لاہور سے جاتے ہیں تو لاہور صاف ستھرا ہوجاتا ہے، خوبصورت ہوجاتا ہے، پرا من ہوجاتا ہے۔ لاہور اور لاہوریوں کو گالی دینے والوں کے لئے پہلے جواب کے طور پر فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔