صدف نعیم ایک اینکر، ایک رپورٹر تھی اور سچ بات تو یہ ہے کہ بہت سارے اسے جانتے بھی نہیں تھے۔ وہ جس ادارے میں تھی میں نے بھی صحافت کا آغاز اسی ادارے سے کیا تھا لہذا میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ وہاں کیا حالات ہیں۔ وہ الیکٹرانک میڈیا کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈیوٹی پر تھی اور الیکٹرانک میڈیا کا سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر ہے کہ وہ اپنے رپورٹرز کو گاڑی اور کیمرہ مین فراہم کرتا ہے تاکہ وہ کوریج کر سکیں مگر بہرحال اس کی موت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس کے پاس گاڑی نہیں تھی یا کیمرہ مین نہیں تھا۔
گاڑی اور کیمرہ مین تو کاشف سلیمان سمیت بہت سارے دوسرے رپورٹروں کے پاس بھی تھے اور وہ کنٹینر کے ساتھ بھاگ رہے تھے تاکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے کچھ الفاظ کہلوا کے اسے ایکسکلوسو انٹرویو کے طور پر چلا سکیں۔
صدف نعیم کا قاتل ہماری مس مینجمنٹ ہے جو ہمارے صحافتی اداروں سے لے کر سیاسی جماعتوں تک میں ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کوعلم تھا کہ وہ ایک بڑی پولیٹیکل ایکٹی ویٹی کرنے جا رہے ہیں اوراس میں میڈیا والے عمران خان یا پارٹی کے دیگر لوگوں کے ساتھ کثرت سے انٹریکشن کریں گے۔ اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ طریقہ کار ہونا چاہئے تھا کہ میڈیا کے لوگوں کی رسائی کنٹینر تک ہوتی۔
میں مانتا ہوں کہ تمام رپورٹرز اورکیمرہ مین کنٹینر پر نہیں آ سکتے تھے مگر وہ باری باری تو آ سکتے تھے، اس سلسلے میں کوئی شیڈول مرتب کیا جا سکتا تھا کہ جب کنٹینر چل رہا ہو اور عمران خان خطاب نہ کر رہے ہوں تو سب لوگوں کو ایک، دو سوال ریکارڈ کرنے کا موقع مل جائے۔ میں حیران رہ گیا جب کاشف سلیمان نے مجھے بتایا کہ کنٹینر پر جانے کے لئے دس، دس کلومیٹر بھی ساتھ بھاگنا پڑا۔
ایک اندر کی بات بتاتا ہوں کہ جب کسی چینل پر کسی لیڈر کی کوئی گفتگو وغیرہ چلتی ہے تو دوسرے تمام چینلوں کے نیوز روموں میں بیٹھے ڈائریکٹر نیوز سے اسائنمنٹ ایڈیٹرز تک رپورٹروں کو ہدایات جاری کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ انہیں بھی یہ ساٹ (ساونڈ آن ٹیپ) فراہم کیا جائے۔ ہم سبکٹ تھروٹ کمپی ٹیشن، میں ہیں ایسے مقابلوں میں جانیں چلی ہی جاتی ہیں۔
خبررساں اداروں اور سیاسی جماعتوں کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اگر کوئی صحافی مر جائے کہ اس کی جگہ لینے کے لئے بیسیوں موجود ہوتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کوئی کیوں مرے، ہم ایک ایسا اچھا اور مناسب نظام کیوں عملی طور پر نہیں بناتے جیسا ہم سب صحافت کی نصابوں اور کتابوں میں پڑھاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری صحافت ہماری اصولی اور کتابی باتوں سے بہت فاصلے پر ہے۔ مجھے نہیں علم کہ امتنان شاہد نے صدف نعیم کو عمران خان کا کوئی ساٹ لینے کے لئے کہا ہو گا یا وہ خود ہی جذبے اور شوق میں کنٹینر کے ساتھ بھاگتی چلی جا رہی ہو گی کہ کنٹینر سڑک کے ڈیوائیڈر کے ساتھ ا ٓگیا اور ساتھ بھاگتے ہوئے بیچ میں کچلی گئی۔
قذافی بٹ، لاہور کا ساکھ والا اور جگرے والا صحافی ہے اور میں تو اسے ہر وقت اینگری ینگ مین کے طور پر ہی دیکھتا ہوں۔ یہ قذافی ہی تھا جوصدف کو (معلوم نہیں زندہ یا مردہ حالت میں) کامونکی کے ہسپتال تک لے کر گیا اور اڑھائی گھنٹوں تک وہاں رہا جب تک اس کا شوہر نعیم نہیں آ گیا۔ قذافی کنٹینر میں موجود سیاسی رہنماوں اور صحافیوں کی بے حسی پر کس طرح نوحہ خواں ہے، ابھی اس کی باتیں نیوز نائیٹ میں سن لیجئے۔
ایک المیے کے بعد دوسرا المیہ یہ ہوا کہ صدف نعیم کی لاش کو کھانے والی بلائیں آ گئیں۔ ایک بلا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ صدف نعیم کوعمران خان کے گارڈز نے دھکا دے کر گرایا ہے اور ایک غلیط ترین بلا نے اس کے لباس کی تصویریں شئیر کرتے ہوئے اور ہی گندی کہانی بنا دی۔ لاشیں کھانے والی بلائیں صحافیوں میں بھی ہیں، سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں میں بھی۔
نواز لیگ پنجاب کی ترجمان عظمیٰ زاہد بخاری نے لاش کھانے میں ڈیڑھ منٹ بھی نہیں لگایا اور خبر ملتے ہی سیاسی بغض سے بھرا مفاد پرستانہ ٹوئیٹ کر دیا۔ ان لوگوں کی خواہش تھی کہ اسے قتل کہا جائے اور اسے عمران خان کے سر پر ڈال دیا جائے مگر میر ا سوال یہ تھا کہ جب نواز شریف جی ٹی روڈ پر اپنی ریلی نکال رہا تھااور کھاریاں لالہ موسی کے درمیان اس کی پروٹوکول کی تیز رفتار گاڑی نے ایک نوجوان کو کچل کے مار دیا تھا تو اس وقت وہ کیوں چیخے تھے کہ تمام سیاسی رہنما ایک حادثے کو قتل قرار دے رہے ہیں۔
آج وہی لوگ وہی کچھ کر رہے تھے جس پر وہ اس وقت اعتراض کر رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لاشیں کھانے والوں کو اس پر بھی اعتراض تھا کہ صدف نعیم کے شوہر نے اسے حادثہ کیوں قرار دیا اور میں کہتا ہوں کہ آپ کو کسی بھی مر جانے والے کے وارثوں سے بڑھ کے مرجانے والا کا سگا ہونے کوئی حق نہیں۔
مجھے اپنی معاشرے میں لاشیں کھانے والی بلاوں سے بہت ڈر لگ رہا ہے اور معذرت کے ساتھ مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے کہ یہ لانگ مارچ واقعی خونی مارچ نہ بن جائے۔ شیخ رشید کی باتیں سن لیجئے، فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس سن لیجئے، گنڈا پوری کی لیک ہونے والی کال سن لیجئے، خیبرپختونخوا کے اعلیٰ تعلیم کے وزیر کی دھمکی سن لیجئے اور خود عمران خان کا ٹوئیٹ دیکھ لیجئے جس میں وہ انقلاب کے خونریز ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے لوگ اسلام آباد اور اولپنڈی کی سرحد پر اسلحہ اور بندے جمع کررہے ہیں۔ یہ اسلحہ اور بندے کس کا مقابلہ کریں گے کیا ریاست کے اداروں اور اہلکاروں کا یا یہ اپنے ہی بندوں پر فائر کھول کے لاشیں جمع کریں گے اور اس کا الزام رانا ثناء اللہ پر دھریں گے۔ میں کسی بھی جرم میں سب سے پہلے مشکوک اسے سمجھتا ہوں جسے جرم سے فائدہ پہنچ رہا ہو اور نوے فیصد یہ درست ثابت ہوتا ہے۔
مجھے لگ رہا ہے کہ عمران خان اقتدار کے کھونے سے ذہنی عدم توازن کا زیادہ شدت سے شکا ر ہو گئے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں اداروں کو دھمکی دیتے ہیں، اپنے لوگوں سے گالیاں پڑواتے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ خدا کے واسطے دیتے ہیں۔ وہ مسلح افواج کے اپنی قوم کے درمیان معاملات میں نیوٹرل ہونے جیسی عالمی سطح کی مسلمہ خوبی کو جانور ہونا قرار دیتے ہیں۔
میرے ارد گرد لاشیں کھانے والی بلاوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ بہت ساروں نے اپنی شہرت، مقبولیت اوررزق کو کسی نہ کسی لاش سے باندھ لیا ہے اور اسے گھسیٹتے چلے جا رہے ہیں، اسے نوچتے چلے جار ہے ہیں۔ جب تک ہمارا معاشرہ لاشوں کے گوشت سے پیٹ بھرنے والوں کو برا نہیں سمجھے گا لاشیں گرتی رہیں گی چاہے وہ ارشد شریف کی ہو یا صدف نعیم کی اور ان کی بھی ہوسکتی ہیں جو حقیقی آزادی ڈھونڈنے اسلام آباد اور راولپنڈی کی سرحد پر پہنچیں تو اپنے ہی کسی ساتھی کے لائسنسی اسلحے کے چلنے سے لاش میں بدل جائیں۔
میرے صحافی دوست نے کہا، لائسنسی اسلحہ حفاظت کے لئے ہوتا ہے اورمیرا جواب تھا کہ اسلحہ صرف موت بانٹنے کے لئے ہوتا ہے چاہے وہ لائسنسی ہو یا غیر لائسنسی۔